• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ کے اوراق

غوث سیوانی

ہندوستان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے،اُسی طرح ان کی بیگمات اورشہزادیاں بھی منفردالمثال تھیں۔ جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح ، علم دوست اور ادب نوازتھے، اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فن حرب و ضرب میں ماہر اور علم وادب کی دلدادہ تھیں۔ 

ملک کی پہلی خاتون حکمراں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اوراودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب وضرب اورواقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پرجگمگارہے ہیں۔

ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر وفن اورعلم وادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہل علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے، اسی کے ساتھ اپنے دور کے نامور دانشور اور حکماء وعلماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ 

فن حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا ،مگرعلمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہواکرتی تھیں اور پس پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز رہتی تھیں۔

رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکمراں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا، مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پرحکومت کی، اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاندبی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔ 

محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسند شاہی تک پہنچانے کے لیے وہ ہرممکن کوشش کیا کرتی تھیں، تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئیں اور اسی کی سمجھداری نے سلیم کومصالحت پر مجبور کیا۔

ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار تھیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں توکئی مورخہ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نورجہاں، ملکہ ممتازمحل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اورزینت النساء بیگم کے نام شامل ہیں۔

شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فن مصوری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے باپ شمس الدین التمش کے مقبرے کو تعمیرکرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہوچکاہے، مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کاپتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبرپر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ 

تاریخ کے اوراق

اسی طرح نور جہاں نے اعتمادالدولہ کا عظیم الشان مقبرہ تعمیر کراکر اپنے ذوق عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ دلی کی معروف فتحپوری مسجد کی تعمیر ،شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرایا تو دریا گنج کی گٹھا مسجدایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں ، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔

رضیہ سلطان، ملک کی اولین خاتون حکمراں تھی ، جس نے ملک پر شاندار حکمرانی کی، مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیںتھی، مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر کرایا۔

باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو ، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اورمشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمربیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل ہوتے تھے۔ 

ایسی ہی بیگمات میں ایک جہانگیر کی ملکہ نورجہاں بھی شامل تھی جو نہ صرف علم وادب کا ذوق رکھتی تھی بلکہ آرکیٹٹکچر میں بھی جمالیاتی حس کی مالکہ تھی۔ وہ بچپن سے ہی بے حد ذہین تھی ، اس نے ملکہ کے طور پر اپنے اختیارات کو بھرپور استعمال کیا۔ وہ پردے میں رہ کر بھی حکومت کے سیاہ وسپید کی مالک تھی ۔ بادشاہ کو شراب اور کباب کے علاوہ کسی چیز سے غرض نہیں تھی اورکاروبار حکومت نورجہاں کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے کئی عمارتوں کی تعمیر بھی کرائی۔

ہندوستان کی تاریخ میں ،جن دیگر بیگمات کا نام اہمیت کے ساتھ لیا جاتا ہے، اس میں نورجہاں کی بھتیجی ارجمند بانو بھی ہے، جسے دنیا ممتازمحل کے نام سے جانتی ہے ۔ ممتا زکی یاد میں ہی شاہجہاں نے تاج محل تعمیر کرایا تھا۔شاہجہاں کی اس ملکہ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ وہ حسین وجمیل ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد ذہین بھی تھی۔ شاہجہاں کی دوسری بیگم کوبھی اس کے تعمیراتی شوق کے لئے جاناجاتا ہے ، یہ بیگم فتح پوری تھی، جس نے چاندی چوک کی مسجد فتحپوری کی تعمیر کرائی تھی۔ شاہجہان کی بیگمات میں ایک بیگم سرہندی بھی تھی ،جس نے مسجد سرہندی وباغ سرہندی کی تعمیرکرایا۔

تاریخ کے اوراق

شاہجہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دینددار تھیں۔جہاں آرا بیگم ادیبہ وشاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔مغل شہزادیوں میں ایک نام زینت النساء کا بھی ہے، جس نے دریا گنج کی گٹھامسجد کی تعمیرکرائی تھی۔یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیرکرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلی میں کئی تعمیرات کرائیں۔

اسی طرح بیگم اکبرآبادی نے اکبرآبادی مسجد کی تعمیرکرائی اور فخرالنساء خانم نے فخرالمساجد بنوائی۔تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماںتھی۔ بادشاہ بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا، جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔

امراء کی بیگمات بھی علم وفن اور مصوری، خطاطی و آرکیٹکچر کا شوق رکھتی تھیں ،جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔انھوں نے دلی میں کئی تعمیرات کرائیں، جن میں درگاہ شاہ مرداں اورکچھ دیگرتعمیرات شامل ہیں ۔یہ علم وداب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم وادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لئے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں:

گلبدن بیگم، گلرخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو،گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔ لکھنو کی بیگم حضرت محل اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ انھوں نے کئی موقع پر باقاعدہ انگریزوں سے لوہا لینے کی کوشش کی۔

تاریخ کے اوراق

علم وفن کی خدمت کرنے والی اوروقت پڑنے پر میدان جنگ میں اترجانے والی مسلم خواتین ہندوستان کی تاریخ میں کئی مل جاتی ہیں اور وہ دلی تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ باقی ملک میں بھی پھیلی ہوئی تھیں۔ جنوبی ہند میں بھی مسلم ریاستیں تھیں جو کبھی دلی کے ماتحت رہیں تو کبھی خود مختار رہیں اور ان سلطنتوں میں بھی خواتین کا خاصا رتبہ تھا۔ چاند بی بی کا جنوبی ہند سے تعلق تھا،انہوں نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ 

تغلق عہد میں مشرقی ریاست کی راجدھانی جونپور ہوا کرتی تھی، جہاں کے سلاطین کی علم پروری کے سبب ہی اس خطے کو ’’شیرازِ ہند‘‘ کہا جاتا تھا۔یہاں بی بی راجی کی تعمیرکردہ لال دروازہ مسجد فن تعمیر کی شاہکار ہے اور آج بھی پکار پکار کر کہہ رہی ہے یہاں خواتین کا ذوق تعمیر مردوں سے کسی طرح کم نہیں تھا۔اسی طرح گجرات میں بھی مسلم خواتین کی بہت سی شاندار تعمیرات ہیں، جن میں سے کچھ آج تک محفوظ ہیں۔

تازہ ترین