• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی چیف کا دورہ روس

پاکستان کی جانب سے روس سے تعلقات کو بہتر کرنا اس حوالے سے نسبتاً زیادہ دل چسپی سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ دونوں ممالک سرد جنگ کے زمانے میں ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ روس کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ روس اور پاکستان تعاون کے لیے قدم بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے روس سے خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی بنیاد سرد جنگ کے بعداپریل 1999ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف کے دورہ ماسکو سے رکھی گئی تھی۔ اس سے قبل 1974ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ،ذوالفقار علی بھٹو نے روس کا دورہ کیا تھا۔ ان کےدورے کے 25 سال بعد اپریل 1999ء میں کسی دوسرے پاکستانی وزیر اعظم نے روس کا دورہ کیاتھا۔ 

خیال رہے کہ اس وقت پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی اور امریکابھی مو جو دہ دور کی طرح اس وقت پاکستان کے حوالے سے بہت سخت رویے کا اظہار کر رہا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ پا کستان کو صرف امریکی اثر تک محدود رکھنے کے بجائے دو سرے در بھی وا کیے جائیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ اس دورے کے چند ماہ بعدمیاں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیاتھا۔ اور یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں کہ آمروں کی عالمی برادری میں کوئی ساکھ نہیں ہوتی۔ پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان مکمل طور پر خوف زدہ ہو کر فیصلے کرنے لگا۔ لہٰذا روس کے نزدیک پاکستانی کوششوں کی اہمیت برقرار نہیں رہی۔ 

وہ پرویز مشرف یا شوکت عزیز کو تو پاکستانی قوم کا رہنما مان کر مذاکرات کرنے سے رہے تھے۔ لہذامعاملات یوں ہی چلتے رہے،یہاں تک کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد آ نے والی حکومت نے اس کام کا از سر نو بیڑہ اٹھایا۔ اب پاکستان کی آواز ایک منتخب پارلیمنٹ اور اس میں سے طاقت ور ترین رہنما کی تھی۔ عالمی منظر نامے پر بھارت جس انداز میں اپنے پتے پھینک رہا تھا اس سے صاف ظاہرہورہا تھاکہ روس کے لیے بھی پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہ پائے گا۔

ان حالات میں پاکستان کی برّی فوج کے موجودہ سربراہ کے پیش رو نے بھی روس کا دورہ کیا ۔پھر 2016ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نے بھی دورہ کیا۔تاہم برف اس حد تک ہی پگھلی کہ روس نے پاکستان پر سے دفاعی نوعیت کی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ 2014ء میں فوجی نوعیت کا معاہدہ بھی کیا ،مگر مشکل یہ در پیش ہے کہ روس میں یہ قانون موجود ہے کہ جس ملک سے بھی سوویت یونین کے زمانے میں تجارتی تنازع رہا ہو ( جومالی نوعیت کا ہو) اس سے اس وقت تک معاملات آگے نہیں بڑھائے جا سکتے جب تک اس تنازعے کا کوئی حل تلاش نہ کرلیا جائے۔ 

بدقسمتی سے وہ تنازع ہنوز حل طلب ہے۔ روس کے آج بھی بھارت سے قریبی تعلقا ت ہیں اور وہ انہیں برقرار رکھنا چاہتا ہے، مگر بھارت کی معیشت کے پھیلنے کے سبب بھارت،امریکااور یورپ سے بہت تیزی سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔وہ اپنی دفاعی نوعیت کی ضروریات کے لیے امریکا اور فرانس پر انحصار کر رہا ہے۔ روس بجا طور پر یہ محسوس کر رہا ہے کہ بھارت جیسی اسلحے اور دفاعی آلات کی بڑی مارکیٹ اس کے ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہے۔ روس یہ بھی محسوس کر رہا ہے کہ امریکا کی جانب سے پابندیوں کے سبب (جو روس کی بڑی دفاعی کمپنیوں پر عاید ہیں)بھارت اس سے مزید بڑے معاہدے کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ بھارت 2 برس سے روس سے 400 ایس میزائل سسٹم خریدنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے، لیکن وہ جان بوجھ کر انہیں طول دے رہا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورہ روس سے قبل حالات کی کڑی در کڑی ملتی چلی جاتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی ’’ افغا نستان اور جنوبی ایشیا‘‘ کے حوالے سے پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان کے ضمن میںجارحانہ رویے کا برملا اظہار کیا۔ ان حالات میں حکو مت نے بری فوج کے سربراہ کوگزشتہ برس بھی ماسکوبھیجا تھا۔رواں برس فروری کے مہینے میں اس وقت کےوزیر خارجہ خواجہ آصف نے ماسکو کا دورہ کیا۔ ان کے بعد وزیر دفاع بھی ماسکو پہنچے۔ 

اپریل کے آخری عشرے میں قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ نے ماسکو کا دورہ کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ روس اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیروںکے درمیان بہ راہ راست مذا کر ا ت ہوئے۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نےحالیہ دورہ ماسکو کیا۔

ان تمام دوروں کا مقصدیہ ہے کہ پاکستان سے متعلق یہ تاثر دور کیا جائے کہ ہم عالمی برادری میں تنہا ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل جب صدر ٹرمپ نے پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے ’’افغانستان اور جنوبی ایشیا‘‘ کی پالیسی کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی روس ، چین اور ایران نے صدر ٹرمپ کی پالیسی سے اختلاف کا برملا ا علا ن کیا تھا۔ پاکستان کا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گر د ی کے خلاف ہماری بہت زیادہ قربانیوں کے باجودہماری نیت پر شک کیا جاتا ہے۔تاہم وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے برطانوی وزیر اعظم برطانیہ تھریزامے اور جنر ل باجوہ نے روس کی فوج کے سربراہ سے پاکستان کی تعریف میں الفاظ سنےجو خوش آئند ہیں۔

لیکن دوسری جانب روس اب تک افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی بعض پالیسیز سے شاکی ہے۔ روس کو خطرہ ہے کہ ا فغا نستان کی بدامنی اسے مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تاہم اس کے سامنے اب نیا چیلنج یہ ہے کہ امریکا، افغانستان میں طالبان سے مقابلے کے لیے دنیا بھر سے داعش کے لوگوںکو اکٹھا کر رہا ہے۔یہ معاملہ روس اور پاکستان دو نو ں کے لیےتشویش ناک ہے۔ 

اس لیےروس کی خواہش ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے تک پاکستان کا ہم خیال ہو جائے۔ لیکن اس ضمن میں کئی ابہامات موجود ہیں۔یہ آئندہ انتخابات کے بعد آنے والی حکومت پر منحصر ہو گا کہ وہ یہ ابہامات کیسے دور کرتی ہے اور سوویت یونین کے زمانے کے مالی معاملات کا کیا حل نکالتی ہے تا کہ روس اور پاکستان کے درمیان سرد جنگ کے زمانے کی برف ہمیشہ کے لیے پگھل جائے۔ 

تازہ ترین