• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صحت کے شعبہ میں ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال

پاکستان کا ہیلتھ کیئر کا شعبہ متعدد ہسپتالوں، کلینکس اور تشخیصی مراکز کے ایک وسیع و عریض نیٹ ورک پر مشتمل ہے، لیکن ان میں سے تمام اداروں کے انٹرنیٹ پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہیلتھ کیئر کے متلاشی افراد کے لیے ایسی کوئی سہولت موجود نہیں ہے، جس کی مدد سے وہ ایک ہی پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے متعلقہ ماہرین اور سہولیات تک رسائی حاصل کرسکیں۔

’مرہم‘

ٹیک اسٹارٹ ۔اَپ کمپنی ’مرہم‘ اپنی ویب سائٹ marham.pkاور اسمارٹ فون ایپلی کیشن کے ذریعے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ایپ مریضوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کررہی ہے، جس کی مدد سے مریض یا کوئی بھی شخص، پاکستان کے چودہ بڑے شہروں میں کہیں بھی نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں کام کرنے والے ڈاکٹر ڈھونڈ کر ان سے مشورہ کرسکتے ہیں۔

اس ایپ کے ذریعے صارفین آن لائن اپوائنٹمنٹس بک کرنے کے علاوہ ڈاکٹرز سے مفت مشورے بھی حاصل کرسکتے ہیں اور ان کے بارے میں ریویوز بھی لکھ سکتے ہیں۔

’مرہم‘ اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے مختلف ہسپتالوں سے متعلق تازہ ترین معلومات فراہم کرکے نجی ہیلتھ کیئر کے شعبے میں معلومات کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اب لوگوں کو سہولیات کی دستیابی سےمتعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ہسپتال میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس ایپ کے ذریعے معلوم کرسکتے ہیں کہ ان کی مطلوبہ سہولیات کن ہسپتالوں میں دستیاب ہیں۔

یہ اسٹارٹ۔اَپ کمپنی، جنوری 2016ء میں متعارف کرائی گئی تھی اور اب یہ کراچی، لاہور، پشاور، اسلام آباد، راول پنڈی، ملتان، فیصل آباد، سرگودھا، رحیم یار خان، سیالکوٹ، بہاول پور، گوجرانوالہ، قصور، ایبٹ آباد، صوابی اور چارسدہ میں خدمات فراہم کررہی ہے۔اس کے پینل میں 1,500 ہسپتالوں اور 10ہزار سے زائد ڈاکٹروں سے متعلق معلومات موجود ہے۔ ’مرہم‘ کی ویب سائٹ پر روزانہ2,200سے زائد وزیٹرز آتے ہیں، جن میں سے کئی صارفین پاکستان سے باہر رہتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں رہائش پذیر کئی پاکستانی بھی وزیٹرز میں شامل ہیں۔ 

ان میں سے زیادہ تر افراد اپنے ممالک میں بیمہ کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتےاور ان کے لیے پاکستان کے نجی ڈاکٹرز کم قیمت ثابت ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز کی بات کی جائے تو روزانہ اوسطاً 30ڈاکٹر ’مرہم‘ کے پینل پر رجسٹریشن کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔

’مرہم‘ کی ٹیم نے سب سے پہلے دو مختلف ایپلی کیشنز تخلیق کیں، ایک مریضوں کے لیے اور دوسری ڈاکٹروں اورہیلتھ کیئر کی سہولیات کے لیے۔جب بھی ’مرہم‘ کے آن لائن فورم پر کوئی سوال پوسٹ کیا جاتا ہے تو تمام متعلقہ ڈاکٹروں کو ایپلی کیشن کے ذریعے مطلع کردیا جاتا ہے، تاکہ مریض کو فوری جواب دیا جاسکے۔’مرہم‘ کے آن لائن فورم پر ہر سوال کے جواب کو مرتب کرکے جواب دینے والے ڈاکٹر کے پروفائل پیج پر مریضوں کے ریویوز کے ساتھ اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔اس طرح اپوائنٹمنٹ بک کرنے سے پہلے علاج کے متلاشی افراد کے سامنے تمام ضروری معلومات نظر آتی ہیں۔

یہ ا سٹارٹ۔ اَپ کمپنی اب تک تو نجی شعبے سے تعلق رکھنے والی سہولیات کے ساتھ کام کررہی تھی، لیکن اب اسے حال ہی میں اپنا پہلا سرکاری کلائنٹ بھی مل چکا ہے۔’مرہم‘ کا پلیٹ فارم اب مریضوں کو لاہور میں واقع شیخ زاید ہسپتال کے جگر کے ٹرانسپلانٹ کی سہولت تک بھی رسائی فراہم کرتا ہے۔

صحت کہانی

پاکستان میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی چند اسٹارٹ۔ اَپ کمپنیاں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ( ICT) کی مدد سے دوردراز علاقوں میں علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ایسی ہی ایک اسٹارٹ۔اَپ کمپنی صحت کہانی sehatkahani.comہے، جو میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پریکٹس کرنے سے قاصر خواتین ڈاکٹرز کو اپنے گھروں سے ہی پریکٹس کرکے اپنی تعلیم کا فائدہ اُٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ 

’صحت کہانی‘ کی شریک بانی اور چیف ڈيویلپمنٹ آفیسر ڈاکٹر عفت ظفر آغا بتاتی ہیں کہ ان کی ریسرچ کے مطابق، پاکستان کے میڈیکل کالجوں سے ہر سال ستر ہزار خواتین گریجویٹ تو کرتی ہیں، لیکن ان میں سے صرف نو ہزار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں خود کو بطور پریکٹیشنر رجسٹر کراتی ہیں۔ ان میں سے بھی صرف 13فی صد خواتین ڈاکٹرز پریکٹس کررہی ہیں، جب کہ باقی معاشرے یا گھر والوں کے دباؤ میں آکر اپنی تعلیم کا فائدہ نہیں اُٹھا پاتی ہیں۔ یہ ڈاکٹرز اب ’صحت کہانی‘ کی ٹیلی میڈیسن (Telemedicine) سہولت کے ذریعے گھر بیٹھے ہی مریضوں کو مشاورت فراہم کرسکتی ہیں۔

جب’ صحت کہانی‘ کی ٹیم نے سہولیات سے محروم علاقہ جات میں آن لائن کلینکس کھولنے کا فیصلہ کیا تو انھیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ کلینکس کھول کر انھیں ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا بہت مہنگا ثابت ہوگا۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے مختلف این جی اوز اور کمپنیوں کے دیہاتوں میں قائم کردہ کلینکس سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح بالآخروہ ایک ایسی کمپنی کے ساتھ پارٹنرشپ کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس کے پاکستان بھر میں 800کلینکس ہیں۔’صحت کہانی‘ ان کلینکس کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے علاوہ نرسز اور مڈوائیوز (midwives) کو تربیت فراہم کرتی ہے اور آخرکار ایک جزوی حد تک فعال کلینک ’ٹیلی میڈيسن‘ کی سہولت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جہاں پہلے ہر مریض کا معائنہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک لیپ ٹاپ کے ذریعے ان کا ڈاکٹر کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کردیا جاتا ہے۔

پروچیک

عالمی ادارہ صحت کے مطابق جعلی ادویات کی تعریف کچھ یوں ہے: ’’جعلی ادویات سے مراد ایسی ادویات ہیں، جن پر جان بوجھ کر غلط لیبل لگا کر ان کی شناخت کے حوالے سے غلط بیانی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برانڈڈ اور Genericادویات، دونوں ہی کی جعل سازی ممکن ہے اور جعلی مصنوعات میں درست اجزاء بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں، غلط اجزاء بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں، فعال اجزاء غیرموجود ہوسکتے ہیں یا غلط تناسب میں استعمال کیے جاسکتے ہیں، یا جعلی پیکیجنگ استعمال کی جاسکتی ہے‘‘۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں تخلیق کی جانے والی تقریباً30% ادویات جعلی ہوسکتی ہیں۔

پاکستان میں پروچیکprocheck.pk نامی اسٹارٹ۔ اَپ کمپنی موبائل فونز کی ایس ایم ایس ٹیکنالوجی اور دواساز کمپنیوں کے آٹومیٹڈ ڈیٹابیس کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔2014ء میں لانچ ہونے والی یہ کمپنی سیریلائزیشن (Serialization) نامی عمل کی مدد سے دواساز کمپنیوں کی ادویات کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے دوا کے ہر پیک کو ایک منفرد کوڈ جاری کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جعلسازوں کے لیے پیکیجنگ کی نقل بنانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس شناختی کوڈ کو بذریعہ ایس ایم ایس 8776پر بھیج کر دوا اور اس کی میعاد، دونوں کی فوری تصدیق کی جاسکتی ہے۔

ای ہیلتھ پاسپورٹ

e-novatRx نامی ایک اور اسٹارٹ۔ اَپ کمپنی((enovatrx.com نے پاکستان کی پہلی ای فارمیسی کے مراعات کے مینجمنٹ کا سسٹم متعارف کرایاہے۔ یہ سسٹم مغربی ممالک میں تو پہلے ہی کافی مقبول ہے، جسے اب پاکستان میں متعارف کرایا دیا گیا ہے۔یہ سسٹم نجی اور کارپوریٹ صارفین کو جمع کرکے ان کی طرف سے ہیلتھ کیئر کے فراہم کنندگان اور دواساز کمپنیوں سے سہولیات اور ادویات کی قیمتوں میں کمی کے سلسلے میں مذاکرات کرتا ہے۔اس کے لیے پہلے سے موجود ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر e-novatRx نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کا ڈیٹابیس مرتب کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھارہی ہے۔ اس طرح، ادائيگی کی پراسیسنگ کے لیے انھوں نے ٹیلی نار کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے، جس کے ذریعے انھیں ایزی پیسہ موبائل بینکنگ پلیٹ فارم تک رسائی حاصل ہوچکی ہے۔اس کا مقصد اسمارٹ چپ کارڈ استعمال کرکے ایک ای ہیلتھ کے پاسپورٹ کی تخلیق ہے، جس کی مدد سے ہیلتھ کیئر کے متلاشی افراد ملک بھر میں سہولیات کے اخراجات میں رعایت سے فائدہ اُٹھاسکیں گے۔ 

یہ اسٹارٹ۔اَپ کمپنی ایک پرسنلائیزڈ کارڈ میں نصب اسمارٹ چپ میں ضروری میڈیکل معلومات لوڈ کرنے کے بعد اسے کلاؤڈ پر چلنے والے میڈیکل ریکارڈ سسٹم سے لنک کرکے معلومات کا ذخیرہ بھی تیار کررہی ہے، جو اس وقت نہایت بے ربط ہیلتھ کیئر کے شعبے کو اسٹریم لائن کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اس ڈیٹابیس میں صارفین کی الرجیز اور حالیہ نسخوں سے متعلق معلومات شامل ہوگی اور مجاز ہیلتھ کیئر فراہم کنندگان اور دوا فروشوں کو اس معلومات تک ریئل ٹائم رسائی حاصل ہوگی۔

تازہ ترین