تجمل گرمانی
سمیع اللہ چودھری نے 1985میں کامرس کالج بہاولپور میںبطور طالبعلم رہنما ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔ اس زمانہ میں تعلیمی اداروں میں ایک طرف اسلامی انقلاب اور دوسری طرف سرخ انقلاب کی یلغار، قبضہ سیاست، کلاشنکوف کلچر کا راج اور قتل و غارت معمول بنی ہوئی تھی۔ قومی سیاست میں مسلم لیگ ان کی پہلی سیاسی درسگاہ تھی جس کی حمایت سے 1991کے بلدیاتی انتخابات میں انھیں بہاولپور سے پنجاب کے کم عمر ترین کونسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ تنظیمی سفر طے کر تے ہوئے ایم ایس ایف سے مسلم لیگ یوتھ ونگ اور آخر مسلم لیگ کے فعال رہنما بننے میں کامیاب ہو گئے ۔ پیپلزپارٹی کے 1988اور 1993کے اقتدار کے دوران سخت آزمائشوں کا سامنا کر تے ہوئے لاٹھیاں کھائیں ، جھوٹے مقدمات ، گرفتاریوں اور جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں ، ان قربانیوں کا اعتراف کر تے ہوئے انھیں 1997میں بہاولپور شہر سے مسلم لیگ ن کی طرف سے صوبائی اسمبلی پنجاب کا ٹکٹ دیا گیا، وہ واضح اکثریت سے الیکشن جیت گئے اور پنجاب اسمبلی میں انھیں صوبائی پارلیمانی سیکرٹری برائے خوراک منتخب کیا گیا۔ وہ نواز شریف کو قائد اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کر تے تھے ، نواز شریف ایک مرتبہ بطور وزیر اعظم بہاولپور پہنچے تو وہاں غریب کسانوں نے شکایت کر تے ہوئے کہا کہ حاصل پور میں محکمہ انہار کے بدعنوان افسران کی ملی بھگت سے بااثر وڈیرے پانی چوری کر تے ہیں اور ٹیل کے کسان اور ان کی فصلیں خشکی سے مر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے موقع پر پہنچ کر محکمہ انہار کے بدعنوان افسران کو رنگے ہاتھوں پانی چوری کر تے ہوئے پکڑ لیا اور انھیں معطل کردیا گیا ۔ محکمہ انہار کے افسران نے وزیر اعظم کے اقدام کے خلاف ہائیکورٹ سے رجو ع کر لیا اور لاہور ہائیکورٹ بہاولپور ڈبل بنچ نے مذکورہ افسران کوبحال کر دیا، سمیع اللہ خان نے عدالتی فیصلے کو نواز شریف کی توہین سمجھتے ہوئے اس کے خلاف پرجوش ہو کر جلوس نکال دیا ، چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا اور انھیں نااہل قرار دے دیا گیاجس کے بعد وہ اسمبلی رکنیت اور سرکاری عہدے سے محروم ہو گئے ۔ سمیع اللہ خان کو نواز شریف کی محبت کے جرم میں 12برسوں تک نااہلی کی سزا بھگتنا پڑی ، 2002، 2008کے انتخابات نااہلی کے بھینٹ چڑھ گئے اور آخر پیپلزپارٹی حکومت کے دوران 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ان کی سزا ختم ہو گئی ، وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی بے رخی کے باعث سخت دلبرداشتہ تھے ۔
جب بھی کوئی شخص پوچھتا ہے کہ مسلم لیگ ن کیوں چھوڑی تو سمیع اللہ خان موبائل فون پر ریکارڈ شدہ پیغام آخری پیغام سناتے ہوئے فرط جذبات سے آبدیدہ ہو جاتے ہیںاور کہتے ہیں مسلم لیگ ن کو ناقدری کی وجہ سے چھوڑ دیا ، ایسے میں مخدوم خسرو بختیار نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم کر کے مجھے شمولیت کی دعوت دی تو اسے قبول کر لیا ، عہد کر لیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے محروم عوام اور آئندہ نسلوں کی بہتری کے مشن کے لئے کام کروں گا، آئندہ الیکشن جنوبی پنجاب محاذ کے پلیٹ فارم سے ہر اس جماعت کے خلاف لڑوں گا جو ہمارے مطالبے کو منشور میں شامل نہیں کر ے گی، ان کا اشارہ مسلم لیگ ن کی طرف تھا۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ مسلم لیگ ن کے چھ ارکان قومی اسمبلی نے تشکیل دیاجن میں مخدوم خسرو بختیار، طاہر چیمہ، رانا قاسم نون، چودھری طاہر اقبال، مخدوم باسط سلطان، طارق مزاری شامل تھے لیکن عجیب بات ہے کہ محاذ کی عوامی رابطہ مہم کے دوران ملتان ، ڈیر ہ غازی خان، بہاولپور ڈویژنوں سے جتنے بھی موجود ہ اور سابقہ ارکان اسمبلی نے شمولیت کا اعلان کیا سب مسلم لیگ ن سے وابستگی رکھتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے کرم داد واہلہ (خانیوال)، ذیشان گرمانی(کوٹ ادو)،سردار قیصر عباس مگسی (لیہ)، علمدار قریشی (مظفر گڑھ)، مرتضی رحیم (مظفر گڑھ)، خان محمد جتوئی ( مظفر گڑھ)، سابق ایم پی اے سہیل شاہ کھگہ، پیر جمیل شاہ سمیت اوچ شریف کے سجادہ نشین افتخار حسین گیلانی، بزردار قبیلے کے چیف فتح محمد بزدار (تونسہ)، سردار مقصود لغاری(ڈیرہ غازی خان) جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شامل ہو چکے ہیں ، سردار ذوالفقار کھوسہ، سلطان محمود ہنجرا،نواب آف بہاولپور، چودھری اشفاق (لیہ) سمیت متعدد سیاسی خانوادے مشاورت میں مصروف ہیں ، ایسے لگتا ہے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ مسلم لیگ ن کے گلے پڑگیا ہے ۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا سیکرٹریٹ لاہور میں ہے جبکہ ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور میں عوامی رابطہ مہم کے بعد وہاں بھی دفاتر کھل رہے ہیں۔ اہم سوال ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کس پارٹی ، پرچم، نشان اور منشور سے آئندہ الیکشن میں حصہ لے گا، فی الحال کچھ بھی حتمی طور پر طے نہیں ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مینار پاکستان کے تاریخ ساز جلسہ عام کے دوران جو گیارہ نکاتی انتخابی منشور دیا اس میں صوبہ جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے لہذا قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے درمیان جلد مذاکرات ہو گے جس میں طے ہو گا کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے امیدوار تحریک انصاف کے نشان بلے پر الیکشن میں حصہ لیں گے ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا آزا د حیثیت سے حصہ لیں گے ۔ تحریک انصاف کے سنیئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ کے صدر اور مسلم لیگ فنگشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارو صبغت اللہ راشدی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سیکرٹریٹ کا دورہ کر کے قائدین سے مذاکرات کر چکے ہیں ، پیپلزپارٹی کی جانب سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی رابطے کر رہے ہیں ،مسلم لیگ( ن) ابھی تک محاذ کو غیر سنجید ہ لے رہی ہے اور اسے علاقائی تعصب پر مبنی تحریک قرار دے رہی ہے کیونکہ جنوبی پنجاب صوبہ قائم ہونے کے بعد مسلم لیگ ن اقتدار سے محروم ہو جائے گی لہذا قوی امکان ہے کہ وہ کبھی آئندہ الیکشن میں جنوبی پنجاب صوبہ کو اپنے منشور میں شامل نہیں کر ے گی ۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شامل تمام سیاسی خانوادے اپنے علاقوں میں بہت زیادہ بااثر اور الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک کے تین بڑی سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب صوبہ کی انکاری ہے ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نرم گوشہ رکھتی ہیں ، امکان یہی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا تینوں جماعتوں میں کسی سے اتحادیا آزاد حیثیت کے باوجود اپنی انفرادی شناخت قائم رکھیں گے اور جیت کر الگ پارلیمانی گروپ تشکیل دیں گے ۔