• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نواز شریف اور زرداری میں دوریاں کیسے پیدا ہوئیں؟

نواز شریف اور زرداری میں دوریاں بڑھ گئیں

پرویز شوکت

ملک میں عدالتی نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو رہا ہے بااثر اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے والوں کی گرفت ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے جرائم پیشہ لوگوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ ہو گیا ہے لوگ پکڑے جا رہے ہیں جن کو یہ زعم تھا کہ وہ دولت اور غنڈہ گردی کی بدولت کسی کو سرا اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے وہ گرفتار ہو رہے ہیں۔ اس کا سہرا اور کریڈٹ بہرحال چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور ان کی ججوں کی ٹیم کو جاتا ہے، چیف جسٹس صاحب نے چھٹی کے دنوں سمیت دن رات عدالت لگا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں کبھی یہ نہیں ہوا سپریم کورٹ میں چھٹی کے دن اور رات گئے تک لوگوں کے دکھوں کا مداوہ از خود نوٹسوں کے ذریعے ہو۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی اس محنت اور عام لوگوں کو ریلیف دینے کی پالیسی کے باعث مظلوموں، بے کسوں، یتیموں، بیوائوں اور بے آسرا لوگوں کو جینے کا حوصلہ ملا ہے جن مظلوموں اور بے یار و مددگار لوگوں کو سول عدالتوں سے سالہا سال انصاف نہیں ملتا تھا انہیں سپریم کورٹ سے چند منٹوں میں انصاف مل رہا ہے۔


ملک میں نئے الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام نے بڑے بڑے جلسے کرنے شروع کر دیئے ہیں سیاسی جماعتوں نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ مختلف سیاسی جماعتیں اپنی اپنی صف بندی بھی کر رہی ہیں اس وقت تک پیپلزپارٹی، تحریک انصاف نے کسی جماعت کے ساتھ تو انتخابی اتحاد یا اشتراک نہیں کیا ابھی تک تحریک انصاف کا شیخ رشید صاحب کی عوامی مسلم لیگ سے اتحاد منظر عام پر آیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم بہادر آباد کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں جبکہ جمعیت العلمائے اسلام مسلم لیگ ن کی اب تک اتحادی بھی ہے اور جماعت اسلامی کے ہمراہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد میں بھی شامل ہے، بعض ماہرین اور سیاستدانوں کو آئیندہ انتخابات کا انعقاد بر وقت ہوتے دکھائی نہیں دے رہا ہے جبکہ بعض کی رائے میں نئے انتخابات ہونے کا امکان نہیں بلکہ ہم ٹیکنو کریٹ حکومت کی سمت جا رہے ہیں۔ ہماری رائے میں انتخابات کے انعقاد میں تاخیر لازمی امر ہے اس کی وجہ حلقہ بندیاں اور ان پر اعتراض ہے۔ اگر انتخابات ہوئے تو تاخیر یقیناً ہو گی بر وقت نہیں ہو سکتے۔ ابھی نگراں وزیراعظم کی تقرری کا معاملہ ہے۔ نگراں وزیراعظم پر اتفاق بہت مشکل ہے اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص آصف علی زرداری کو پیشکش کی ہے کہ بے شک نگراں سیٹ اپ اپنی مرضی کا بنا لیں مگر ہمیں اس بھنور سے نکالنے میں ہماری مدد کریں مگر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا رویہ نواز شریف انکے خاندان کے حوالے سے خاصہ سخت ہے۔ آصف علی زرداری کو پارٹی کا ایک بااثر حلقہ اب نواز شریف سے ملاقات کرنے یا افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے سے روکے ہوئے ہے ویسے آصف علی زرداری صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ جمہوریت کے تحفظ کی خاطر نواز شریف سے ہر ممکن تعاون کیا جب اقتدار میں آگئے تو اپنی ہر بات کو بھلا کر آنکھیں ماتھے پر رکھ دیتے ہیں اور گردن میں سریا آجاتا ہے مگر اب ہم ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ ان کے بقول میاں نواز شریف اب سیاست سے فارغ ہیں ہم نے انہیں بہت سمجھایا کہ آرٹیکل 62کا خاتمہ کریں مگر وہ نہیں مانے۔ بہر حال سیاست عروج پر ہے۔ عمران خان نے لاہور کے بہت بڑے جلسے میں اپنے گیارہ نکاتی منشور یا ایجنڈے کا اعلان کر کے اپنی انتخابی سیاست کا عملی طور پر آغاز کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی کراچی میں ایم کیو ایم کےگڑھ لیاقت آباد میں جلسہ کرکے ثابت کر دیا ہے کہ اب پیپلزپارٹی کراچی کی انتخابی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد کے اردو بولنے والے لوگوں کے لئے بہت اچھی جماعت تھی مگر بدقسمتی سے باہمی اختلافات اور غلط پالیسیوں کا شکار ہو کر چار گروپوں میں بٹ گئی یقیناً ان کا ووٹ تقسیم ہو گا اور اس کا فائدہ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ہوگا بہر حال سیاسی جماعتوں کی انتخابی صف بندی شروع ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چند اہم لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے افضل ندیم چن پیپلزپارٹی کے اہم عہدیدار اور امیدوار تھے مگر طویل عرصے کے بعد انہیں پیپلزپارٹی میں خامیاں نظر آنے لگیں اگر وہ کچھ عرصہ پہلے شرجیل میمن اوردیگر لوگوں کا بہانہ تراشتا تو بات اچھی لگتی درحقیقت جب کافی عرصہ پہلے انکے بھائی اور غالباً ماموں نظر گوندل نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اسی وقت افضل ندیم چن کا بھی پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت کافیصلہ ہو چکا تھا۔ چند ماہ قبل سابق وفاقی وزیرنذر گوندل نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری عمر 65سال سے تجاوز کر گئی ہے یہ ہمارا آخری الیکشن ہو گا اگر اب بھی الیکشن نہ جیتے تو پھر کبھی نہیں۔ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں ایسی پوزیشن نہیں کہ وہ پنجاب سے سیٹیں نکال سکے بہرحال اس خاندان نے پیپلزپارٹی کے دور میں بھی اقتدار کے مزے لئے اور اگر عمران خان اقتدار میں آگئے تو وہ پھر مزے لیں گے نظریہ وغیرہ ختم ہو گیا ہے حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف پیپلزپارٹی کے لوگوں کا مجموعہ ہے۔ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے زیادہ تر امیدواروں کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہو گا۔ ایک لمبی فہرست ہے پیپلزپارٹی کے لوگوں کی جو پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور آج تحریک انصاف کے مرکزی عہدیدار بن گئے جن میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین نمایاں ہیں۔ اگر آئندہ انتخابات کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے اگر الیکشن ہوئے تو کسی بھی جماعت کو دوتہائی اکثریت نہیں ملے گی حکومت بنانے کےلئے سیاسی جماعتوں کو کسی نہ کسی سے اتحاد کرنا پڑے گا اگر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے ملکر حکومت بنائی تو عمران خان کی زرداری صاحب کے بارے میں کہی گئی باتیں کہاں جائیں گی ویسے بھی عمران خان صاحب کی کرپشن کے حوالے سے کہی گئی باتیں مشکوک ہو جاتی ہیں جب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے کرپٹ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے جب دونوں جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں تو وہ پوتر اور پاک صاف ہو جائیں گے یہ عجیب منطق ہے۔ مسلم لیگ ن والوں کا یہ الزام اورموقف درست لگتا ہے کہ عمران خان نے سینٹ میں پیپلزپارٹی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ووٹ ڈالا اور انہیں منتخب کرا دیا۔ مسلم لیگ ن کی مہمان حکومت نے ایک سال کا قومی بجٹ پیش کر دیا اگرچہ اپوزیشن نے بہت شور غوغہ کیا مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور بجٹ پیش کردیا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین