• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی کو ایک خط کے ذریعے پی ایس ایل کے انعقاد اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے کامیاب دورے پر زبردست خراج تحسین پیش کیا اور پاکستان کے لئے اُن کی شاندار خدمات کو قابل قدر قرار دیتے ہوئے اس عزم کااظہار کیا کہ مستقبل میں بھی پاکستان دنیا بھر میں یہ پیغام دیتا رہے گا کہ اب ہم ایک محفوظ ریاست ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں آئی ایس پی آر اور تمام سیکورٹی فورسز کی خدمات کی بھی تعریف کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایس ایل کی کامیابی نے دنیا بھر میں پاکستان کے چہرے کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور ہر آنے والے سال میں یہ خوب سے خوب تر ہوتا جارہا ہے جس میں نجم سیٹھی کی فراست کے ساتھ پی سی بی کے دیگر ملازمین اور فرنچائز مالکان کا بھی بڑا کردار ہے۔ پی ایس ایل اور گزشتہ برس ٹرنک والا ورلڈ گروپ کی کوششوں سے پاکستان آنے والے بین الاقوامی فٹبالرز کی آمد نے دنیا کے نقشے پر ایک دفعہ پھر پاکستان کو نیک نامی کے ساتھ ابھرنے کا شاندار موقع دیا جس میں آئی ایس پی آر کا کردار بھی انتہائی شاندار رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ پندرہ سالوں میں جن بدترین حالات کا شکار ہوااور جس انداز سے ہمیں دنیا بھر میں ایک ناکام اور غیر محفوظ ریاست کے طور پر پیش کیا گیا اگر ہم پی ایس ایل بین الاقوامی کرکٹ اور ٹرنک والا لیزرلیگ پر ان سب افراد اور اداروں کے شُکر گزار نہ ہوں جو کہ حقیقتاً ہمارے اصل ہیرو ہیں تو یقیناً یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی کیونکہ انہی کی شبانہ روز کوششوں کی وجہ سے آج ہم فخر سے پی ایس ایل کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ایونٹ کہہ سکتے ہیں جس نے دنیا بھر میں ہمیں سرخرو رکھا ہوا ہے ۔ اگر آرمی چیف نے نجم سیٹھی کی تعریف کی ہے تو وہ سو فیصدی اس کے مستحق بھی ہیں کیونکہ جس انداز سے انھوں نے ابھی تک اس ایونٹ کو اپنی ذہانت اور قابلیت سے پوری پاکستانی قوم کو یکجا کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے موجودہ دور میں اس سے زیادہ ہمیں شاید کسی اورچیز کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر ہم واقعی کشادہ دلی اور خلوص کا مظاہرہ کریں تو پی ایس ایل کی کامیابی کا حصہ بننے والا ہر شخص چاہے وہ فرنچائز کا مالک ہو پی سی بی کے ملازمین ہوں سیکورٹی ادارے ہوں اسپانسرز ہوں یا گراؤنڈ میں آکر ٹیموں کو سپورٹ کرنے والے تماشائی سب کے سب شاباش کے مستحق ہیں ۔ دوسری طرف اگر معاشی اعتبار سے دیکھا جائےتو پی ایس ایل فرنچائز مالکان ہر سال اپنا کروڑوں کا نقصان کرکے اس برانڈ کو کھڑا کررہے ہیں صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کی محبت میں اور یقیناً یہ ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ پاکستان کے وہ تمام بڑے کاروباری ادارے جو اپنی پروڈکٹس کی تشہیر میں سالانہ اربوں خرچ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ پی ایس ایل اور فرنچائزز کا ہاتھ تھامیں اور آگے بڑھ کر اُن کے ساتھ کھڑے ہوں کیونکہ یہ صرف ایک کرکٹ ٹورنامنٹ نہیں بلکہ پاکستان کا مستقبل ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کا نیاابھرنے والا خوبصورت چہرہ ہے۔ گزشتہ تین پی ایس ایل کے بعد ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ کامیابی کی یہ جنگ پی ایس ایل اور فرنچائز تنہا ہی لڑرہی ہیں جبکہ اسپانسرز کا رویہ بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا ہے بلکہ شاید کئی موقعوں پر اسپانسرز نے فرنچائزز کو بہت زیادہ دلبرداشتہ کیا ہے اور اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو پی ایس ایل کے برانڈ پر بہت بُرا اثر پڑے گا۔ ابھی تک پی ایس ایل میں شامل ٹیموں کا فرنچائزفیس اور کھلاڑیوں و کوچنگ اسٹاف کی مد میں سالانہ جو کم از کم ضروری خرچہ ہے وہ لاہور تقریباً چالیس کروڑ کراچی چالیس کروڑ اسلام آباد تیس کروڑ پشاور اٹھائیس کروڑ کوئٹہ ستائیس کروڑ اور نئی شامل ہونے والی ملتان اڑسٹھ کروڑ اور اگر ہم ہر ٹیم کی سالانہ اوسط آمدنی کی بات کریں جو کہ ٹیم کٹ پر لگے لوگوز بیچ کر آسکتی ہے وہ بیس بائیس کروڑ سے زیادہ نہیں اس کے علاوہ پی ایس ایل کی آمدنی سے جو حصہ ملتا ہے وہ الگ ہے مگر وہ بھی بہت زیادہ نہیں اور تیس کروڑ سے اوپر خرچہ کرنے والی ہر فرنچائز کو مسلسل نقصان کا سامنا ہے مگرہم اگر تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ فرنچائز اپنے اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے مربوط حکمت عملی نہیں اپنارہیں اور ہر سال پی ایس ایل شروع ہونے سے صرف تین ماہ قبل ہی نمودار ہوکر کِٹ فروخت کرنا شروع کرتی ہیں کیونکہ مارکیٹ میں گنے چُنے ہی بڑے اسپانسرز ہیں اس لئے وہ ہر ٹیم سے آخر وقت تک سودے بازی کرتے ہیں اور بالآخر ٹیمیں کوڑیوں کے بھاؤ لوگوز بیچ کر رقم جمع کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اس کے ساتھ پی ایس ایل کی اپنی مارکیٹنگ بھی ٹیموں کے کاروبار پر بہت بُرا اثر ڈال رہی ہے کیونکہ پی ایس ایل کی مارکیٹنگ ٹیم کے پاس اسپانسرز کو دینے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے جس میں ٹی وی ائیر ٹائم سے لیکر خصوصی گراؤنڈ برانڈنگ بھی شامل ہوتی ہے جو کہ اسپانسرز کو زیادہ فائدہ پہنچاتی ہے ممکن ہے ٹی وی نشریات حقوق کے جلد ہی ہونے والے نئے سودے کے بعد اس پر اثر پڑے مگر اس سلسلے میں فرنچائزز کو پی ایس ایل کی مارکیٹنگ ٹیم کے ساتھ ملکر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانا چاہیے جس سے دونوں کو فائدہ ہو بلکہ جس طرح ٹی وی براڈکاسٹ رائٹس بیچے جاتے ہیں ایسے ہی تمام ٹیموں کی کِٹس مارکیٹنگ کے رائٹس بھی ایک ہی گروپ کو ہر ٹیم کے لئے ایک مخصوص رقم کے یقینی وعدے پر بیچے جائیں اور اُس سے اوپر کی آمدنی حقوق حاصل کرنے والے گروپ کی ہوبالکل ایسے ہی جیسے ٹی وی کے لئے ہوتا ہے جب کہ بی ٹی ایل کے ذریعے فرنچائزز براہ راست مارکیٹنگ کریں اور پیسہ کمائیں اس طرح اگرٹیموں کی کٹس بیچنے کے اس نظام کو ایک مرکزیت مل جائے تو فرنچائز مالکان نہ صرف زیادہ محفوظ ہوجائیں گے بلکہ اسپانسرزکی آخری دنوں میں ہونے والی سودے بازی سے بھی باہر آجائینگے اور جب ایک ہی ادارہ ساری ٹیموں کے لئے مارکیٹنگ کررہا ہوگا تو اسپانسرز سے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کی جاسکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تین سال کے مسلسل تجربے کے بعد فرنچائز مالکان کو احساس ہوجانا چاہیے کہ ایک مستقل اور مربوط مارکیٹنگ پلان کے بغیر مطلوبہ ٹارگٹ تک نہیں پہنچا جاسکتا لہذا بجائے اس کے کہ صرف تین ماہ کام کیا جائے بلکہ پورے سال اس پر توجہ دی جائے۔ اور اس دوران ٹیموں کو کٹس کی فروخت سے ہٹ کر دیگر ذرائع پر بھی توجہ دینی ہوگی جہاں سے زیادہ سے زیادہ آمدنی ہوسکے ۔ میں حیران ہوں کہ ٹی وی شو جیسے انتہائی جاندار پلیٹ فارم کو کوئی بھی ٹیم ابھی تک کیوں نہ شروع کرسکی اپنے پارٹنر ٹی وی چینل کے ہی خرچے پر اس ٹی وی شو سے پورے سال کے دوران نہ صرف فرنچائز کو ایک انتہائی مشہور اور کامیاب برانڈ بنایا جاسکتا ہے بلکہ ہر ہفتہ ایک قابل قدر آمدنی بھی ہوسکتی ہے جو کہ سال کے آخر میں جاکر کروڑوں روپے بن جاتی ہے۔ بڑے بڑے ٹی وی چینلز اسی فارمولے پر چل رہے ہیں۔ اسی لئے ہر فرنچائز کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک بہتر میڈیا پارٹنر کا انتخاب کریں جو کہ فرنچائز کی کمرشل ویلیو بڑھانے میں ایک جاندار کردار ادا کرے کمزور میڈیا پارٹنر بجائے فرنچائز کو اٹھانے کے فرنچائز کے کندھے پر چڑھ کر اپنی ریٹنگ بڑھاتا ہے جس سے فرنچائز کو کوئی فائدہ نہیں۔ فرنچائز کو دو ٹوک انداز میں میڈیا پارٹنرز سے زیادہ سے زیادہ کمرشل ائر ٹائم لینا چاہیے جو کہ وہ اپنے اسپانسرز کی تشہیر میں استعمال کرسکے اور اس سلسلے میں سب فرنچائز کو ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیے یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو اسپانسرز کو بہت زیادہ متوجہ کرے گا۔ جگہ مختصر ہے بصورت دیگر بی ٹی ایل کےچند بڑے اور بھی ذرائع ہیں جن سے فرنچائزز پورے سال کے دوران ایک بہت بڑی رقم کماسکتی ہیں جلد کسی اور تحریر میں بیان کروں گا۔ مگر ہمیں فخر ہے کہ پاکستانی عوام کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم پی ایس ایل کی شکل میں تیار ہوچکا ہے جہاں سے وہ کم از کم ایک مہینے کے لئے ہی سہی مگر ایک ہوکر خوشیاں بانٹ سکیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین