• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

72ء میں ہمارے ہاں جو جمہوریت رائج ہوئی اس کے چکھنے سے ابکائی آنے لگی۔ ابکائی سے بچنے کیلئے یحییٰ اور مشرف کی آمریت کا امرت دھارا آزمایا تو سانس رکنے اور زندگی کی نبض ڈوبنے لگی۔ بھٹو صاحب کی جمہوریت دیکھی بلکہ بھگتی بھی،بےگناہوں کا قتل‘ سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند، پارٹی کے باغیوں کیلئے دلائی کیمپ اور چند ایک کا ایف ایس ایف کے ذریعے قتل، انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک اٹھی تو جمہوریت کے چمپئن نئے انتخاب پر راضی ہونے کے بجائے ریاست کی طاقت سے جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے ہجوم پر ٹوٹ پڑے۔ قوم نے پھر سے فوجی آمریت میں پناہ لی۔ 10برس کی چلہ کشی کی صعوبت کے بعد جمہوریت ملی تو اس کا خیر مقدم کیا۔ اب اس جمہوریت کے ڈانڈے راجیو گاندھی‘ کبھی گجرال کے ساتھ ملنے لگے۔ سرکاری وسائل کی لوٹ سیل مچی۔ نوبت ملک کے دیوالیہ ہونے تک پہنچ گئی تو قوم کو پھر آمریت کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں لوگوں نے مارشل لاء کو خوش آمدید کہا، مٹھائیاں بٹیں، ڈھول پٹے، تاشے بجے۔ 9/11کے بعد پھر اندھیری رات کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں جنہیں عوامی نمائندگی کا دعویٰ تھا اپنی اپنی لوٹ مار کے سیاہ اعمال نامے میں منہ چھپائے دم دبا کر بھاگ نکلے۔ عوام بے یارومدد گار، کہتے ہیں’’جن کا کوئی نہیں ان کا خدا ہوتا ہے‘‘۔ اللہ کی قدرت کرشمہ گر ہوئی اور جہاں سے کوئی امید نہیں تھی وہیں سے روشنی کی کرن پھوٹ نکلی ۔
یہ تھے چیف جسٹس افتخار چوہدری، جنہوں نے صدر پاکستان جنرل مشرف کی دھمکی میں آنے سے انکار کر دیا۔ وہ راتوں رات قوم کی امید کا مرکز قرار پائے ۔ وکلاء ہراوّل بن کر آگے ہولئے اور عمران خان کی’’مُنی‘‘ سی تحریک انصاف طویل القامت احسن رشید کی ثابت قدمی سے شاہراہ دستور پر احتجاج کرنے لگی۔ ججوں نے بڑی بہادری کے ساتھ استقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنے چیف جسٹس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے تو بازی پلٹنے لگی۔ چیف جسٹس کے استقبال کیلئے ہجوم پروانہ وار سڑکوں پر نکلے۔ جی ٹی روڈ پر عوام کی روشن جبینوں سے چراغاں ہوگیا۔ لوگوں نے آمریت اور مشرف کی امریکہ نوازی کیخلاف تحریک کیلئے دیدہ ودل فرش راہ کردئیے۔ پنجاب حکومت نے پرویز الہٰی کی قیادت میں چیف جسٹس کے خلاف’’وہ‘‘ کرنے سے انکار کر دیا جو بعد میں سندھ حکومت اور اس کے اتحادی 12مئی 2007ء کو کرنے پر تیار ہوگئے تھے ۔ خون آلود 12مئی کراچی میں افتخار چوہدری کی راہ کھوٹی کرنے بلکہ اس کے پردے میں آزادی اور جمہوریت کی آرزو کو کچلنے کیلئے برپا کیا گیا۔ قاتلوں کا خیال تھا کہ بےکسوں کا خون رزق خاک ہوا لیکن یہ خون شہیداں تھا۔ بیگناہوں اور انصاف کے ہراوّل وکلاء کا لہو’’رنگ لائیگا شہیدوں کا لہو‘‘ اور شہیدوں کا لہو رنگ لے آیا۔ قوم کو جمہوریت راس آئی نہ آمریت‘نا خواندہ لیڈر نے احمقانہ سا نعرہ لگایا کہ’’کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے‘‘ اس پر گزشتہ برس ایک مضمون بھی باندھا تھا، آج 12مئی کو کالم لکھنے کیلئے گھر سے نکلا تو ذہن میں تھا کہ
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہ کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
دراصل یہ تحریک انصاف میں نئے آنیوالوں کو خوش آمدید کہنے اور پرانے کارکنوں کی ڈھارس بندھانے کا مضمون تھا مگر گاڑی میں دفتر کی طرف آتے ہوئے خیال کی رو بھٹک کر12مئی 2007ء تک جا پہنچی کیا واقعی’’بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوسکتی ہے‘‘۔ شام میں بیگناہوں کے خون کی پیاس لئے عراق، لیبیا، افغانستان سے ہوتی کراچی میں آن اتری۔
جب تک آئین میں(2b) 58موجود رہی، طاقت کے تین مراکز تھے۔ صدر جو افواج پاکستان کے سربراہوں کا انتخاب وزیر اعظم کے مشورے سے کرتے، وزیر اعظم حکومت کے انتظامی اور مالی معاملات نمٹاتے اور فوج کے سربراہ دفاع وطن کے ذمہ دار تھے۔ ملک میں انتشار یا اختلاف کی صورت میں مارشل لاء کی نوبت نہ آتی، صدر اسمبلی توڑ کر نئے انتخاب 90دن میں کروانے کے پابند تھے اور وزیر اعظم کے پاس بھی دوبارہ انتخاب میں جانے کا موقع موجود رہتا۔ نئے انتخاب بہرصورت انتشار اور بدعنوانی کے بےلگام گھوڑے کو روک کر’’جمہوریت کو جمہوریت سے بدل لیتے‘‘۔ جونہی58(2b)کو ختم کیا گیا تب راقم نے اپنے مضمون میں پیش گوئی کی تھی کہ مارشل لاء عنقریب ہمارے دروازے پر دستک دیگا کیونکہ توازن ختم ہوا اور جمہوریت کی ادا ہماری دیکھی بھالی تھی پھر قوم کو زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ’’یحییٰ خان سے کم مدہوش مگر زیادہ سفاک‘‘مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر چیف ایگزیکٹو کا طرہ لگائے ریاست کی دہلیز پر کھڑا تھا۔
مشرف کی طرح ریاست، حکومت اور فوج کا سربراہ ایک ہی شخص مقرر ہوجائے تو ساری قوم مل کر بےپناہ قربانیوں کے بعد نجات حاصل کرے تو کرے ورنہ انجام شام، عراق، لیبیا اور افغانستان سا ہے۔ پرویز مشرف شام کے حافظ الاسد کی بدروح تھے، مقام شکر ہے کہ پاکستان کے وکیل، فوج اور عوام شام کے نہ تھے۔ ہماری فوج عوام کا خون بہانے پر آمادہ نہ ہوتی مگر ریاست فوج اور حکومت کا تن تنہا سربراہ ہو تو وہ مشرف کی طرح غنڈے خرید سکتا ہے ۔ کرائے کے قاتلوں کو جنوبی افریقہ سے طلب کرسکتا ہے اور دہشت گرد فسطائی تنظیموں سے غارتگری کروا سکتا ہے اور مشرف نے کراچی کے عوام اور وکلاء کیساتھ یہی حربہ استعمال کیا اور 12مئی کو کراچی قومی تاریخ کی بدترین حکومتی دہشت گردی کا نشانہ بن گیا ۔ درجنوں لوگ کھلے عام غنڈوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، وکلاء کی بڑی تعداد کو زندہ جلادیا گیا، صوبائی حکومت اور پولیس سہولت کار تھی، شہر کی سب سے بڑی فسطائی جماعت نے قاتل مہیا کئے اور فوج کے سربراہ جو بدقسمتی سے حکمران بھی تھے انہوں نے سرپرستی کی، اسلام آباد کی شاہراہ قائد اعظم پر مکے لہرا کر قاتلوں کے گروہ کو عوامی طاقت کا نام دیا۔ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وکلاء کی تحریک، ججوں کی قربانی، بیگناہوں کے لہو نے جمہوریت بحال کروا دی اور دس سالہ جمہوریت نے کراچی کے قاتلوں سے سیاسی گٹھ جوڑ کئے رکھا اور آج تک اصل مجرموں تک پہنچنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
بدقسمتی کی ’’اماں جان‘‘ خود نظام انصاف اور عدلیہ ٹھہری کہ ایک ایک قاتل کی شکل ٹیلی ویژن کیمروں میں محفوظ ہے نادرا کے پاس مہارت ہے، عدالت کے پاس حقائق جاننے کیلئے ازخود نوٹس کا اختیار ہے، وکلاء کے پاس تنظیم اور قانون کی طاقت ہے، ظلم اور قتل بھی ان کا ہوا لیکن اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور مفادات کیلئے سب نے شہداء کے خون سے نظریں چرائیں۔ عمران خان کا یہ کریڈٹ ہے کہ جب کراچی مافیا کے سربراہ کا نام لینے سے بڑے بڑوں کے منہ میں چھالے پڑتے اور زبان خشک ہوتی تھی تو اس نے بلاجھجک اسے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا اور پیچھا کرتے ہوئے برطانیہ تک جاپہنچا۔ بھلا ہو پیپلز پارٹی کی بزدلانہ خودغرضی کا کہ اس نے برطانیہ سے تفتیشی ٹیم کو پاکستان آکر حقائق جاننے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ اس طرح آمریت اور جمہوریت نے شہداء کے خون کیخلاف ایکا کرلیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں جج اس تحریک کے ہیرو تھے، وکلاء مجاہد تھے اور ہراوّل بھی، ذرائع ابلاغ نے بہادری کی تاریخ رقم کی، تحریک انصاف ان کے ساتھ رہی، آج یہ سارے زندہ موجود ہیں، طاقتور اور بااختیار بھی، چیف جسٹس نیک نام ہیں، متحرک اور بااختیار بھی، میڈیا کے تعاون سے سب کو کھنگال نکالیں، چند ایک کو وعدہ معاف گواہ بنا کر اصل قاتلوں اور مافیا باس کی گردن ناپیں کہ انصاف ہو، نظر بھی آئے اور نشان عبرت ٹھہرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین