• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عُمر کوٹ: قدیم ثقافت کا امین

سیّد ریحان شبیر ، عُمرکوٹ

صوبۂ سندھ کی ثقافت ہزاروں برس قدیم ہے اور سندھ کے تاریخی آثار بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ آج سے ہزاروں برس قبل یہاں کے باسی ترقّی یافتہ تھے۔ صوبۂ سندھ کے تاریخی شہروں میں عُمر کوٹ بھی شامل ہے، جسے مغلیہ سلطنت کےشہنشاہ، اکبرِ اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بعض مٔورخین کا ماننا ہے کہ عُمر کوٹ شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سرکاری باغ کے نزدیک 23نومبر 1542ء بمطابق14شعبان 949ہجری کو ہمایوں بادشاہ کی اہلیہ، حمیدہ بانو کے بطن سے اکبرنے جنم لیا۔ تب شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں اپنی شکست خوردہ فوج کے ساتھ یہاں بسیرا کیے ہوئے تھے۔ ہمایوں نے اکبر کی پیدائش کی خوشی میں مشکِ نافہ کی ایک ڈلی توڑ کر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کی کہ شیر شاہ سوری سے شکست کے بعد وہ بے سرو ساماں ہو گیا تھا۔

حکومتِ پاکستان نے اکبر کی جائے پیدائش پر ایک چھوٹی سی یادگار قائم کی ہے، جہاں مُلکی و غیر مُلکی سیّاحوں کی آمدروفت جاری رہتی ہے۔ مٔورخین کے مطابق، عُمر کوٹ کو ہندوستان کے راجہ، اَمر سنگھ نے آباد کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مٔورخین عُمر کوٹ کو’’ اَمرکوٹ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ گرچہ عُمر کوٹ پر سومرو، تالپور، اور کلہوڑا خاندان نے بھی حُکم رانی کی، لیکن بعض مٔورخین کا ماننا ہے کہ عُمر کوٹ اور اس سے ملحقہ ریگستان کے پہلے حُکم ران ’’پرمار‘‘ تھے، جو ہندوستان کے علاقے، اوجن سے آئے تھے۔

صوبہ ٔسندھ کے تاریخی شہر، عُمر کوٹ سے کئی لوک داستانیں بھی منسوب ہیں ،جن پر متعدد ڈرامے اور فلمز بھی بن چُکی ہیں۔ مشہور عشقیہ لوک داستانوں کے کردار، ’’عُمر، ماروی‘‘ اور ’’ مومل، رانو‘‘ کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ نیز، عُمر کوٹ میں مُلک کی متعدد نام وَر سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات نے بھی جنم لیا، جن میں سندھ کے سابق وزیرِ اعلیٰ، سیّد مظفّر حسین شاہ، آنجہانی وفاقی وزیر، رانا چندر سنگھ، سابق وفاقی وزیر اور رُکنِ قومی اسمبلی، نواب محمد یوسف تالپور، رُکنِ سندھ اسمبلی، سیّد علی مردان شاہ، صوبائی وزیر، سیّد سردار شاہ، ایم این اے، لال مالہی، وزیرِ اعلیٰ سندھ کے معاونِ خصوصی، نواب تیمور تالپور، صدارتی ایوارڈ یافتہ، ڈاکٹر ہرچند رائے لاکھانی، رانا ہمیر سنگھ ، حاجی سراج الدّین سومرو، ڈاکٹر سیّد نور علی شاہ ، خالد سراج سومرو ، علاّمہ عبدالرحمٰن جمالی مرحوم، علاّمہ محمد ہاشم سومرو مرحوم اور پیر ابراہیم جان سرہندی قابلِ ذکر ہیں۔

عُمر کوٹ میں پیدا ہونے والے مغلیہ سلطنت کے عظیم بادشاہ، شہنشاہ جلال الدّین محمد اکبر انتہائی کم عُمری یعنی محض 13برس کی عُمر میں ہندوستان کے حُکم ران بن گئے تھے۔ تاریخ کی کُتب میں درج ہے کہ 1556ء میں ہمایوں کے دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد کلا نور میں اکبر کو تخت پر بٹھایا گیا۔ اکبر کو علم سے خاص دِل چسپی تھی اور انہوں نے اپنے دَور میں ایک عظیم الشّان کُتب خانہ اور ایک دار الترجمہ بھی قائم کیا۔ 

اکبر نے ہندوستان پر 51برس تک حُکم رانی کی۔ وہ اپنے دو بیٹوں شہزادہ مُراد اور شہزادہ دانیال کی موت کا غم بُھلانے کے لیے شراب کا سہارا لینے لگے اور کثرتِ شراب نوشی کے باعث بیمار پڑ گئے اور 13جمادی الاوّل 1014ہجری کو عالمِ فانی سے عالمِ جادوانی کی راہ لی۔ انہیں باغِ سکندری میں دفن کیا گیا۔ ’’تاریخِ فرشتہ‘‘ میں درج ہے کہ اکبر کے پاس 5ہزار سے زاید ہاتھی، کم و بیش 12ہزار گھوڑے،ایک ہزار ہرن، 10کروڑ روپے، لعل خاصہ ایک کروڑ ،سونا غیر مسکوک 10من پختہ، پختہ چاندی غیر مسکوک 70من ، پول سیاہ 60من اور تنگہ 5ارب تھے۔

عُمر کوٹ کو دَورِ اکبری کی یاد گار قرار دیا جاتا ہے ۔ اسی لیے’’عُمر کوٹ عجائب گھر‘‘ میں اُس دَور کی کئی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس عجائب گھر کو 1968ء میں تعمیر کیا گیا ۔ بعدازاں، 2006ء میں اس کی نئی عمارت تعمیر ہوئی۔ عجائب گھر میں مغلیہ عہد کے مخطوطات، ہتھیار، سکّے، شاہی فرمان، شاہی دستاویزات، خطّاطی کے نادر و نایاب نمونے، شاہی خطوط اور عجائب گھر کی تعمیر کے موقعے پر کُھدائی کے دوران ملنے والے جین مَت اور ہندو دھرم کے مجسّمے، قدیم زیورات اور مغلیہ عہد کی تصاویر سمیت دیگر نوادرات موجود ہیں،جو مغلیہ سلطنت بالخصوص دَورِ اکبری اور مقامی ثقافت کی جھلک پیش کرتے ہیں۔یہاں کا تاریخی قلعہ عُمر کوٹ پر حکومت کرنے والے شاہی گھرانوں کی تاریخ سے پُر ہے۔ 

مٔورخین کے مطابق، اس کی بنیاد سومرو دَورِ حکومت (1350-1050ء) میں سومرا خاندان کے پہلے بادشاہ، عُمر سومرو نے رکھی تھی۔ تیرہویں صدی کے آخری نصف میں راجپوت راجا، پرمار سوڈھو نے اس پر قبضہ کیا اور42- 1541ءمیں اس کے جانشین، رانا پرشاد نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو یہاں پناہ دی ۔ جہاں 23نومبر 1542ء کو اکبر کی وِلادت ہوئی۔ اس تاریخی شہر اور قلعے پر سومرو خاندان کے علاوہ راجپوتوں اور کلہوڑوں نے بھی حُکم رانی کی۔ مٔورخین کا کہنا ہے کہ کلہوڑوں کے ورثاء نے یہ قلعہ جودھ پور کے راجہ کو فروخت کر دیا تھا ، مگر 1813ء میں تالپور حُکم رانوں نے قلعے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔پھر 1843ء میں جب انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا، تو یہ تاریخی قلعہ اُن کے زیرِ تصرّف آ گیا۔ 

مستطیل نُما اس قلعے کا رقبہ 785X946مربّع فٹ ہے۔ قلعے کے چاروں گوشوں پر دِفاعی برج بنے ہوئے ہیں ، جب کہ اس کا داخلی دروازہ محراب نُما ہے۔ قلعے کی سب سے اونچی فصیل پر بھاری توپیں نصب ہیں، جن سے کسی دَور میں دِفاع کا کام لے کر دشمن کا بھرپور مقابلہ کیا جاتا۔ قلعے کی یہ فصیل اس قدر بلند ہے کہ اس سے پورے شہر کا نظّارہ کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین