• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مرحَبا ’’ماہِ رمضان‘‘ مرحبا...!

رحمت و مغفرت ، رب ِ ذوالجلال کے فضل و کرم اور اس کی خاص عنایتوں کا موسم ِ بہار رمضان المبارک ہم پر سایہ فگن ہے۔ اس ماہ مبارک میں انوارات وتجلیات ربانی کانزول ،رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہوگی،گناہ گاروں کے لئے اس ماہِ مبارک میں سامان مغفرت ہے،اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ’’نارِ جہنم‘‘ کے مستحق ہونے والوں کے لئے آزادی کا پروانہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایمان وعمل کی بہار آتی ہے، گناہوں کی سیاہی سے زنگ آلودہ دلوں کی صفائی اور صیقل کا سامان کیا جاتا ہے،جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں،جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اے خیر کے طلب گار، آگے بڑھ اور اے شر کے چاہنے والے پیچھے ہٹ جا کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں،اس ماہِ مبارک میں دن کو روزہ فرض کیا گیا،تاکہ نفس امارہ کو اس کی خواہشات اور مرغوبات سے دور رکھ کر زیور تقویٰ سے آراستہ کیا جائے اور رات کو قرآن سن کر دلوں کو جلابخشی جائے۔

روزہ بھی سال میںایک مرتبہ اسی لئے فرض کیا گیا کہ معدے اور مادےکی شقاوت اور سختی دور ہو، کچھ دن مادیت پرستی میں تخفیف ہو،تاکہ اس میں روحانیت اور ایمان کی اتنی مقدار داخل ہوجائے جس سے اس کی زندگی اعتدال پر آجائے، کچھ دیر کے لئے اخلاق الٰہی کا کسی قدر عکس اس میں اُتر سکے۔ اس میں فرشتوں کی نسبت حاصل ہوجائے۔ بندۂ مومن نفس کا مقابلہ کرسکے اور روح کی پرفضا وسعتوں میں وہ جولانیاں کرسکے اور رزق کی فراوانی کے باوجود بھوکا پیاسا رہ کر وہ لذت ونشاط حاصل کرسکے جو انواع واقسام کے لذیذ کھانوں سے حاصل نہیں ہوتی، اسی کو قرآن کریم ’’تقویٰ ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے: اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جائو‘‘ (سورۃ البقرہ)اس آیت میں روزے کا مقصد بتایا گیا کہ روزےسے بھوکا پیاسا رکھنا مراد نہیں، بلکہ حیوانی اور نفسانی تقاضوں کو دباکر ملکوتی صفات پیدا کرنا ہے، تاکہ بندے کے دل میں خدا کا خوف پیدا ہو اور وہ تقویٰ کی صفت سے متصف ہو۔

اس مبارک مہینے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:’’ میں نے انسان اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔‘‘لیکن یہ انسان اپنی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لئے دنیا اور اس کے کاموں میں اتنا منہمک ہوگیا کہ اپنے مقصد تخلیق کو بھلا بیٹھا اور اپنے خالق ومالک کی طرف سے غافل ہوگیا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تم گیارہ مہینے دنیاکے جھمیلوں میں،اس کی تجارت وزراعت میں، مزدوری ودیگر کاروبار میں مشغول رہتے ہو ،کیوں کہ تمہاری اپنی ضروریات بھی ہیں، بیوی بچے بھی ہیں اور دوسرے بہت سے افراد کے حقوق وابستہ ہیں،ان سب کے لئے کمانا بھی ہے،دنیاوی اُمور میںمصروف ہونا بھی ہے تو گیارہ مہینے تم دنیا کے کاموں میں جو مصروف رہتے ہو ، اس کی وجہ سے دل پر جو غفلت کے پردے پڑجاتے ہیں اورخالق سے تمہارا رشتہ کمزو رپڑ جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس ایک ماہ کے لئے تم اپنے آپ کو اس دنیا کی جھنجھٹ سے نکالو اور اپنے مقصد تخلیق کی طرف لوٹ آئو، اور عبادت الٰہی سے اپنے دل پر پڑے غفلت کے پردے کو اتار ڈالو، گناہوں کی وجہ سے زنگ آلودہ دلوں کو اللہ کے ذکر سے جلا بخشو اور اس کے زنگ کودور کرو،اپنے خالق ومالک کے صحیح بندے بن کر اس سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑلو، کیوںکہ یہ خالص اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، یہ اللہ کو راضی کرنے کا مہینہ ہے،یہ رحمتوں اور مغفرتوںکو حاصل کرنے کا ماہ مبارک ہے،یہ جہنم کی آگ سے آزادی کا مہینہ ہے، اس کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے،اس ماہ مبارک میں رب کے حضور اٹھے ہوئے ہاتھ خالی نہیں جاتے، کسی امیدوارِ رحمت ومغفرت کو نااُمید اور کسی طالب کو ناکام نہیں رکھا جاتا۔اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اس کی فکر کرے کہ اس وقت کو غنیمت جانے ،نہ جانے آئندہ یہ ماہ مبارک ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو، اپنے اوقات کو اس طرح منظم کریں کہ زیادہ سے زیادہ وقت اس ماہ مبارک کے مبارک اعمال کے لئے مختص کردیں، جو کام غیر ضروری ہیں،انہیں بالکل ترک کردیا جائے،جن کو مؤخر کیا جاسکتا ہے، انہیں ایک ماہ کے لئے مؤخر کردیں،اور جن اُمور کو انجام دینا ضروری ہے، ان کی ترتیب بھی اس طرح بنائی جائے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت، ذکرواذکار ، تلاوت قرآن مجید اور دیگر عبادات میں صرف ہو۔

اس ماہ کی خاص عبادت روزہ ہے اور اس سے مقصد کیا ہے وہ بھی بتایا جاچکا ۔ حضور اکرم ﷺ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں:’’ہر نیکی کا بدلہ دس گناسے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے، سوائے روزے کے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ (بخاری،مسلم)تمام عبادتیں اللہ کے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ان کا بدلہ عطا فرمائیں تو روزے میں ایسی کیا خاص بات ہے،جس کے لئے کہا جارہا ہے کہ ’’ روزہ میرے لئے ہے اور میںہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔

روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ اس میں یہ قانون نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اپنی جودو سخا کا اظہار فرماتا ہے اور روزے دار کو بے حد وحساب اجر دیتا ہے وجہ ظاہر ہے کہ روزہ صبر ہے اور صبر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’صبر کرنے والوں کو بے حد وحساب اجر دیا جائے گا۔‘‘اس لئے اس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی، چنانچہ بیہقی اور ابو نعیم کی روایت میں اس کی تصریح بھی ہے، روزے میں دکھاوا نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:روزہ میرا ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ میری وجہ سے ہی اپنے کھانے پینے کو چھوڑتا ہے۔

روزہ ہر مسلمان عاقل،بالغ مردوعورت پر فرض ہے ، بلاعذر اس کا چھوڑنا گناہ ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان المبارک کا ایک روزہ بھی چھوڑدیا تو خواہ وہ ساری عمر روزے رکھتا رہے، اس کی تلافی نہیں کرسکتا (یعنی دوسرے وقت میں روزہ رکھنے سے اگر چہ فرض ادا ہوجائے گا، مگر رمضان المبارک کی برکت وفضیلت کا حاصل کرنا ممکن نہیں) (مسنداحمد، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ)

بہت سے حضرات معمولی،معمولی باتوں پر روزہ چھوڑدیتے ہیں، شریعت میں عذر یا تو سفر ہے کہ سفر کی مشقت کی وجہ سے اجازت ہے چاہے تو روزہ رکھے یا چھوڑ دے، لیکن جتنے روزے چھوڑے گئے ان روزوں کی قضا بعد میں لازمی ہے، اسی طرح وہ بیماری جس میں روزے کی وجہ سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑا جاسکتا ہے،اگر ایک شخص اتنا بوڑھا ہو کہ وہ روزہ رکھ کر اسے پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو، اسے بھی روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، لیکن وہ اپنے روزوں کا فدیہ دے گا۔ ہر روزے کا فدیہ صدقۃ الفطر کے برابر ہے۔ اسی طرح اگر عورت حالت حمل میںہو یا وہ بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے کی وجہ سے اتنا ضعف ہوجائے کہ اس کی یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو تو اس عورت کو بھی روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے، لیکن بعد میں اس کے ذمے بھی قضا لازم ہے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہے کہ عورت کے لئے عذر کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں جس طرح کہ ان دنوں میں نماز پڑھنا جائز نہیں، لیکن یہ یاد رہے کہ ان دنوں کی نمازوں کی قضا نہیں، لیکن روزوں کی قضا ضروری ہے، بہت سی عورتوں کے ذہن میں یہ ہے کہ نماز کی طرح روزوں کی قضا بھی نہیں، یہ غلط ہے۔ اہتمام سے بعد میں ان روزوں کو قضا کی نیت سے رکھنا چاہیے۔

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی دوسری اہم اور خاص عبادت تراویح ہے۔ حدیث شریف میںروزے کی طرح تراویح کی بھی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک کے روزے کو فرض کیا اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا۔‘‘ (مشکوٰۃ)حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے،جس نے رمضان کی راتوں میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے اس کے گناہ بخش دئیے گئے۔‘‘(بخاری ، مسلم)حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ روزہ اور قرآن بندے کی سفارش کرتے ہیں روزہ کہتا ہے اے رب، میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور دیگر خواہشات سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کریم کہتا ہے میں نے اسے نیند سے محروم رکھا (یعنی رات کو تراویح میںقرآن کریم پڑھتا یا سنتا تھا) اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما ، چنانچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)اس لئے تراویح سنت مؤکدہ ہے اور تراویح کی عبادت کو بھی خاص اہتمام کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ پورے مہینے میں روزانہ تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے اور تراویح میں قرآن کریم سننا یا پڑھنا مستقل سنت ہے،بہت سے حضرات چند راتوں میں پورا قرآن کریم ختم کرلیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے سنت ادا کرلی اور باقی ایام میں تراویح کا کوئی اہتمام نہیں کرتے، یہ بالکل غلط ہے، پورا ماہ اس عبادت کا اہتمام کرنا چاہئے۔

سحری کھانا بھی سنت ہے، حدیث میںاس کی ترغیب دی گئی ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ سحری کھایا کرو ،کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)سحری میں تاخیر کرنا یعنی آخری وقت میں سحری کھانا افضل ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’ میری اُمت خیر پر رہے گی، جب تک وہ سحری کھانے میں تاخیر اور روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘ (مسند احمد)اس تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ رات کے آخری حصے میں صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے سحری کھالے ۔ بہت سے لوگ رات کو ہی کھانا کھاکر سوجاتے ہیں اور اسی وقت نیت کرلیتے ہیں،یہ درست نہیں، سحری کے وقت اٹھنا چاہیے، اگر بھوک نہ ہو تو سحری کی نیت سے ایک دو لقمے یا پانی،دودھ وغیرہ کے چند گھونٹ ہی لے لے، تاکہ سحری کھانے کا ثواب مل جائے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیاہے کہ وہ پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑے سائرن بجنے یا اذان کا انتظار کرتے ہیں، اگر اسے کوئی شریعت کا حکم یا ثواب سمجھا جاتا ہے، تو یہ بے اصل بات ہے، اگر صبح صادق سے قبل سحری کھاکر فارغ ہوگئے تو سحری کا حکم پورا ہوگیا اور یہ مسئلہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ بہت سے حضرات اذان فجر تک کھاتے پیتے رہتے ہیں اور بہت سے افراد کو یہ کہتے سنا کہ اذان کے ختم ہونے تک کھانے پینے کی اجازت ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ صبح صادق ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے،شہروں میںعموماً اس وقت سائرن بجانے کا معمول ہے،جب کہ اذان اس کے بعد ہوتی ہے، اگر اذان سے قبل صبح صادق ہوگئی اوراذان بعد میں دی جارہی ہے تو اذان تک کھانا پینا جائز نہیں، اس سے روزہ نہیں ہوگا، ہاں اگر کسی جگہ صبح صادق ہوتے ہی فوراً اذان ہوجاتی ہے تو اذان کا پہلا کلمہ سنتے ہی کھانا پینا چھوڑدینا چاہیے۔ اذان کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

غروب ہوتے ہی افطار کرنا چاہیے، افطار میں جلدی کرنے کا حکم ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے ،جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ ‘‘ (بخاری ومسلم)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:’’دین غالب رہے گا، جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ،چونکہ یہود ونصاریٰ تاخیر کرتے ہیں ۔‘‘ (ابوداؤد ،ابن ماجہ)

ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے وہ بندے سب سے زیادہ محبوب ہیں، جو افطار میں جلدی کرتے ہیں‘‘ (ترمذی ، مشکوٰۃ)لیکن افطار کرتے وقت غروب ہوجانے کا یقین ہونا چاہیے، اتنی جلدی بھی نہ کی جائے کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا اور روزہ افطار کرلیا، اگر ایک منٹ قبل بھی روزہ افطار کرلیا تو یہ روزہ نہیں ہوا اس کی قضا لازمی ہے۔روزہ کھجور سے یا پانی سے افطار کرنا چاہیے، ورنہ جو چیز بھی میسر آجائے اس سے افطار کر لیا جائے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’ جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے ،کیوںکہ وہ برکت ہے۔ اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرلے، کیوںکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔‘‘ (ابو دائود، ترمذی)افطار حلال غذا سے ہونا چاہیے اور افطار کے وقت دعا پڑھنا بھی مسنون ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے افطار کی یہ دعا نقل کی ہے۔’’ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاء اللہ‘‘(ترجمہ)’’ پیاس جاتی رہی ، انتڑیاں تر ہو گئیں اور اجر انشاء اللہ ثابت ہوگیا‘‘۔

حضرت معاذ بن زہرہؓ نے یہ دعا نقل کی ہے۔’’اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ‘‘(ترجمہ)’’ اے اللہ، میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا‘‘(ابو دائود، مشکوٰۃ)ان میں سے کوئی بھی دعا پڑھی جا سکتی ہے۔ اس لئے کہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ دس لاکھ افراد کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے، اس لیے افطار کے وقت خوب توجہ اور تضرع وزاری کے ساتھ دعا کرنی چاہیے۔کسی روزے دار کو افطار کرانے کا بھی بڑا ثواب ہے۔آقائے نامدار،خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص کسی روزے دار کو افطار کرائے، اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگااور روزے دار کے ثواب کے برابر اسے ثواب ملے گا، مگر اس روزے دار کے ثواب سے کچھ کمی نہ ہوگی۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ،ہم میںسے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزے دار کو افطار کرائے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ( پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ اسے بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور سے افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے،یا ایک گھونٹ لسی پلا دے۔‘‘(بیہقی)

حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو، دو باتیں تو ایسی ہیں کہ تم ان کے ذریعے اپنے رب کو راضی کرو گے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتے، پہلی دو باتیں جن کے ذریعے تم اللہ کو راضی کرو گے، وہ یہ ہیں’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی گواہی دینا اور استغفار کی کثرت اور دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے ،یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔( بیہقی،مسند ابن خزیمہ) اس لئے اس ماہ میں لاالہٰ الااللہ اور استغفارکی کثرت اور جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ مانگنی چاہیے ۔

اس ماہ میں روزے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے، ہر روزے دار اس کی پوری کوشش کرتا ہے کہ تنہائی میں جہاں اللہ کے علاوہ اسے کوئی دیکھنے والا نہیں،کھانے پینے سے اجتناب کرے، حتیٰ کہ سخت بھوک پیاس کی حالت میں بھی ایک قطرہ حلق سے نیچے اترنے نہیں دیتا، لیکن یہی روزے دار گناہوں سے،اللہ کی نافرمانی سے،معصیت سے،غیبت،چغل خوری،دوسروں کو ایذا دینے، جھوٹ بولنے،کان، آنکھ اور دیگر اعضاء کو غلط جگہ استعمال کرنے سے نہیں بچتا اور اس طرح اپنے روزے کو ضائع کر دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پورے مہینے روزے رکھنے کے باوجود تقویٰ کی معمولی سی رمق بھی دل میں پیدا نہیں ہوتی،پورے مہینے عبادت میں گزارنے کے باوجود ہمارے دل کی کیفیت وہی ہوتی ہے،گناہوں سے بے رغبتی اور طاعت وعبادت کی طرف رغبت پیدا نہیںہوتی، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم عموماً اس ماہِ مبارک میں گناہوں سے بچنے کا اہتمام نہیںکرتے،حلال رزق کا اہتمام اور حرام سے اجتناب نہیں کرتے، تو ہماری عبادات ، طاعات، ذکرواذکار کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے، خدارا گناہوں اور معاصی سے آلودہ کرکے اپنی عبادات وطاعات خصوصاً روزے کے فوائد کو ضائع مت کیجیے۔یہی وجہ ہے کہ جس روزے سے یہ مقصد حاصل نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص روزے میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔‘‘(صحیح بخاری)

’’ جو روزے دار فحش کام( گالی گلوچ اور بے شرمی کی باتیں) اور جھوٹ سے نہیں بچتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا ترک کرنے سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘(طحاوی)حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ تو درحقیقت بے ہودہ اور بے حیائی کی باتوں اور کاموں سے رکنے اور بچنے کا نام ہے، پس اگرکوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو کہہ دو میرا روزہ ہے۔‘‘حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ بہت سے روزے دار ہیں، جنہیں سوائے بھوک پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘آپﷺ نےارشاد فرمایا:۔’’ روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اسے پھاڑا نہ جائے۔ صحابہؓ نے دریافت فرمایا: یا رسول اللہﷺ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جھوٹ اور غیبت سے۔‘‘ان تمام احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ روزے کا مقصد مجاہدہ نفس ہے، تاکہ نفس کی اصلاح ہو اور وہ رذائل سے پاک ہو کر فضائل سے آراستہ ہو، اس لئے ہر وہ بات اور ہر وہ کام منع کر دیا گیا ہے جو اس مقصد میں حائل ہو اور رکاوٹ کا باعث بنے۔یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ جس طرح خاص مقامات اور خاص اوقات میں عبادات کا ثوا ب اور درجہ بڑھا دیا جاتا ہے،اسی طرح ان مقامات اور ان اوقات میں گناہ کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر اس ماہ مبارک میں ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر اور نفل کا ثواب فرض کے برابر ہے تو گناہ کا وبال بھی اسی کے مطابق ہوگا، اس لئے بھی اس ماہ میں گناہ سے بچنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔اسے خیرخواہی اور غم خواری کا مہینہ قرار دیا گیا ہے، اس لئے اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک اور اچھا برتائو کرنا چاہیے ۔

ماہ ِ مبارک اپنے جلو میں ہزارہا رحمتیں اور برکتیں لے کر ہمیشہ آتا رہا ہے،آئندہ بھی انشاء اللہ آئے گا، مگرکون جانتا ہے کہ اگلا رمضان المبارک ہم میں سے کس کو نصیب ہوگا ؟ اس لئے ہم میں سے ہر شخص کو اس کی قدرکرنی چاہیے اور اس کی پذیرائی اس طرح کرنی چاہیے کہ گویا یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہے۔رمضان المبارک کے خصوصی اعمال( روزہ، تراویح ، تلاوت قرآن کریم، ذکرِ الٰہی، دعا واستغفار) کا خصوصی اہتمام کیا جائے،اس سراپا نور مہینے میں جس قدر نورانی اعمال کیے جائیں گے،اسی قدر روح میںلطافت،بالیدگی اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی۔ خصوصاً قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کیونکہ اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے، اسی ماہ میں قرآن کریم نازل ہوا۔اس مہینے میںجھوٹ ،بہتان، غیبت ، حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کا پورا اہتمام کیا جائے،حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے پرہیز نہ کرے ،اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں،جنہیں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔نعوذ باللہ۔ روزے کی حالت میںکان کی،آنکھوں کی،پیٹ کی،شرم گاہ کی اور دیگر اعضاء کی حفاظت لازم ہے۔ غرض اس مہینے میں گناہوں کا ترک کرنا لازم ہے،اگر ذرا سی ہمت سے کام لیا جائے تو ان چند دنوں میں گناہوں کا چھوڑنا بہت آسان ہے۔ جہاں گناہوں سے پرہیز لازم ہے،وہاں بے فائدہ اور لا یعنی مشاغل سے بھی احتراز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ بے مقصد کے مشغلے انسان کو مقصد سے ہٹا دیتے ہیں۔

اس ماہِ مبارک میں قلوب کا تصفیہ بھی بہت ضروری ہے،جس دل میں کینہ ، حسد ، بغض ، عداوت کا کھوٹ او ر میل جمع ہو،اس پر اس ماہ مبارک کے انوار کی تجلی کماحقہ نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث کے مطابق رمضان المبارک کی راتوں میں سب لوگوں کی بخشش ہو جاتی ہے، مگر ایسے دو شخص جو ایک دوسرے سے کینہ وعداوت رکھتے ہوں، ان کی بخشش نہیں ہوتی۔اس لئے تقاضائے بشریت کی بناء پر جو آپس میں رنجش ہو جاتی ہے ، ان سے سب کو دِل صاف کر لینا چاہیے اور اس ماہِ مبارک میں کسی دوسرے مسلمان سے کینہ وعداوت نہیں رہنی چاہیے۔ماہِ مبارک کا دِل وزبان اور عمل سے احترام کرنا بھی لازم ہے،اپنی معصیت اور نافرمانی کے مظاہرے سے اسے ملوث ( آلودہ ) نہ کریں۔

آنحضرت ﷺ نے ماہِ رمضان کو ہم دردی وغم خواری کا مہینہ فرمایا ہے،اس لئے اس مہینے میں جُودوسخا اور عطا وبخشش عام ہونی چاہیے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت عطا فرمائی ہے،وہ اس مہینے میں تنگ دستوں اور محتاجوں کی بطور خاص نگہداشت کریں۔اس ماہِ مبارک کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے ، رمضان المبارک کو گزرنے نہ دیجیے، جب تک ملائے اعلیٰ میں ہماری بخشش ومغفرت کا اعلان نہ ہو جائے ، توبہ واستغفار ، بارگاہ خداوندی میں عجز ونیاز اور آہ وزاری میںکسر نہ چھوڑیئے، بلکہ ساری عمر کی حسرتیں نکال لیجیے، ذکر وتسبیح ، صلوٰۃ وسلام، تکبیر وتہلیل خصوصاً تلاوت قرآن پاک سے اپنے اوقات کو معمور رکھیے۔تہجد کے وقت اُٹھنا اور سحری کھانا تو معمولات میں داخل ہی ہے، کوشش کیجیے کہ اس ماہِ مبارک میں آپ کی نماز ِتہجد فوت نہ ہو،خواہ دو ہی رکعتیںپڑھنے کا موقع ملے مگر’’آہ سحر گاہی‘‘ کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام ضرور درج کرا لیجیے۔تراویح تو رمضان المبارک کی خاص نماز ہے، لیکن آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کم ازکم رمضان المبارک میں آپ کی کسی نماز کی تکبیر تحریمہ فوت نہ ہو۔ تمام لغوتفریحات کو خیر باد کہہ دیجیے اور عزم کر لیجیے کہ اس ماہِ مقدس کو اپنے گناہوں کی نجاست اور گندگی سے آلودہ نہیں کریں گے۔

ماہِ مبارک قبولیت دعا کا خاص موسم ہے،مانگنے والوں کو ملتا ہے اور خوب ملتا ہے ۔ مانگنے والوں کی حیثیت کے مطابق نہیں، بلکہ دینے والا اپنی شان کے مطابق دیتا ہے، مگر کوئی چاہئے مانگنے والا۔ اس ماہِ مبارک میں ’’ کائنات کے داتا‘‘ کے دروازے پر جتنا مانگا جا سکے، مانگیے، خوب رو رو کر مانگیے،مچل مچل کر مانگیے، اپنے لئے بھی اپنے اہل وعیال اور دوست واحباب کے لئے بھی، اُمت مرحومہ کے بلند پایہ اکابر کے لئے بھی اور اُ مت کے گناہ گاروں کے لئے بھی۔آج کل پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام کے جو حالات چل رہے ہیں،ان حالات میں اور زیادہ ضروری ہے کہ ہم اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کریں۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ پوری اُمت مسلمہ کے مردوں اور عورتوں،جوانوں اور بوڑھوں سب کے لئے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے حضور رو رو کر معافی مانگیں، بس اس رمضان کو تو امت کے لئے استغفار کرنے کے لئے خاص کر لیں۔ تلاوت قرآن کریم، نماز، صدقہ وخیرات اور ہر نیکی کے بعد اللہ رب العزت کے حضور آنسو بہا بہا کر مغفرت طلب کریں۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین