ہر چند کہ آرکیٹیکچر اسکولوں میں صنفی فرق ختم ہورہا ہے اور آرٹس اسکولوں سے اتنی ہی خواتین گریجویٹس فارغ التحصیل ہوکر نکل رہی ہیں، جتنے کہ مرد ، تاہم دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو اب بھی اس شعبے میں کیریئر کے کم مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ اگر خواتین کو موقع مل بھی جائے تو انھیں مردوں کے مقابلے میں تنخواہیں کم دی جاتی ہیں۔
دنیا کی بہترین فرمز میں بڑی پوزیشنز پر اب بھی خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دنیا کی بہترین 100آرکیٹیکچر فرمز کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف تین فرمز کی سربراہ خواتین ہیں، جب کہ ایسی فرمز کی تعداد صرف دو ہے، جہاں مرد اور خواتین منیجرز کی تعداد یکساں ہے۔
Amanda Levete
اماندا لیویٹ، لندن میں واقع آرکیٹیکچر اسٹوڈیو AL_A کی بانی پرنسپل ہیں۔ آرکیٹیکٹ کے شعبہ میں خواتین کا نام پیدا کرنے پر انھیں Jane Drew Prize 2018سے بھی نوازا گیا ہے۔ وہ سی این این اسٹائل کی گیسٹ ایڈیٹر بھی رہی ہیں۔ اماندا کہتی ہیں، ’’خاتون ہونے کے لیےیہ بہترین وقت ہے۔ ہمیں اس وقت کو ضایع نہیں ہونے دینا۔ #MeToo مہم کے بعد خواتین کے لیے کلچر تبدیل کرنے کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔
میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ خواتین رِسک ٹیکرز ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ بھی ہوتی ہیں اور لیڈرشپ کے لیے ان دونوں خصوصیات کا امتزاج ضروری ہوتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ آرکیٹیکچرمیں رِسک کو مثبت قوت (Positive Force) کے طور پر سیلی بریٹ کیا جائے۔میرا خیال ہے، اس کے لیے ہمیں ایسے رِسک لینے چاہئیں جو کم قابل پیشگوئی ہوں۔ یہی طریقہ ہے کہ ہم اس شعبہ میں نئے اور تازہ آئیڈیاز لے کر آسکتی ہیں۔یہ ہمارا وقت ہے اور آئیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس وقت میں ہم اپنا کام اپنے طریقے سے کریں‘‘۔
Neri Oxman
نیری اوکسمین MITمیڈیا لیب کی پروفیسر، آرکیٹیکٹ اور ڈیزائنر ہیں۔ ایم آئی ٹی میں نیری اوکسمین نے Mediated Matter Research Group کی بنیاد رکھی ، جس کی وہ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ اس گروپ میںتعمیر شدہ عمارات، فطرت اور نباتاتی ماحولیات کے درمیان تعلق پر ریسرچ کی جاتی ہے۔ نیری اوکسمین کہتی ہیں، ’’ہمارے معاشرے میں مردوں کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے۔
فرعون کا مصر، گاندھی کا بھارت، وکٹوریائی مردانگی، ماچو لاطینی امریکا، عرب دنیا میں خواتین کا رُتبہ، ان سب باتوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ قدیم سے شہروں کو ڈیزائن اور ان کی تعمیر مردوں نے کی ہے۔آرکیٹیکچر کی بات کریں تو میں نے ایک جگہ شہرت یافتہ آرکیٹیکٹ جین جیکبز کی یہ بات کہی تھی کہ، ’ہم خود سے زیادہ نئی عمارتوں سے توقعات رکھتے ہیں‘۔جیکبز کوئی تربیت یافتہ آرکیٹیکٹ نہیں تھیں۔ وہ صحافی اور سماجی کارکن تھیں۔ شہری ڈیزائن کے شعبے میں ہم تخلیق کاروں اور فزیکل انفرااسٹرکچر کے بلڈرز کے مقابلے میں جیکبز کی خدما ت کہیں زیادہ ہیں‘‘۔
Denise Scott-Brown
ڈینیز اسکاٹ براؤن کا شمار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ بااثر آرکیٹیکٹس میں ہوتا ہے۔ان کا تعلق امریکا سے ہے اور وہ ایک آرکیٹیکٹ کے ساتھ ساتھ اَربن پلانر، ڈیزائنر، مصنفہ اور تعلیم دان بھی ہیں۔
ان کے رہنما نظریات اور ڈیزائن نے آرکیٹیکچر کی دنیا میں پوسٹ ماڈرن تحریک کو جنم دیا۔ان کی کتاب Learning From Las Vegas نے آرکیٹیکٹس کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ڈینیز بنیادی طور پر افریقی نژاد ہیں اور وہ 1931میں زیمبیا میں پیدا ہوئیں، پرورش جوہانسبرگ میں پائی۔ لندن کی آرکیٹیکچرل ایسوسی ایشن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اربن پلاننگ میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے وہ امریکا منتقل ہوگئیں۔
ڈینیز کہتی ہیں، ’’سیاست، آرٹ اور دیگر شعبوں کی طرح خواتین کی کوششیں، آرکیٹیکچر کو خواتین کے لیے بہتر شعبہ بنانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کررہی ہیں۔ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے جو کچھ کررہی ہیں، وہ سب سے زیادہ مؤثر ہے۔ ہمیں بہادر بننے کی ضرورت ہےاور ہمیں اپنے بچوں کو بھی بہادر بنانا ہے۔ تاہم دیگر آرکیٹکٹس کی طرح، اربن ڈیزائن میں خواتین آرکیٹیکٹس کا انفرادی کردار نہیں ہوگا، کیوں کہ شہروں کا ڈیزائن معاشرے مل کربناتے ہیں‘‘۔
Shirley Blumberg
شیرلی بلومبرگ ٹورنٹو میں واقع کینیڈا کی آرکیٹیکچر فرم ’کے پی ایم بی آرکیٹیکٹس‘ کی بانی پارٹنر اور بلڈنگ ایکوالٹی اِن آرکیٹیکچر ٹورنٹو(BEAT)کی شریک بانی ہیں۔2013میں انھیں آرکیٹیکچر کے شعبے میں بیش بہا خدمات اور کمیونٹی کے لیے مقامات (Community Spaces)تخلیق کرنے پر ’آرڈر آف کینیڈا‘ کا رُکن بنایا گیا۔
بلومبرگ کہتی ہیں، ’’جین جیکبز نے کہا تھا کہ شہروں میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ فراہم کرنے کی استعداد ہونی چاہیے،اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اس کے ڈیزائن میں ہر شخص کا کردار ہو۔ خواتین آرکیٹیکٹس اور پلانرز کا کردار شہروں کی ڈیزائننگ میں بتدریج بڑھ رہا ہے، تاہم یہ اب بھی انتہائی محدود ہے۔ ہر چند کہ میں پراُمید ہوں، لیکن شہروں کی ڈیزائننگ میں خواتین کا کردار مردوں کے برابر آنے کے لیےہمیں مزید کئی نسلیں درکار ہوں گی‘‘۔
Farshid Moussavi
فرشد موسوی ہارورڈ یونیورسٹی گریجویٹ اسکول آف ڈیزائن کی پروفیسر اور فرشد موسوی آرکیٹیکچر کی پرنسپل ہیں۔وہ فارن آفس آرکیٹیکٹس کی شریک بانی اور 2011تک اس کی شریک پرنسپل بھی رہیں۔ فرشد کی پیدائش ایران میں ہوئی اور 1979 میں انھوں نے برطانیہ ہجرت کرلی۔ برطانیہ میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی گریجویٹ اسکول آف ڈیزائن سے ماسٹرز اِن آرکیٹیکٹ کی ڈگری حاصل کی۔ فرشد نے 2006میں The Function of Ornamentاور 2009 میں The Function of Formتحریر کیں۔
ان دونوں کتابوں کو آرکیٹیکچر کی دنیا میں انتہائی معتبر مقام حاصل ہے۔ فرشد کہتی ہیں، ’’جب لوگ آپ کو یہ کہیں کہ آرکیٹیکچر کی دنیا میں مرد غالب ہیں یا پھر اس شعبہ میں کم خواتین رول ماڈلز ہیں تو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ خواتین کو آرکیٹیکچر کی دنیا میں باہر کا تصور کرنا ہی ، شہروں میں تخلیقی سوچ کا ذریعہ بن سکتا ہے‘‘۔