تفہیم المسائل
سوال:یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ اگر کسی نے رمضان کا روزہ رکھ لیا اور پھر عذرِ شرعی کے بغیر اُسے توڑ دیا ،تو اُس پر کفارہ لازم ہے ، لیکن اگر کسی نے بدقسمتی سے رمضان کا روزہ سرے سے رکھا ہی نہیں، بلکہ اُسے چھوڑ دیا ،تو ازروئے شرع اس پر کفارہ لازم آئے گا یا صرف ایک دن کاقضا روزہ رکھناہوگا۔(صاحبزادہ معصوم زبیر، اوسلو، ناروے)
جواب:اگر کسی نے بدقسمتی سے رمضان کا روزہ سرے سے رکھا ہی نہ ہواور کسی شرعی عذر کے بغیر چھوڑ دیا ہو،تو اس پر کفارہ نہیں ہے ،بلکہ صرف ایک دن کی قضا ہے ،اگرچہ وہ قضا روزہ رکھ کر رمضانِ مبارک کے روزے کے اجرِ کامل سے محروم رہ جاتا ہے ، لیکن فرض ساقط ہوجاتا ہے، حدیث پاک میں ہے:ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے شرعی رخصت (عذر)یا بیماری کے بغیر رمضان کا روزہ چھوڑا ہو ،تو اگرچہ وہ سارا زمانہ روزہ رکھتا رہے ،رمضانِ مبارک کے اس (چھوڑے ہوئے)روزے کے کامل اجر کو نہیں پاسکتا، (سنن ترمذی:723)،اس کی شرح میں علامہ علی القاری الحنفی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’جس نے رمضان کا ایک روزہ ،شرعی عذر یا ایسی بیماری جس کے سبب روزہ توڑنے کا جواز پیدا ہوتا ہے ،چھوڑا تو پوری عمر کا روزہ رمضان کے روزے کے فوت شدہ ثواب کی تلافی نہیں کرے گا،علامہ طیبی نے کہا: اگر وہ پوری زندگی بھی نفلی روزے رکھ لے،رمضان کے روزے کی فضیلت کو نہیں پاسکتا،اگرچہ اس سے رمضان کے (بلا عذر ومرض ) چھوڑے ہوئے روزے کی ایک دن کی قضا رکھنے سے فرض ساقط ہوجائے گا،علامہ طیبی نے مزید کہا: نبی کریم ﷺنے پوری زندگی کے نفلی روزوں کے ذریعے رمضان کے بلا عذر چھوڑے ہوئے ایک روزے کی تلافی نہ ہوسکنے کی بات شدت کے طور پر فرمائی اوراس پر شدت کا اظہار فرمایا ہے (تاکہ لوگ بلاعذر رمضان کا روزہ چھوڑنے کی جسارت نہ کریں)۔ علامہ علی القاری حنفی نے آگے چل کر فرمایا:ابن الملک نے کہا:اس پر فقہاء کا اجماع ہے کہ (رمضان کے بلاعذر ومرض چھوڑے ہوئے ایک روزے کی )صرف ایک دن کی قضا ہے، (مرقاۃ المفاتیح، ج:4، ص: 444)۔
علامہ علاء الدین کاسانی حنفی متوفی 587 ھ، لکھتے ہیں:’’رہا کفارے کا وجوب، تو وہ روزے کے مخصوص توڑنے پر ہے (یعنی چھوڑنے پر نہیں ہے)اور اس سے مراد (کسی عذرِ شرعی یا مرضِ شدید کے بغیر روزہ رکھ کر )قصداً کھانے ،پینے اورصورتاًیا معناًجماع کرنے سے لازم آتاہے،(بدائع الصنائع، ج:2،ص:127)‘‘۔
علامہ ابن عبدالبر مالکی لکھتے ہیں:ترجمہ:اور امت کا اس پر اجماع ہے اور بہت سے علماء سے منقول ہے :جس نے روزے کی فرضیت پر ایمان رکھتے ہوئے جان بوجھ کر رمضان کا روزہ نہ رکھااور اُسے قصداً سرکشی کے طور پر چھوڑ دیا (یہاں توڑنے اور چھوڑنے کے فرق کو سمجھا جائے)، پھر اُس (سرکشی اور قصور )سے توبہ کی ،تو اُس پر (صرف )اس کی قضا ہے،اسی طرح جس نے قصداً نماز چھوڑی، اس پر صرف (اس نماز کی) قضا ہے، (الاستذکار، جلد: 1، ص:77، دارالکتب العلمیہ، بیروت)‘‘۔
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت احمد رضا قادری قدس سرہُ العزیز ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:’’(بلا عذر یا عذر کی بنا پر چھوڑے ہوئے )ایک روزے کی قضا ایک ہی ہے ، ساٹھ روزوں کا حکم کفارہ میں ہے کہ کسی نے بلا عذرِ شرعی رمضانِ مبارک کا ادا روزہ ،جس کی نیت رات سے کی تھی ، بالقصد کسی غذا یا دوا یا نفع رساں شے سے توڑ ڈالا اور شام تک کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ ہوا جس کے باعث شرعاً آج روزہ رکھنا ضرور نہ ہوتا، تو اُس جرم کے جرمانے میں ساٹھ روزے پے در پے رکھنے ہوتے ہیں، ویسے (بلاعذریا عذر کی بنا پر)جو روزہ نہ رکھا ہو، اس کی قضا صرف ایک روزہ ہے ،(فتاویٰ رضویہ، ج:10،ص:519، رضا فاونڈیشن، لاہور)‘‘۔اگرچہ بلا عذر روزہ چھوڑنا رمضان کے ثواب سے محروم ہونے کا باعث ہے ، لیکن قضا رکھنے سے فرض ساقط ہوجائے گا۔
صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:’’جس جگہ روزہ توڑنے سے کفارہ لازم آتا ہے ،اس میں شرط یہ ہے کہ رات ہی (سحری) سے روزہ رمضان کی نیت کی ہو،اگر دن میں نیت کی اور توڑ دیا تو کفارہ لازم نہیں (یعنی صرف قضا لازم ہے)، بحوالہ :الجوہرۃُ النیّرۃ،کتاب الصوم،جلد:1،ص:181-180 ، (بہارِ شریعت ،حصہ پنجم، ص:991)‘‘۔
علامہ احمد بن محمد صاحبِ مختصر القدوری لکھتے ہیں:ترجمہ:ماہِ رمضان کے علاوہ (اور دنوں میں) روزہ توڑنے میں کفارہ نہیں ہے(خواہ وہ قضائے رمضان ہی کا روزہ ہو)،اس کی شرح میں علامہ ابوبکر بن علی یمنی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:ترجمہ:کیونکہ رمضان میں (روزہ توڑنے)کا جرم بڑا ہے، کیونکہ اس میں فرض روزے اور ماہِ رمضان (کی بے حرمتی) کا جرم ہے، جبکہ غیرِ رمضان میں صرف روزہ توڑنے (خواہ قضائے رمضان کا روزہ ہو یا نذر کا یا نفلی )کا جرم ہے ، (الجوہرۃ النیّرۃ، جلد:1،ص:173)‘‘۔