حال ہی میں شہر کے وسط میں اجتماعی قتل کا جو لرزہ خیز واقعہ پیش آیا، وہ افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ دردناک بھی ہے ۔ ،پولیس کے دو اہل کاروں نے مبینہ طور پرسفاکی کے ساتھ پولیس ہیڈکوارٹر کے رہائشی علاقے میں دو خواتین اور دو معصوم بچوں کو قتل کردیا۔اجتماعی قتل کی یہ واردات ،تھانہ نیو فوجداری کی حدود پولیس لائن میں پولیس کے اہل کار، علی نواز منگنہار کے کوارٹر میںوقوع پذیر ہوئی، جہاں درندہ صفت قاتلوںنےاپنے بیٹوں کے ہمراہ گھر میں گھس کر اپنی بھاوج، ،مطلقہ بھتیجی اواس کے دوکم سن بیٹوںکو بے دردی سے قتل کردیا جب کہ بھائی کو زخمی حالت میں چھوڑکر فرار ہوگئے۔
جس رات یہ واردات ہوئی اس کے دوسرے روزآئی جی سندھ، جناب اے ڈی خواجہ شکارپور کے دورے پر پہنچے اور انہوں نےتھانہ نیوفوجداری میںپولیس کمپلینٹ سیل کا افتتاح کیا۔ آئی جی سندھ کی واپسی کے بعد صحافی ضلعی پولیس حکام سےکمپلینٹ سیل سے متعلق بریفنگ لینے کے بعدواپسی کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک وہاںایک زخمی شخص علی نواز منگنہار داخل ہوا ، اس نے روتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ گزشتہ شب میرے دونوں بھائی اے ایس آئی محمد نواز اور پولیس کانسٹیبل شاہنواز ، اپنے بیٹوں سمیت 14 افراد کے ہمراہ میرے کوارٹر میں زبردستی گُھس آئے۔ اس وقت میں گھر میں تنہا تھا اور میری بیوی اور بیٹی باہر گئے ہوئے تھے۔ میرے سفاک بھائیوں ، بھتیجوں اور ان کے ساتھیوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعدکرسی پر بٹھاکر رسی سے باندھ دیا اور کپڑا ٹھونس کر میرا منہ بند کردیا۔اس دوران میری بیوی زلیخاں اپنی نوجوان بیٹی فرزانہ دونوںبچوں کے ساتھ واپس آئی۔ وہ لوگ جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئے تو ان وحشی درندوں نے انہیںقتل کردیااور ان کی لاشیں بوریوںمیںٹھونسنے کے بعد،صندوق میں ڈال کر پولیس لائن سے باہر لے گئے۔صحافیوں کے سوال پرعلی نواز نےبتایا کہ کچھ برس قبل محمد نواز اور اس کے ساتھیوں نے برادری کے ایک شخص غلام حسین منگنہار کو قتل کرکے لاش غائب کردی تھی، مجھے اس بات کا علم تھا۔میرے بھائیوں کو شک تھا کہ میں نے اس قتل کے بارے میں مقتول کے ورثاء کو بتادیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ میرے دشمن بن گئے تھے۔ صحافیوں نے جب ایس ایچ او تھانہ نیو فوجداری امام بخش لاشاری سے واقعے کی تفصیلات معلوم کرنا چاہیںتو انہوں کہا کہ علی نواز کے بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔اس کی بیوی،بیٹی اور نواسے لاپتہ ہوگئے ہیں،جن کی تلاش جاری ہے۔
اخبار نویسوں کے اصرار پر علی نواز کا بیان قلم بند کرنے کے بعدپولیس نے اے ایس آئی محمد نواز اور کانسٹیبل شاہنواز سمیت ان کے بیٹوں عامر،وقار اور شاہد کو گرفتار کرکےجب ان سے تفتیش کی توانہوں نے اقرار جرم کرلیا۔ملزمان کی نشان دہی پرچاروں مقتولین کی لاشیں پولیس لائن کے قریب محمد نواز کے گھر واقع گلشن حیدر کالونی کے صحن سےبازیاب ہوئیں ۔لاشوں کی حالت سے معلوم ہورہا تھا کہ ان پربہیمانہ تشدد کرنے کے بعد ا موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے ۔پولیس نےلاشیں اپنی تحویل میں لے کرسول اسپتال شکارپور پہنچائیں، جہاں پوسٹ مارٹم کے بعدورثاء کے حوالےکردیا گیا۔ مقتولین کی لاشیں جب گھر پہنچیں تو پولیس لائن میں کہرام مچ گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق تینوں بھائی محمد نواز ،شاہنواز اور علی نواز محکمہ پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے والد بھی محکمہ پولیس کے ملازم تھے۔اے ایس آئی محمد نواز کے علاوہ دونوںبھائی بھی پولیس لائن کےکوارٹروں میں رہائش پذیر ہیں۔ذرائع کے مطابق علی نواز کی بیٹی فرزانہ کی شادی اپنی ہی برادری کے نوجوان بنگل منگنہار کے ساتھ ہوئی، جس سے کچھ عرصے بعد طلاق ہوگئی، اوروہ اپنے دونوں بیٹوں کاشف اور ساجد کے ساتھ اپنے والدین کے گھر میں رہتی تھی۔
ایس ایس پی شکارپور ،مسعود احمد بنگش نےملزمان کی گرفتاری کے بعد ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس میں مبینہ قاتلوں کوصحافیوں کے سامنے پیش کیا گیا ۔ اس موقع پرمسعود بنگش نے صحافیوں کو بتایا کہ مذکورہ واقعہ دونوں بھائیوں کی آپس کی چپقلش کے نتیجے میں رونما ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اجتماعی قتل کے مرکزی ملزمان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہےجب کہ باقی مفرور ملزمان کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے فریادی علی نواز کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 14ملزمان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جن میں سے7ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتار شدگان میں محمد نواز اس کا بیٹا عامر، شاہنوازاس کی اہلیہ ارباب خاتون ان کے بیٹےشاہد اور وقارسمیت ان کا رشتہ دار نورالدین بھی شامل ہے۔جبکہ 7ملزمان جادل، سلمیٰ ،ابراہیم ،خیرالدین ،نظیر،کریم ڈنہ،مرتضیٰ کو گرفتار کرنے کے لئےشکارپور سمیت ضلع کشمور ایٹ کندھ کوٹ میں بھی پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں۔جب صحافیوں نے مذکورہ ملزمان سے قتل کی مبینہ واردات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نےکہا کہ ہمارا ہدف دونوں خواتین تھیں، جنہیں غیرت کے نام پر قتل کیاگیا۔ بچے انہیں بچانے کے لیےدرمیان میں آگئے لہذا انہیں بھی قتل کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ مقدمے میں چودہ افراد کو جھوٹ کی بنیاد پرنامزد کیا گیا ہے ۔ہم پانچ افراد کے علاوہ نہ تو کوئی خاتون اس واردات میں ملوث ہے نہ ہی ہمارے سسرالیوں میں سے کوئی اس وقت وہاں موجود تھا۔
باوثوق ذرائع کے مطابق ،دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کئے گئے مقدمے کی تاحال کوئی جے آئی ٹی تشکیل نہیں دی جاسکی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تقریباً آٹھ برس قبل اے ایس آئی محمد نواز نے غلام حسین منگنہار کو قتل کرکے لاش کوغائب کردیا تھا۔ مقتول کے بھائی عبدالقادر منگنہار نے انصاف کی خاطر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا،عدالتی احکامات پر لاش کی تلاش شروع کی گئی،جوبارآور ثابت نہ ہوسکی اس لیے قاتل پولیس کی گرفت سے آزاد رہے۔ملزمان کو اپنے بھائی علی نواز پر شک تھا کہ اس نے مقتول کے بھائیوں سے اس قتل کی مخبری کی ہے اور اجتماعی قتل کی مذکورہ واردات غلام حسین منگنہارکے قتل کا تسلسل ہے۔
تحقیقاتی افسر انسپکٹر قمرالدین مزاری کی عدم موجودگی کے باعث ، ایس ایس پی شکارپور کی جانب سے انسپکٹر حاجن شاہ کو نیا تحقیقاتی افسرمقرر کرتے ہوئے واقعے کی مکمل چھان بین کے احکامات دیئے گئے ہیں جنہوں نے مقدمے سے متعلق تمام ثبوت اور شواہد سمیت پوسٹ مارٹم کی رپورٹس حاصل کرنے کے بعد زیر حراست ملزمان سے تفتیش شروع کردی ہے۔جنگ کے رابطہ کرنے پر انہوں نے کہا ہے کہ اس طرح کے سنگین نوعیت کے مقدمات کی تحقیقات میں کچھ وقت لگ جاتا ہے، لیکن ہم معاملے کے اصل محرکات کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔