• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے ستاون(57) دن بعد وطن عزیز میں قومی انتخابات ہونے والے ہیں، جس کے حتمی پروگرام کا اعلان کر دیا گیا ہے۔مسلم لیگ نون کے آخری اور رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں ’’ہُما‘‘ کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔دیکھئے ’’ہُما‘‘ کس کے سر بیٹھے یا کندھے پر اترے’’ہُما‘‘ اقتدار اور خوش قسمتی کا استعارہ ہے ۔پاکستان میں حکومت و اقتدار صرف بدعنوانوں کے لئے خوش قسمتی قرار دیا جا سکتا ہے ورنہ یہ کانٹوں بھری راہ پہ چلنا اور ’’جوئے شیر‘‘ لانے سے کم نہیں۔جب تک ’’جوئے شیر‘‘ قصرِشیریں تک آئے، شیریں کہاں ہو گی؟کون جانے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نیا فرہاد کس قدر مضبوط اعصاب اور دل ودماغ کا مالک ہے کہ بری خبر آنے پر بھی ’’کار تیشہ‘‘ جاری رکھتا یا سر پھوڑ مرتا ہے۔ بے چارہ کوہکن جس کی موت پر بھی غالب کو گلہ ہے کہ ؎
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتہ خمار رسوم وقیود تھا
دوسرا اقتدار کی شیریں سے ہم آغوشی کے بعد ہجر کے لمحوں میں گلیوں، چوراہوں میں بھٹکتا پھرے ہے، ایک ہی صدا لئے کہ قصر شیریں سے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ مجنوں تو مجنوں ہے ، بے چارہ دیوانہ، کون بتائے، کیونکر سمجھائے کہ ’’ہُما‘‘ اڑ گیا، قسمت روٹھ گئی، مقدر بگڑ گیا اور بس!
کہتے ہیں اندھیروں میں سایہ ساتھ چھوڑ جاتا ہے یہاں پہر، دوپہر ڈھلتے ہی شام سے بہت پہلے سائے کی طرح پائوں سے لپٹ رہنے والے ’’خدام شاہی جو عبوری مدت کے اصل حکمرانوںکو نظرانداز کرکے ’’جاتی امرا‘‘ کے شہزادوں کی ’’کورنش‘‘ بجا لاتے، انعام و خلعت کی چاہت عہدہ و منصب کے لالچ میں بصد شوق رسوائی ، کوئے ملامت کو روز جایا کرتے تھے آج ’’کوئے جاناں‘‘ پیٹھ پھیر بیٹھے ہیں ۔اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
خدام شاہی نے خاص بڑے چبوترے پر شاہ اور مصاحبوں کی سات نشستیں سجائی تھیں ’’صاحب عالم‘‘ درمیان کی کرسی پر براجمان ہوئے آکر گہرے کالے شیشوں کا چشمہ لگائے ہوئے متانت اور وقار سے ادھر ادھر بنا دیکھے ایک ٹک سیدھ میں نظریں جمائے ہوئے تین نشستیں دائیں، تین بائیں رکھی تھیں جن پر جلی حروف میں مصاحبیں کے نام ’’کندہ‘‘ تھے۔فلک کج رفتار کیا جس کی تمنا کوئی کم ظرف حاسد بھی شاید کبھی کر نہ سکے، ساری نشستیں خالی تھیں مصاحبوں میں ایک بھی پلٹ کر نہیں آیا خلعت اور انعام کی تھیلیاں دھری رہ گئیں۔گو سیاہ چشمہ تھا ساتھ میں سفید چھڑی نہ تھی پھر بھی کیوں ’’نوشتہ دیوار‘‘ وہ پڑھ نہ سکے ۔آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ۔
دھندلی کہاں؟ چھوٹی سی یہ تصویر، گویا ’’جام جم‘‘ ہے جس میں 35سالہ شاہی کے عروج اور زوال کی پوری داستان لکھی ہے۔
علم اخبار نویسی کے اساتذہ کہتے ہیں بعض اوقات ایک تصویر،دسیوں مضامین اور جلی سرخیوں پر بھاری ہوسکتی ہے چنیوٹ کی مذکورہ تصویر انہی میں شمار ہے۔
تصویر کیا ’’ن‘‘ کی سر نوشت تھی جو چنیوٹ کی دیوار پر ظاہر ہوئی ۔ضلع جھنگ کی ایک تحصیل چنیوٹ بھی تھی۔ خادم اعلیٰ کی شاہی نےاسے ضلع بنا دیا۔تین قومی اور چھ صوبائی اسمبلی کی سیٹیں ،خادم اعلیٰ کے ادنیٰ اشارے پر نون لیگ کی وراثت میں لکھ دی گئیں۔مولانا رحمت اللہ، غلام محمد لالی تیسری قیصر شیخ کے ہاتھ لگی ’’روباہ صفت‘‘ شیخ قیصر نے تحریک انصاف کے آنگن میں اتر کر پہلے سے بیٹھے سیدوں کو وہ پٹخنی لگائی کہ انہیں بھاگے بنا راہ نہ تھی جونہی ان سے خلاصی پائی جھٹ سے اڑ کر خود نوازشریف کی چھتری پر آن اترے، مولانا رحمت اللہ عاجزی، نیکی، دینی مدرسے کی برکت سے دیہاتی عوام کی آنکھ کا تارا وہ بھی ن کے ہوئے۔ فراغ دل، اقدار کے پابند، روایت پسند، مذہب دوست ’’لالی‘‘ جب تک آپس میں نہ الجھ پڑیں ان کی ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی سیٹیں پکی ہیں وہ مسلم لیگ کو پیارے ہوئے ۔
اقتدار سے محروم مگر تاحیات قائد نے وہ گرد اڑائی کہ سب کی سانسیں رکنے لگیں جن کے پر پرواز باقی تھے انہوں نے اڑان بھری اور محفوظ ٹھکانوں پر جا اترے، کچھ ابھی تک محو پرواز ہیں جو حواس باختہ یا پر کٹے ہیں وہ رہ جائیں گے۔
یوں تو گزشتہ چند برسوں میں وقفے وقفے سے اڑان جاری تھی پہلے ق کی منڈیر خالی ہوئی پھر پیپلز پارٹی کی چھتری بے رونق بنی۔ اوکاڑہ کے بخاری، ساہیوال کا سوہنا، چن، نذرگوندل، فردوس ایک سے ایک نامی گرامی پیپلیا تحریک انصاف کی نذر ہوا نظریات نے نظریات کو بدل ڈالا ۔
گزشتہ چند ہفتے مسلم لیگیوں پر بھاری گزرے حافظ آباد کے چٹھے، شیخوپورہ کے ورک، گوجرانوالہ سے وڑائچ، سرگودھا سے چیمہ، میانوالی ، قصور، منڈی بہائوالدین، مہدی حسن بھٹی، سردار احمدعلی، اٹک پہلے ہی تحریک انصاف کے ساتھ تھا ایک آنچ کی کسر باقی تھی جو چودھری شجاعت حسین کے عزیز سابق ناظم ضلع اٹک میجر صادق نے پور ی کر دی ۔
ملتان میں حالت قدرے بہتر تھی سیاست کے ہیوی ویٹ شاہ محمود قریشی، شجاعت حسین کا خاندان کبیر والا کے ہراج، سید خاور علی شاہ، ملتان ڈویژن کے جہانگیر ترین، ابراہیم خاں، اسحاق خاکوانی ، امید واثق ہے کہ ناظم حسین شاہ بھی ہم سفر ہونگے۔ڈیرہ غازی خاں اور بہاول ڈویژن کچھ ہلکے ہلکے تھے بھلا ہو سرائیکی بھائیوں کا جنوبی پنجاب صوبہ تحریک نے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ میر بلخ شیر مزاری کے عزو شرف نے قیادت فراہم کی، نصراللہ دریشک کی طولانی دلیلیں، خسرو بختیار کی جہاں عمری، حوصلہ مند طاہر بشیر ، مخدوم احمد عالم انور چن کے آستانہ عالیہ کے ہم نے احسن رشید کے ہمراہ کتنے طواف کئے، مخدوم صاحب احسن رشید صاحب ہم مکتب اور ہم جماعت بھی ہیں۔ ایک ’’گل سرسبد‘‘ چاہئےتھا نواب آف بہاول پور صلاح الدین عباسی نے یہ کمی پوری کر دی جنوب سے ابھی شیخ فیاض، میاں عبدالستار اوربعض ساتھیوں کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے امید ہے جلد ہی آ ملیں گے سینہ چاکان وطن سے سینہ چاک
ہمارے بعض سیاسی تجزیہ کار اب تک معلق پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ 1970ء سے آج تک معلق پارلیمنٹ سنتے آئے ہیں دیکھی نہیں مقبول تحریک انصاف کو مضبوط امیدوار دستیاب ہونے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ عمران خاں کی چاروں صوبوں میں نمائندگی (بشمول اندرون سندھ) اور واضح اکثریت حاصل نہ ہو ۔
بھاگتی فوج کا اسلحہ غنیمت کامال ہے ، شکست خورہ فوج کے دفاع کی مشین نہیں۔
اب کے برس مسلم لیگ کی زرخیز زمینوں کو خشک سالی کا سامنا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین