عبدالغنی بجیر،تھرپارکر
سندھ کے سرحدی ضلع تھر کا ایک حصہ ’’پارکر‘‘ بھی ہے ،جو جغرافیائی اور ثقافتی طور اپنی الگ حیثیت کا حامل ہے۔تھر پارکر سے ملحقہ دیگر اضلاع کے شہروں نئوں کوٹ ،عمر کوٹ ،بدین سے جب سڑک تھر کی حدود میں داخل ہوتی ہے، تو ہر طرف ریتیلے چمکتے ٹیلے نظر آتے ہیں، جہاں خشک سالی کے باعث اکثر ہو کا عالم رہتا ہے،سناٹا اتناہوتا ہے کہ صرف گاڑی کے پہیوں کی ہی آوازیں سنائی دیتی ہیں، مگر یہ راستہ مٹھی اسلام کوٹ پار کرنے کے بعد ایک الگ علاقے میں داخل ہوتا ہے ،جسے پارکر کہتے ہیں ۔
اس کاآغاز گوڑی کے ڈھروں سے ہوتا ہے ڈھر یعنی مندر ،جو جین دھرم کے لوگوں نے سنگ مر مر کے پتھروں سے ملتے جلتے پتھروں کوتراش کر بنائے تھے۔ان پتھروں کی شفافیت ، تراشے اور انمٹ نقوش آج بھی گزرے دور کے ذہین اور محنت کش لوگوں کی داستانیں سناتے ہیں۔یہ مندر نگرپارکر شہر سے تقریباً 30کلو میٹر پھیلے گوڑی نامی گائوں میں قائم ہیں۔مندر سوڈھے حاکموں کے اوج کے دور میں تعمیر ہوئے ۔یہی وجہ ہے کہ اس گوٹھ کا نام بھی گوڑی پڑ گیا ۔ڈھروں میں داخل ہوتے ہی ،جنوب کی سمت ایک ایسامقام آتاہے ،جہاں چار، پانچ کوٹھیاں قائم ہیں ،جن پر بنی ہوئی نقش نگاری، طرز تعمیر، دیکھنے والوں کو کئی سو سال پیچھے لے جاتا ہے۔
کل باون حسین گنبدبنے ہوئے ہیں ،جن میں سے زیادہ تر گنبد ڈھروں کے اوپر بنائے گئے ہیں۔اس عمارت کا پتھر سنگ مرمر سے مشابہت رکھتا ہے، اسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اسے جودھ پور سے لایا گیاہوگا۔ عمارت میں استعمال ہونے والا ہر پتھر تیرہ فیٹ موٹا ، تین فیٹ لمبا اورچوڑا، ڈیڑھ فیٹ اونچا ہے۔عمارت کی تعمیر و سادگی میں چٹسالی کا کام اس قدر نفاست سے کیا گیا ہے، کہ اسے فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ کہا جا سکتا ہے۔یہاں سے نکلنے کے بعد ویرواھ کا قدیم و تاریخی شہر شروع ہوتا ہے، جس کےارد گرد چھوٹے بڑے سفید پتھر سے بنے مندر ،جو اب جھاڑیوں کے وسط میں آنے کی وجہ سے کم دکھائی دیتے ہیں ،مگر لوگ آج بھی اس قصبے نما شہر کا مشہور کھویا ،دیسی گھی سے بننے والا ماوا لینے کے لیے نگرپارکر سے ویرواھ آتے ہیں ۔
نگرپارکر میں داخل ہوتے ہی ، جہاں کارونجھر کا بلند وبالا پہاڑ آنے والے کو اپنی گود میں لینا شروع کر دیتا ہے وہاں ارد گرد کے نظار اور سرخ پتھروں سے قدرتی طور پر بنے ہوئے ڈیزائین بھی اپنی مثال آپ ہیں ۔کارونجھر پہاڑ جو سرخ سنگ مرمر کا ہے،اس کی اہمیت و افادیت کے متعلق یہ بھی کہا جا تا ہے کہ کارونجھر روزانہ سوا کلو سونا پیدا کرتا ہے، یعنی اس کا گرینائٹ اس قدر قیمتی ہے کہ سونے کے کی قیمت کی مانند ہے۔
نگرپارکر شہر میں قائم کارونجھر پہاڑ میں ایک درجن کے قریب جھرنے ،چشمے اور ندیاں ہیں، جو بارش کے بعد تقریباً تین ماہ کے عرصے تک بہتی رہتی ہیں ، پہاڑیوں کے بیچ سے دو کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد ساڑھدڑو نامی مندر پوائنٹ آتا ہے،جہاں پر اب محکمہ سیاحت و ثقافت کی جانب سے چھوٹے پل بھی تعمیر کروا دیئے گئے گئے ہیں، جس سے سیاحوں اور علاقہ مکینوں کو سہولت ہو گئی ہے۔اسی طرح سے نگرپارکر کے گرد 24 مربع کلو میٹر پرپھیلےہوئے کارونجھر پہاڑ کے اطراف میں قدیم بھوڈیسر مسجد بھی واقع ہے ،جسے گجرات کے حاکم محمود بیگڑی نے تعمیر کروایا تھا،یہ سنگ مرمر سے بنی ہوئی ،فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے،چوں کہ پارکر کی روشنیاں، آثار قدیمہ سمیت علاقائی جڑی بوٹیوں،لوگوں کے رہن سہن ، قدیم بیل گاڑیوں سے بھی وابستہ ہیں۔شہر کے پار کاسبو کے کھیت ،موروں کے تھان ہرنوں اور نیل گائے کی آماجگاہیں بھی اس علاقے کے فطری حسن میں شامل ہیں ۔
پارکر کا یہ خطہ قدرت کا عطا کردہ ایک تحفہ ہی ہے، جو کسی نیشنل پارک سے ہرگز کم نہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ نگرپارکر کے آثار قدیمہ سمیت علاقے کی وائلڈ لائف کاجامع سروے کیا جائے اور اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا جائے، تاکہ صحرائی خطے میں قائم قدرت کے حسین شاہکاروں کو محفوظ بنایا جا سکےاور سیاحت کو بھی فروغ ملے۔