پاکستان کا ہر خطہ تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا گہوارہ ہے، تاریخی و قدیم آثاروں میں صدیوں پرانی داستانیں رقم ہیں، سندھ کی پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب کا شمار بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے، یہاںکی سرزمین میں لاکھوں بزرگان دین، اولیاء کرام، صوفی، شاعر، ادیب، عالم اور دانش ور ابدی نیند سو رہے ہیں۔ تاریخ کے ثبوت ہمیں مقبروں، مزاروں اور دوسرے بے شمار پھیلے ہوئے کھنڈرات کی صورت میں ملتے ہیں۔ یہاں ایسے بہت سےخوب صورت اور تاریخی مقامات ہیں ،جو یہاں حکومت کرنے والوں نے مختلف ادوار میں بنائے، جواپنی خوب صورتی اور پرکشش تعمیرات کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول اور اپنی مثال آپ ہیں۔ ایسا ہی ایک قدیم اور فن تعمیر کا شاہکار’’ فیض محل‘‘ بھی ہے، یہ خیرپور کی ایک شان دار تاریخی عمارت ہے، خیرپور کے شمال مغرب میں واقع فیض محل سابقہ خیرپور ریاست کے تالپور حکمرانوں کی وہ عظیم یادگار ہے، جس کی مثال پورے برصغیر پاک و ہند میں کم ہی ملے گی۔فیض محل پاکستان کے شاندار فن تعمیر کے نمونوں میں سے ایک ہے ، اس خوب صورت محل کی تاریخ دو سوسال پرانی ہے، اس کی تعمیر خیرپور کے شاہی خاندان تالپور میرس نے 1798 میں کروائی ۔اسے آرام گڑھ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، یہ مغل طرز تعمیر اور آرٹ ورک کا ایک بہترین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ علم، قابلیت اور صلاحیت وہ تین خوبیاں ہیں جنہیں صحیح طریقے سے استعمال کرکے بڑی بڑی کام یابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں، میر فیض محمد خان تالپور ریاست خیرپور کے وہ حکمران تھے، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حسین محل تعمیر کروایا، جو آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک بادشاہ، سیاست دان، جنگجو، سپاہی، شہسوار اور باغبان میر فیض محمد خان تالپور وہ باغ و بہار شخصیت تھے، جن کو فنون لطیفہ سے بے حد لگائو تھا، اسی ذوق و شوق کا لازوال عکس فیض محل ہے، جو اپنے حسن اور طرز تعمیر کے باعث میران خیرپور کے تاریخی ورثے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ میر فیض محمد خان تالپور 1894ء سے 1909تک ریاست خیرپور کے حکمران رہے، انہی کے اقتدار میں یہ تعمیر ہوا، اس مناسبت سے اس محل کا نام فیض محل رکھا گیا، اسے’’ لکھی محل ‘‘بھی کہا جاتا ہے،کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ ا س کی تعمیر میں اس وقت ایک لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔تاریخی کتب کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ 1843ء میں جب چارلس نیپئر نے سندھ فتح کیا، تو سندھ کے آخری حکمران تالپور گھرانے کے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور انتظامی طورپر سندھ انگریزوں کے زیر اثر آگیا۔ تالپوروں نے یہ اقتدار کلہوڑوحکمرانوں سے حاصل کیا تھا۔
1786ء میں میر سہراب خان نے خیرپور کو اپنی تخت گاہ بنایا، جہاں فوج، جھنڈا اور ڈاک کے ٹکٹ بھی تھے۔ میر سہراب خان کے بعد میر رستم تالپور، میر علی مراد تالپور، میر فیض محمد تالپور اور میر امام بخش تالپور خیرپور ریاست کے حکمران رہے۔ میر سہراب خان نے اس ریاست کی حدود شمال میں کشمور اور کوٹ سبزل تک، جب کہ مغرب میں گنداواہ تک ، جنوب میں نوشہرو فیروز تک اور مشرق میں جیسلمیر تک پھیلا دی تھیں۔ 1783ء سے لے کر 1843ء تک تالپور گھرانے کے کل 6 حکمرانوں نے سندھ پر حکومت کی، اس دور میں جنگیں بھی لڑی گئیں، جب کہ تالپوروں نے سندھ میں تین ریاستیں بھی قائم کیں، جن میں حیدرآباد، میرپورخاص اور خیرپور شامل تھیں۔ خیرپور ریاست تالپور خاندان کی اہم ترین ریاست تھی جہاں سے انتظامی معاملات چلائے جاتے تھے۔ جہاں تالپور حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بہت کچھ کیا ،وہیں انہوں نے نئے قلعے اور عمارتیں بھی تعمیر کروائیں، آج بھی اگر خیرپور کو دیکھا جائے، تو وہاں کئی قدیم عمارتیں نظر آجائیں گی اور اس شہر کی سب سے خوبصورت عمارت فیض محل ہی ہے۔
یہ محل تالپور حکمرانی کے زمانے میں انتظامی معاملات چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ فیض محل دو منزلہ عمارت ہے، جو لال اینٹوں سے بنائی گئی ہے، جب کہ اس کا اگلا حصہ ہندوستان کے شہر جے پور سے منگوائے گئے ریت کے پتھروں سے سجایا گیا ہے، ان پتھروں کی سجاوٹ اور چمک دمک میں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی فرق یا تبدیلی نہیں آئی ۔ فیض محل کا مرکزی ہال سرکاری تقاریب اور دربار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، روشن دانوں سے سجائے گئے اس خوب صورت ہال میں اس دور کا فرنیچر، جھولے اور نایاب اشیاء آج بھی موجود ہیں، دروازوں، کھڑکیوں سمیت جتنی بھی چیزیں اس میں ہیں وہ سب دیال، ساگوان، پرتل اور چلغوزے کی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ اشیاء آج بھی نئی لگتی ہیں۔ فیض محل میں ڈائننگ ہال بھی قائم ہے، ہال کے دونوں اطراف اخروٹ کی لکڑی سے بنوائی گئی ، ڈریسنگ ٹیبل بناوٹ کے لحاظ سے بے حد عمدہ اور بے مثال ہے۔
اس شان دار محل کے آگے مغلیہ طرز کا ایک باغ بھی بنایا گیا ہے، جو تقریباً بیس ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے، کشادہ باغ میں املتاس، شیشم، کھجور کے درخت فضاء کو اور بھی خوش گوار بنادیتے ہیں، مرکزی ہال کی دیواروں پر تالپور حکمرانوں سے لے کر ان تمام شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ، جنہوں نے محل کے دورے کیے۔ ان میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور فیلڈ مارشل ایوب خان بھی شامل ہیں،گرچہ بے دھیانی اور عدم دل چسپی کے باعث ہمارا تاریخی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہے، مگر کچھ عمارتیں مدتوں سے وقت کے ستم کےباوجود اپنا وقار اور شناخت برقرار رکھی ہوئی ہیں۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔ آج اس دل کش عمارت میں تالپور خاندان کے نوابوں کی پہلے جیسی زندگی تو نہیں رہی ہے، مگر فیض محل ہمیں آج بھی اس دور کی یاد دلاتا ہے، جب یہ عمارت ایک ریاست کی شان و شوکت کی علامت تھی۔
اس محل میں اک عجیب سی کشش ہے، جو خیرپور آنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہےیہاں آنے والا کوئی شخص اگر فیض محل کو نہ دیکھے تو پھر اسے اپنا دورہ ادھورامحسوس ہوتا ہے۔ محل کی بناوٹ اور فن تعمیر کی مہارت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اس کے مختلف حصوں میں گھومنے کے دوران دلکش و حسین محل کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے اور وہ باہر کے مناظر کو فراموش کرکے محل کی کشش میں کھو جاتا ہے۔ کراچی، لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں سے جب لوگ سکھر و گرد و نواح کے علاقوں میں رہائش پزیر اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقارب، دوست و احباب سے ملنے آتے ہیں ،تو ان کے رشتےدار انہیں دیگر تاریخی مقامات و عمارتوں کے ساتھ ساتھ فیض محل کا دورہ بھی کراتے ہیں۔بیرون ملک سے سیاحوں کی بڑی تعداد بھی خیرپور پہنچتی ہے اور حسین و دلکش محل کو دیکھ کر مرعوب بھی ہوتی ہے،سکھر سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں واقع سرکاری و نجی کالجز و اسکولز کے طلباءکو بھی فیض محل کی سیر کرائی جاتی ہے اور انہیں اس تاریخی و قدیم ورثے کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں تاکہ نسل نو بھی اپنی تاریخ سے آشنا ہو سکے۔