کاشف نسیم
ایک بازار سے ایک مغرور آدمی گذر رہا تھا کہ، اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دےکر روکا اور نخوت سے پوچھا,’’اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟‘‘
عورت نے کہا،’’ گھی بیچ رہی ہوں‘‘۔
اس شخص نے کہا،’’اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟‘‘
گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیص پر گرگیا،وہ بہت بگڑ ااور دھاڑتے ہوئے بولا،’’نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیص خراب کر دی ، جب تک میں اس قمیص کے پیسے نہ لے لوں، تجھے یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔‘‘
عورت نے بیچارگی سے کہا،’’میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیص پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔ ‘‘
اس آدمی نے کہا،’’جب تک تجھ سے دام نہ لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دوں گا۔ ‘‘
عورت نے پوچھا،’’کتنی قیمت ہے قمیص کی؟‘‘
اس شخص نے کہا,’’ایک ہزار درہم۔ ‘‘
عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا،’’میں غریب عورت ہوں، میرے پاس ایک ہزار درہم کہاں ؟‘‘
اس شخص نے کہا،’’مجھے اس سے کوئی غرض نہیں‘‘۔
عورت نے کہا,’’مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نہ کرو۔‘‘
ابھی یہ آدمی عورت کو دھونس اور دھمکیاں دے رہا تھا کہ وہاں سے ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔ نوجوان نے اس آدمی سے کہا،’’جناب، میں دیتا ہوں، آپ کو آپ کی قمیص کی قیمت‘‘ اُس نے جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دےدیئے۔
یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا،’’جاتےکدھرہو؟‘‘
آدمی نے پوچھا، ’’تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟‘‘
نوجوان نے کہا ،’’تم نے اپنی قمیص کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟‘‘
آدمی نے کہا ’’بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لےلیئے ہیں۔
نوجوان نے کہا،’’تو پھر قمیص کدھر ہے؟‘‘
آدمی نے کہا,’’وہ کس لیے؟‘‘
نوجوان نے کہا،’’میں نے تمھاری قمیص کے پیسے دیئے، اب اپنی قمیص ہمیں دو اور جاؤ۔
آدمی نے گڑبڑاتے ہوئے کہا,’’تو کیا میں ننگا جاؤں؟‘‘
نوجوان نے کہا, ’’ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ‘‘
آدمی نے کہا،’’اور اگر میں یہ قمیص نہ دوں تو؟‘‘
نوجوان نے کہا،’’تو پھر اس کی قیمت د ے دو۔‘‘
آدمی نے پوچھا،’’ایک ہزار درہم؟‘‘
نوجوان نے کہا,’’نہیں، قیمت وہ جو میں مانگوگا‘‘۔
اس آدمی نے پوچھا،’’ تم کیا قیمت مانگتے ہو؟‘‘
نوجوان نے کہا ’’دو ہزار درہم ۔‘‘
آدمی نے کہا،’’تم نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے‘‘۔ نوجوان نے کہا،’’ تمھیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ ‘‘
آدمی نے کہا,’’ یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔ ‘‘
نوجوان نے کہا،’’پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیص اتار دو۔ ‘‘
اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا،تومجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
نوجوان نے کہا , ’’جب اس مسکین عورت کو رسوا کر رہےتھے تو۔‘‘آدمی نے کہا,’’ یہ ظلم اور زیادتی ہے۔ ‘‘
نوجوان نے حیرت سے کہا،’’کمال ہے کہ یہ تمھیں ظلم لگ رہا ہے‘‘۔
اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنےکےلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دےدیئےاور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کےلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔
ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حال ایسا ہی ہے، دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم ہوتا ہے، اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔