مولانا حافظ عبد الرحمن سلفی
سرورکائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فاران کی چوٹیوں سے جب توحید باری تعالیٰ کا نعرہ بلند کیا۔ تب سے کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہو گیا اور آپ ﷺ اور آپ کے جاںنثارساتھیوں کو مسلسل ایذائیں دی جانے لگیں۔یہاں تک کہ تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میںمصائب و آلام برداشت کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ اداکرنے والے پیغمبراعظم ﷺ کو مدینۂ منورہ ہجرت کا حکم ہوا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت‘مدینۂ منورہ ہجرت فرما گئے ،تاہم یہاں بھی کفار مکہ ‘ یہودیوں اورمنافقین نے سکون نہ لینے دیا بلکہ آئے دن نت نئی سازشیں کھڑی کرتے اور جنگوں میں الجھا کر سمجھتے رہے کہ شاید اللہ کے آخری دین اور جماعت حقہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر کے رکھ دیں گے۔ تاہم اللہ کی مشیت غلبہ اسلام اور اہل ایمان کو عظمت و شوکت عطا فرمانا تھی۔ چناںچہ تمام تر سازشوں اور جنگوں کے باوجود آٹھ ہجری میں وہ عظیم واقعہ رونماہوا جس کے متعلق اہل مکہ کبھی گمان بھی نہ کر سکتے تھے۔صلح حدیبیہ میں امن کا معاہدہ طے پا چکاتھا۔ قبائل مسلمانوں اور کفار مکہ کے حلیف بن گئے اور اس طرح بنو خزاعہ رسول اللہ ﷺ کے حلیف بنے جب کہ بنی بکر قریش کے حصے دار بن گئے ۔معاہدے کے تحت اگر کوئی قبیلہ دوسرے پرحملہ کرے گا تو وہ دوسرے فریق پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ شعبان آٹھ ہجری میںموقع غنیمت جانتے ہوئے قریش کے حلیف بنی بکر نے رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پر حملہ کر کے اپنی پرانی عداوت کااظہار کیا تاکہ پرانا بدلہ چکالیں۔ بس یہی واقعہ اللہ کے گھرکو قیامت تک کے لیے بتوں کی نجاست سے پاک کرنے کا سبب بنا ۔ یہاں تک کہ بنی خزاعہ حرم میں پناہ گزین ہوئے۔ ان حالات میں عمرو بن سالم خزاعی نے فوراً مدینے کی راہ لی اور خدمت اقدس میںحاضر ہو کر منظوم انداز میں دہائی دی اور اس عہد کی طرف اشارہ کیاجو بنوخزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان عبدالمطلب کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ اس وقت سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرامؓ کے جھرمٹ کے درمیان مسجد نبوی میںتشریف فرماتھے۔ بنو خزاعہ کے وفد نے رقت آمیز اندازمیں عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ بنو بکر نے رات میں ہم پر ایسی حالت میںحملہ کیا کہ ہم رکوع و سجود میں تھے (یعنی مسلمان تھے) اور ہمیں قتل کیا۔
نبی مکرم ﷺ نے فرمایا، اے عمرو بن سالم تیری مدد کی گئی۔ اس واقعے نے جہاںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان میں قریش کی بدعہدی اور ظلم کے خلاف غم و غصہ پیدا کیا ‘وہیں قریش مکہ میںبھی بدعہدی کااحساس پیدا کیا۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ قریش کیا کرنے والے ہیں۔گویا میں ابوسفیان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عہد کو پھر سے پختہ کرنے اور مدت صلح کو بڑھانے کے لیے آگیا ہے۔ دوسر ی جانب قریش نے یہی کیا اور ابوسفیان صلح کے لیے مدینہ منورہ خدمت نبوی میںحاضر ہوا، تاہم مایوس واپس ہوا۔ بعد ازاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، عمر بن خطاب ؓ،علی بن ابی طالبؓ سے ملا مگر سب جگہ سے مایوس ہو کر ناکام واپس لوٹا۔ ادھر پیغمبر اعظم ﷺ نے انتہائی راز داری سے جنگی تیاریاں شروع فرمائیں ،یہاں تک کہ10رمضان المبارک آٹھ ہجری میں رحمت عالم ﷺ نے دس ہزار جاںنثاروں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے لیے رخت سفر باندھا ۔ راستے میں ابوسفیان بن حارث اور سیدنا عباسؓ اہل و عیال کے ساتھ ملے اور آپ ﷺ کالشکر مرالظہران کے مقام پر پہنچ گیا اورآپؐ نے روزہ افطارفرمالیا۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی آپؐ کی اتباع میں روزہ افطارکیا۔ رات کو وادی فاطمہ میں نزول فرمایا۔ یہاں پر آپ ﷺ کے حکم پر صحابہ کرامؓ نے الگ الگ آگ جلائی۔ اس طرح دس ہزار چولہوں میں آگ جلائی گئی جو اسلامی لشکر کی قوت و ہیبت طاری کرنے کے لیے بڑی معاون ثابت ہوئی۔ حضرت عباسؓ اس موقع پر ابو سفیان کو لے کر خدمت اقدس میںحاضر ہوئے ۔جہاں ابو سفیان نے اسلام قبول کیا۔ اسلامی لشکر اچانک قریش کے سروں پرپہنچ گیا۔ اہل مکہ حیران و سرگرداں اس سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ انہیں رحمۃ للعالمین ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر روا رکھے جانے والے تمام تر مظالم یاد آنے لگے اور وہ دستور زمانہ کے مطابق توقع کرنے لگے کہ آج ہماری خیرنہیں۔ ہماری گردنیں کاٹ کر فاتح اعظم محمد ﷺ کی خدمت میں طشتوںمیں سجا کر پیش کر دی جائیں گی۔دوسری جانب امام الانبیاء ﷺ نے بہترین جنگی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لشکر کو ترتیب فرمایا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ کی زیر قیادت دستہ ترتیب دے کر ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ مکرمہ کے زیریںحصے سے داخل ہوں ۔ یہاں تک کہ صفا پر آپ سے آملیں۔اسی طرح سیدنا زبیر بن عوام ؓ کو بائیں پہلو پر رکھا۔ ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا پرچم تھاجنہیںحکم دیا گیا تھاکہ مکہ میں بالائی حصہ یعنی کداء سے داخل ہوں اور حجون میں جھنڈا گاڑکر آپ ﷺ کی آمد تک وہیں ٹھہرے رہیں۔ سیدنا ابوعبیدہؓ پیادے پر مقرر کیے گئے اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ اختیارکریں،یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کے آگے اتریں۔ اس طرح اسلامی لشکر مکہ میں بغیر کسی بڑے خون خرابے کے داخل ہو گیا، البتہ خالد بن ولید ؓ کی راہ میں جو مشرک آڑے آیا وہ مارا گیا ۔ جب کہ دو صحابہ کرام زینؓ بن جابر فہری اور خنیسؓ بن خالد نے جام شہادت نوش کیا ۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ لشکر سے بچھڑ کر دوسرے راستے پر چل پڑے اور اس دوران انہیں شہید کر دیا گیا۔ جب کہ خالد بن ولیدؓ اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں بارہ اوباش مارے گئے۔ وہ کوہ صفا پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملے۔ سیدنا زبیرؓ نے حجون میںمسجد فتح کے پاس جھنڈا گاڑا اور آپ کے لیے ایک قبہ نصب کیا اور پھر مسلسل وہیں ٹھہرے رہے‘ یہاں تک کہ امام کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لے آئے۔ بعد ازاں آ پ ﷺ اپنے گرد و پیش موجود انصار و مہاجرین کے جلو میں مسجدالحرام کے اندر تشریف لائے ۔حجر اسود کو بوسہ دیا اوربیت اللہ کا طواف فرمایا۔ رسول اکرم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ جو بیت اللہ میں پناہ لے‘ اس کے لیے امان ہے ۔جوابوسفیان کے گھر میں پناہ لے،اسے بھی امان ہے یہاں تک کہ جو اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے اور مقابل نہ آئے ‘ اسے بھی امان ہے۔ ساتھ ہی قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔ترجمہ!حق آ گیا اور باطل چلا گیا‘ باطل توجانے ہی والا ہے۔(سورۂ بنی اسرائیل)اس کے بعد آپ ﷺ نے بیت اللہ کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور نماز ادا کی اور اندرونی حصے کا چکر لگایا اور تکبیرات بلند کیں۔ اس دوران قریش صحن حرم میں کھچا کھچ بھرے ہوئے اپنی قسمتوں کے منتظرتھے۔ قربان جائیے رحمۃللعالمین ﷺ کی شان عظمت پر کہ آپ نے یوں خطاب فرمایا کہ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرکے قریش کی نخوت و فخر کاخاتمہ فرمادیا اور فرمایا :اے لوگو! ہم نے تمہیںایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا، تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ بے شک اللہ جاننے والا اورخبردارہے ۔ (سورۃ الحجرات ) دشمنوں کے لیے معافی کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا۔ میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی یعنی آج تم پر کوئی پکڑنہیں ،تم سب آزادہو۔ اسی طرح آپ ﷺ نے کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ جس نے آپ کو بیت اللہ میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا، انہیں بلا کر کعبے کی کنجی عطا فرمائی اور ارشادفرمایا اسے ہمیشہ کے لیے لو‘تم سے اسے وہی چھینے گا جو ظالم ہو گا۔ آج تک اسی خاندان کے پاس کعبے کی چابی ہے۔ کعبہ کی چھت پرحضرت بلالؓ نے اذان دی ۔اس موقع پر بعض بڑے مجرمین جن کی تعداد نو تھی ‘کے بارے میں حکم دیا کہ اگر وہ کعبے کے غلاف سے بھی چمٹے ہوں تو قتل کر دیے جائیں۔ ان میں سے بھی بعض نے امان طلب کی یا اسلام قبول کر لیا‘ ان کی جان بخشی کی گئی۔ اس طرح رب کائنات نے بیت اللہ الحرام کو قیامت تک کے لیے شرک کی نجاست سے پاک فرمایا اور اس واقعے نے اسلام کے پھیلائو کی راہیں کھول دیں ۔یہاں تک کہ جزیرہ نمائے عرب میں سوائے اسلام کے اور کچھ باقی نہ رہا۔ کفرکے اندھیرے کافور ہوئے اور نوراسلام گھرگھر پہنچ گیا۔