• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عظمت کا نور...

عفت زرّیں، ملیر، کراچی

’’لے آ، ٹِین ڈبّے، بھوسی ٹکڑے، پُرانا لوہا لے آ۔‘‘اُسے روزانہ صُبح نو بجے کے قریب آنے والی اِس آواز سےایک عجیب سی الجھن اور بےزاری سی ہوتی۔ آج بھی جیسے ہی کانوں میں یہ آواز پڑی، اُس کی بڑبڑاہٹ شروع ہو گئی۔ ’’آگئے لیڈر صاحب، اب ان کے پیچھے آنے والے جلوس کے لیے تیار رہو۔‘‘ امریکا سے آئی ہوئی اُس کی نند،عینی نے چہرے سے لحاف ہٹا کر مُسکراتے ہوئے پوچھا، ’’بھابھی! کس کی بات کر رہی ہیں؟‘‘ اُس نے بُرا سا مُنہ بنا کر کہا، ’’ارے انہی کی، جو ہر صُبح آ کر ایک ہی راگ الاپتے ہیں، لے آ ٹِین ڈبّے، بھوسی ٹکڑے، پُرانا لوہا لے آ۔‘‘ عینی بولی، ’’بھابھی! اس کی تو روزی روٹی یہی ہے۔ یقین کریں، امریکا میں تو ہم ان آوازوں ہی کو ترس گئے ہیں۔ویسے، آپ کو اس کی آواز بُری کیوں لگتی ہے؟‘‘اُس نے جلے بُھنے لہجے میں کہا، ’’مجھے اس کی آواز سے کیا لینا دینا،مجھے تو بس اس بات سے شدید کوفت ہوتی ہے کہ اس کے آنے کے بعد، تواتر سے ٹھیلے والے آنا شر وع ہوجاتے ہیں، کسی کو کاپی کتاب چاہیے، توکسی کو اخبار کی ردّی۔لگتا ہے، کراچی میں سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار یہی ہے۔‘‘عینی ہنستے ہوئے بولی،’’چھوڑیں بھابھی، کیوں دِل جلا رہی ہیں۔ آج کل تو پوری دنیا میں ری سائیکلینگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ہمارے یہاں غربت بھی ہے اور تعلیم بھی سب کو میسّر نہیں۔اس صورت میں غریب اپنے بال بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرے گا ہی ناں۔یہ لوگ بھی کاغذ، پلاسٹک کی اشیاء، لوہے کا سامان وغیرہ مختلف فیکٹریوں میں بیچ کر گزر بسر کررہے ہیں۔‘‘ ’’ہاں تو جو چاہےکریں، مگر اس قدر گلا تو نہ پھاڑیں کہ دوسروں کے کانوں کے پردے ہی پھٹ جائیں۔ بچّوں کو اسکول بھیج کر اگر کبھی ذرا سی دیر لیٹنے کو جی چاہتا ہے، تو یہ اپنی آواز کا جادو جگانے آدھمکتے ہیں۔ اور اپنے بھیّا کی سُنو، انہوں نے تو اس شخص سے دوستی گانٹھی ہوئی ہے۔اکثر اتوار کو اس کی آواز سُنتے ہی باہر چلے جاتے ہیں اور پھر اللہ جانے ان دونوں میں کیا باتیں ہوتی ہیں۔‘‘بھابھی تشویش بَھرے لہجے میں بولی۔’’ارے، میری پیاری بھابھی! چھوڑیں بھی ناں، ساجد بھیا کی عادت تو آپ کو پتا ہے، وہ سب سے جلدی گُھل مل جاتے ہیں۔‘‘ عینی نے بات ختم کرنے کی غرض سے کہا۔ ’’گُھلنا ملنا اچھی بات ہے، مگر اس ٹِین ڈبّے والے اور تمہارے بھیا کا کیا جوڑ؟اور ان کی باہمی دِل چسپی کے ایسے کون سے موضوعات ہیں، جن پر اکثروبیش تر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے؟‘‘ وہ قدرے طنزیہ انداز میں گویا ہوئی۔ ’’ہاہاہا…‘‘ عینی قہقہہ لگاتے ہوئے بولی،’’حد ہو گئی بھابھی۔ کیا آپ نے کبھی بھیا سے نہیں پوچھا کہ وہ اس سے کیا باتیں کرتے ہیں؟‘‘ اس نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا، ’’مجھے کیا ضرورت پڑی اتنی کھوج کی؟ مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اس میں اتنی دِل چسپی کیوں لیتے ہیں۔ آج آئیں گے، تو تمہارے سامنے ہی پوچھوں گی، دیکھ لینا، کیا کہتے ہیں۔‘‘اس کے بعد وہ گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ شام کو نہ اُسے یاد رہا، نہ ہی عینی نے یاد دلایا۔


اتوار کا دِن تھا۔ سب ناشتا کر رہے تھے کہ ٹِین ڈبّے والے کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ عینی نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ بھائی سے پوچھیں۔ اس سے پہلے کہ ساجدگھر سے باہر جاتے، بھابھی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’ذرا میری بھی سُن لیں، ایسی کیا خُوبی ہے اُس میں، جو اُس کی ایک آواز پر آپ فوراً استقبال کرنے پہنچ جاتے ہیں؟‘‘ ساجد نے بیگم کے طنز کو سمجھتے ہوئے کہا، ’’تمہیں کیوں اس سے اللہ واسطے کا بیر ہے؟ مَیں تو اس کی دِل سے قدر کرتا ہوں، اسی لیے کبھی کبھار حال چال پوچھ لیتا ہوں۔ویسے، تمھارے ذہن میں کیا کھچڑی پک رہی ہے، آخر مجھے بھی تو پتا چلے؟‘‘ ’’پہلی بات تو یہ کہ مجھے اس سے کوئی اللہ واسطے کا بیر نہیں، مَیں تو بس یہ سوچ کر ہلکان ہورہی ہوں کہ روز اتنے پھیری والے آتے ہیں، مگر آپ کی سوئی صرف اس بندے پر کیوں اٹک گئی ہے؟‘‘ اس نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا۔ ساجد نے گہری سانس لی اور کہا، ’’نیک بخت! خوددار ہے وہ اور اُس کی یہی خُوبی مجھے پسند ہے۔ایک دفعہ مَیں دروازے پر کھڑا تھا، تو اُس نے پینے کے لیے پانی مانگا۔مَیں نے اسے لا کر دیا۔ پھر ایسے ہی ایک دو سوال کیے،تو پتا چلا کہ وہ تین بچّوں کا باپ ہے، آٹھویں تک پڑھا ہوا ہے۔صُبح سے شام تک، گرمی سردی کی پروا کیے بغیر محنت کرتا ہے، تاکہ رزقِ حلال کما کر اپنے بچّوں کی پرورش کرے۔ ایک بار مَیں نے اسے کچھ پیسے دینے کی کوشش کی، تو صاف انکار کر دیا۔‘‘ایک لمحے کو ساجد چُپ ہوئے، پھر بولے،’’تمیں وہ لنگڑا فقیر یاد ہے، جو اکثر گلی میں آکر رو رو کر بھیک مانگتا تھا۔وہ ایک بار مجھے اتوار بازار میں نظر آیا، وہاں اندھا بن کر بھیک مانگ رہا تھا۔اور مَیں اس پھیری والے کو اپنی خوشی سے پیسے دینے کی کوشش کرتا ہوں، مگر ہر بار صاف انکار کر دیتا ہے۔ تمہیں شاید یاد ہو، تم نے بچّوں کے جوتے جو چھوٹے ہو گئے تھے، ایک تھیلے میں جمع کر کے رکھے تھے۔ مَیں نے جب وہ تھیلا یہ کہہ کر اُسے دینا چاہا کہ یہ تمہارے بچّوں کے لیے ہے، تو اُس نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا، صاحب! ہم غریبوں کے پاس صرف خودداری ہی تو ہے، جو ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اگر مجھے ایسے ہی دوسروں سے لے کر اپنے بچّوں کی ضروریات پوری کرنی ہوتیں، تو روزانہ ریڑھی نہ گھسیٹ رہا ہوتا۔ صاحب جی! مَیں اپنے بچّوں کو رزقِ حلال کھلاناچاہتا ہوں، تاکہ ان کی نظریں کسی کے سامنےجُھکیں نہیں۔‘‘ساجد نے میز پر رکھا گلاس اُٹھا کر پانی پیا اور پھر گویا ہوا، ’’مَیں نے اس سے کہا، دیکھو! تمہارے بچّے بھی میرے بچّوں ہی کی طرح ہیں۔ پھر شرمانا کیسا؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’بے شک صاحب جی! مگر مَیں آپ سے لے کر بچّوں کو یہ جوتے پہنا بھی دوں، تو مجھے وہ اطمینان اور خوشی نہیں ملے گی، جو اپنی کمائی سے خریدی ہوئی چیزیں انہیں دینے میں ملے گی۔ مَیں چاہتا ہوں، میرے بچّے بھی اپنی چادر دیکھ کر ہی پاؤں پھیلانا سیکھیں۔‘‘مَیں اس کی شکل دیکھتا رہ گیا اور سوچنے لگا کہ ایک عام سے پیشے سے منسلک یہ عام سا شخص، حقیقت میں کتنا بڑا انسان ہے۔ پھر ساجد نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، ’’تمہیں اس کی کڑک اور گرج دار آواز بُری لگتی ہے ناں، لیکن یہ اس کا اپنے اوپر اعتماد اور فخر ہے، جو اُسے روز ایک نئے ولولے کے ساتھ لوگوں کی اس بھیڑ میں اپنے بچّوں کے لیے رزقِ حلال کی تلاش میں کشاں کشاں لیے چلا آتا ہے۔‘‘


وہ پوری رات صحیح طرح سو نہیں پائی۔ صُبح بچّوں کے جانے کے بعد بھی بستر پر نہیں لیٹی۔ اُسے کسی کا انتظار تھا۔ جیسے ہی ٹِین ڈبّے والے کی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی، وہ بھاگ کر دروازے پر گئی اور دروازے کی اوٹ سے جھانک کر دیکھا۔ وہ سانولے رنگ کا دبلا پتلا سا شخص تھا، مگر اُس کے چہرے کا وقار،عزم و استقلال کی چمک اور’’عظمت کا نور‘‘ اُسے سب سے الگ،سب سے نمایاں کررہا تھا۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار

٭دَورِ جدید، نجمہ حفیظ، کورنگی، کراچی٭فکر نہیں، غلام اللہ چوہان سلاوٹ، گزدر آباد، کراچی٭مدرز ڈے، بنتِ سومر خانگل ،کلی ترخہ، کوئٹہ٭ماں، سیّدہ عطرت بتول نقوی٭والدین، بچّے کی دُعا، شاہین ولی شاد ،ملیر، کراچی٭سرسوں کا ساگ، ظفر اقبال ظفر، سیال کوٹ٭واردات ، زاہدہ حفیظ شیخ، لاہور٭حُسن پرست، مہر غلام شبیر سرگانہ٭بلاعنوان، معصومہ، حیدرآباد٭خواتین کا عالمی دِن، بدلہ، بتول عصمت، حاصل پور، بہاول پور٭انتقام، اُمّ ہانی٭ دوست، چار دوست، پرنس افضل شاہین، بہاول نگر٭خوف ناک خواب، مزمل شمسی، راول پنڈی٭الفاظ کا استعمال، عید منائیں، وقت، والدین، اسماء سعید، میٹروول،کراچی٭حضرتِ انسان اور حیوانی خصلتیں، ریحان جبّار یوسفانی٭اکھنور ایکشن، نشاط، مانسہرہ۔

بذریعہ ای میل موصول ہونے والی نگارشات

٭ادھوری کہانی، مریم علی، سنجھورو٭تصوّر، حباء اشرف٭پچھتاوا، مائرہ فاطمہ، کراچی٭دِل کا کمرا، نتاشا، کراچی٭وہی خدا ہے، سدرہ جمیل ٭سگریٹ، بلال یونس، نیو سعید آباد٭روحانی تجربہ ،اسماء بنت محمّد اجمل، کراچی٭آبیل مجھے مار، محمّد ذوالقرنین خان، کوئٹہ٭بچّوں کی حفاظت، بینش ذیشان، گلشنِ اقبال، کراچی٭قربانی،خالد جان٭ماں، ڈاکٹرچوہدری تنویر سرور، لاہور٭محبّت، میاں جمشید، رحیم یار خان٭زندگی کا سبق، علی رضا۔

ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار

٭محنت، غرلیات، وکیل احمد پروانہ، ساہی وال٭مَیں عورت ہوں، رانی خاور مئیو، لاہور٭غزلیں، فہمیدہ مقبول، کراچی٭قصرِ دِل، محمّد زبیر وارثی، ٹائون شپ، لاہور٭ہجر کا غم، زاہد اظہار، کراچی٭اشعار، فریحہ قمر٭تتلی، شاہین ولی شاد، کراچی٭سورج، چاند، ستارے، نام اور مقام نہیں لکھا٭مزدورکی صدا، حمدان احمد احمدان، لاہور٭غزلیات، روینہ خان، ملیر، کراچی٭جب برسے گی بارش، جویریہ صدف گلزار، مظفرگڑھ٭میری ماں، حائقہ رفاقت، لاہور۔

بذریعہ ای میل موصول ہونے والاکلام

٭غزلیات، محمّد اشفاق بیگ، ننکانہ صاحب٭غزلیں اور نظمیں، بشریٰ ملک، اسلام آباد٭نظمیں، صابر علی، ٹنڈو جان محمّد، میرپورخاص٭چاہتیں ہیں، بشریٰ پرویز٭ماں، فیضان اصغر٭مَیں زینب ہوں، ردا فاطمہ٭یارب، عائشہ خان۔

تازہ ترین
تازہ ترین