صوبہ ٔپنجاب کے دارالحکومت، لاہور میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کسی دَور میں یہ شہر ’’7دن اور 8میلے‘‘ کے نام سے مشہور تھا اور پھر ’’باغات کے شہر‘‘ سے موسوم ہوا۔ گرچہ اب بیش تر قدیم باغات تجاوزات کی زد میں آ چُکے ہیں، لیکن ان کی جگہ نئے گلستانوں نے لے لی ہے۔ ان باغات میں گلشنِ اقبال پارک، ایل ڈی اے پارک اور حال ہی میں مکمل ہونے والا گریٹر اقبال پارک قابلِ ذکر ہیں، جب کہ فاطمہ جناح باغ (لارنس گارڈن) اور شالیمار باغ گزشتہ ایک سو برس سے بھی زاید عرصے سے شہریوں کی توجّہ کا مرکز ہیں۔ اہلِ لاہور کی بڑی تعداد طلوعِ آفتاب سے قبل چہل قدمی کی غرض سے ان باغات کا رُخ کرتی ہے، لیکن گزشتہ 10برس سے ان پارکس کا منظر نامہ تبدیل ہو چُکا ہے، جو لاہور کے باسیوں میں جنم لینے والے ایک نئے رُجحان کی عکّاسی کرتا ہے۔ ان دِنوں سورج نکلنے سے پہلے ہی لاہور کے اکثر باغات میں سیکڑوں بچّے، بوڑھے ، جوان اور ہرعُمر کی خواتین یوگا کرتی دِکھائی دیتی ہیں، جب کہ شالامار باغ میں یوگا کرنے والوں کا سب سے بڑا جتماع ہوتا ہے، جس میں کم و بیش 500افراد شریک ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی آمد نے یوگا کے پھیلائو میں اہم کردار ادا کیا کہ شہریوں کو ان ذرایع سے یوگا کی افادیت کا علم ہوا اور آج سے کم و بیش 5برس قبل یوگا نے لاہور میں ’’وبا‘‘ کی شکل اختیار کرلی۔ زندہ دِلوں کے شہر میں یوگا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اتوار کو شہر کے تقریباً سبھی باغات یوگا کرنے والوں سے پُر ہوتے ہیں۔ اس سے قطعِ نظر کہ یوگا امراض سے بچائو اور نجات کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں، علاج معالجے پر اُٹھنے والے ہوش رُبا اخراجات سے تنگ آئے افراد زندگی میں ایک مرتبہ اس طریقۂ علاج کو آزماتے ضرور ہیں، جب کہ یوگا کی تربیت دینے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس سے مُوذی امراض تک کا علاج کیا ہے، مگر صحت مند رہنے کے لیے یوگا کو زندگی کا جُزو بنانا پڑتا ہے۔ ہم نے یوگا کی افادیت جاننے کے لیے گزشتہ دنوں لاہور کے معروف یوگی اور ’’پاکستان یوگا کائونسل‘‘ کے چیئرمین، محمد ریاض کھوکھر سے خصوصی بات چیت کی۔ خیال رہے کہ ’’پاکستان یوگا کائونسل‘‘ لاہور سمیت مُلک بَھر کے عوام میں یوگا سے متعلق شعور بیدار کر رہی ہے اور مُلک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں اس کی شاخیں موجود ہیں۔ 2020ء تک پاکستان کے ہر شہر میں فِری یوگا ایکسر سائز سینٹرز قائم کرنا، یوگی محمد ریاض کھوکھر کا مِشن ہے، جس پر وہ تیزی سے گام زن ہیں۔ ذیل میں یوگا تھراپسٹ سے ہونے والی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔
س :ان دِنوں لاہور سمیت پاکستان بَھر میں یوگا تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس کا پس منظر کیا ہے؟
ج :ہندو یوگیوں کے مطابق، یوگا کی ابتدا آج سے 5ہزار برس قبل شمالی بھارت میں ہوئی اور سب سے پہلے ہندوئوں کی قدیم ترین مذہبی کتاب، رِگ وید میں یوگا کا ذکر کیا گیا۔ یوگا کی قدیم ترین تعلیمات پتّھروں پر کُندہ یا پتّوں پر تحریر تھیں، جو اب معدوم ہو چُکی ہیں۔ گرچہ زمانۂ قدیم میں یوگا کی مذہبی حیثیت تھی، لیکن چند صدیوں قبل اسے ذہنی سکون اور طوالتِ عُمر کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ خیال رہے کہ ماہرین نے برسوں کی ریاضت کے بعد انسانی جسم میں توانائی کے ایسے مقامات دریافت کیے ہیں، جو صحت مندی اور بیماری میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ ان ماہرین کا ماننا ہے کہ جسم کے ان مقامات کا توازن بگڑنے سے انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ بہر کیف، 1900ء کے اوائل میں یوگا مغرب میں متعارف ہوا اور1947ء میں اِندرا دیوی نے ہالی وُڈ میں سب سے پہلا ’’یوگا اسٹوڈیو‘‘ قائم کیا، جب کہ آج دُنیا بَھر میں اسے ذہنی و جسمانی بیماریوں سے نجات کے لیے ایک طریقۂ علاج کے طور پر اختیار کیا جا رہا ہے۔ جدید سائنس نے بھی یوگا کی افادیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ یوگا کے مخصوص آسنوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی دورانِ خون کو بہتر بنا کر کئی امراض ختم کر دیتی ہے۔
س :آپ یوگا کی طرف کیسے آئے؟
ج :مَیں جوانی میں شیارٹیکا کا شکار ہو گیا تھا۔ کئی معالجین سے علاج کروایا، لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ پھر اپنے محترم استاد، واثق محمود کی ہدایت پر یوگا کیا اور صحت یاب ہو گیا۔ بعدازاں، میرے دِل میں دوسرے افراد کو بھی اس طریقۂ علاج سے متعارف کروانے کا خیال پیدا ہوا، جس پر کوئی رقم خرچ نہیں ہوتی۔ اس ضمن میں، مَیں نے 15برس جدوجہد کی اور الحمدللہ، آج مطمئن ہوں کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔ مَیں یوگا کے ذریعے پورے پاکستان کو صحت مند بنانا چاہتا ہوں اور یہی ہماری تنظیم کا نعرہ ہے۔ ناقص خوراک، آلودہ پانی، بے ہنگم طرزِ زندگی اور بنیادی سہولتوں سے محرومی نے پوری قوم کو مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج ذیابطیس سمیت دِل، گُردے اور جگر کے امراض جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور جس طرح معالجین اور دوا ساز ادارے صحت کے نام پر اربوں، کھربوں روپے بٹور رہے ہیں، اسے دیکھ کر ہر دردِ دل رکھنے والا فرد فکر مند ہو جاتا ہے، جب کہ ہمارے اربابِ بست و کشاد عوام کی صحت پر توجّہ دینے کی بہ جائے اقتدار کی رسّا کَشی میں مصروف ہیں۔ سو، ایسے میں قوم کو اس گرداب سے نکالنا ہر درد مند پاکستانی کا فرض ہے۔
س :اس سلسلے میں یوگا کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
ج :اس وقت دُنیا بَھر میں ایلوپیتھک طریقۂ علاج کے سیکڑوں متبادل اور سَستے طریقۂ علاج رائج ہیں۔ مثال کے طور پر چین میں آکوپنکچر اور جَڑی بوٹیوں سے علاج ہو رہا ہے۔ کروڑوں مریض ہومیو پیتھی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے خطّے میں طبِ یونانی سیکڑوں برس سے رائج ہے اور اس جدید دَور میں بھی جَڑی بوٹیوں کی افادیت سامنے آرہی ہے۔ پھر طبِ نبویؐ کے کمالات میں بھی کوئی کلام نہیں، جب کہ بھارت میں آیور ویدک خاصا مقبول ہے، تو آخر ہم کیوں ’’میڈیسن مافیا‘‘ کے غلام بنے رہیں، جو علاج معالجے کے نام پر غریب عوام کو کنگال کرنے میں مصروف ہے۔ ہم علاج معالجے کی خاطر یوگا جیسے بے ضرر طریقۂ علاج کو رائج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دینِ اسلام نے ہمیں جلد سونے، جلد بیدار ہونے اور پاکیزگی کی تعلیم دی ہے۔ اگر ہم نمازِ فجر کے بعد صرف 15،20منٹس خود کو دے کر صحت جیسی دولت سے مالا مال ہو جائیں، تو اس سے اچّھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ دراصل، ورزش، صحت برقرار رکھنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ اس سلسلے میں، مَیں نماز کی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ بات اب سائنسی طور پر ثابت ہو چُکی ہے کہ نماز کی ادائیگی سے رُوح کے ساتھ جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سجدے سے آنکھوں اور دِماغ کی جانب خون کی روانی بہتر ہوتی ہے اور پیروں کے بَل اُٹھنے سے دِل کے عضلات مضبوط ہوتے ہیں۔ نیز، نماز ہمارے جسم میں لچک بھی پیدا کرتی ہے۔ واضح رہے کہ نماز کے دوران جسم کی حرکات و سکنات کے 17انداز یوگا کی ورزشوں میں بھی مستعمل ہیں اور یوگیوں کے نزدیک انسان کے جسم کی عافیت کا تمام تر دارومدار لچک پر ہے۔ جوں جوں حرکت کم ہوتی ہے، جسم کی لچک بھی گھٹنے لگتی ہے، جس کا نتیجہ مختلف بیماریوں کی صورت برآمد ہوتا ہے اور امراض سے نجات کے لیے جب ہم دوائوں کا سہارا لیتے ہیں، تو ان کے مُضر اثرات بھی جسم پر مرتّب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آج کل ذہنی دبائو اور ناقص خوراک بھی ہماری جسمانی لچک میں کمی کا سبب بن رہی ہے، جس کی وجہ سے شریانیں سُکڑ جاتی ہیں اور دِل کو خون کی فراہمی متاثر ہونے سے انسان بیمار ہو جاتا ہے، جب کہ لچک سے خون کی گردش دُرست رہتی ہے۔
س :ہم اپنے جسم میں لچک کس طرح پیدا کر سکتے ہیں؟
ج :قدرتی طور پر ہمارا جسم لچک دار ہوتا ہے، لیکن ہم اپنے چٹورے پن، ناقص خوراک، سُستی و کاہلی اور ذہنی دبائو کی وجہ سے اس میں اکڑائو پیدا کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ امراض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جسم میں لچک پیدا کرنے کی غرض سے آپ کو روزانہ ورزش کے لیے وقت نکالنا پڑے گا اور پھر یوگا کی ورزشیں کوئی زیادہ مشکل بھی نہیں۔ تاہم، اس مقصد کے لیے آپ کو خود میں ورزش کا شوق اور لگن پیدا کرنا ہو گی۔ یوگا کے لیے بہت زیادہ تردّد نہیں کرنا پڑتا اور یہ کہیں بھی کیا جا سکتا ہے، البتہ بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے نمازِ فجر کے بعد کسی پارک میں یوگا کرنا زیادہ مناسب ہے، جہاں تروتازہ ہوا دست یاب ہوتی ہے،البتہ آپ گھر کی کُھلی چھت پر بھی ورزش کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ورزش کو عروج نماز میں ملتا ہے کہ جب جسم، رُوح اور ذہن تینوں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ نماز کی اس قدر افادیت کے پیشِ نظر ہی اسے فرض قرار دیا گیا ہے۔ ہم کھانے کے دوران بھی ورزش کر سکتے ہیں۔ یعنی کھانا آہستہ آہستہ اور اچّھی طرح چبا کر کھائیں۔ ایسا کرنے سے ایک درجن سے زاید فواید حاصل ہوتے ہیں۔ بہر کیف، یوگا کرتے وقت آپ کو زیادہ زور آزمائی نہیں کرنا پڑتی، کیوں کہ جسم سانس اور حرکت کے درمیان آہنگی پیدا ہونے سے اپنے اندر تبدیلی لاتا ہے۔ گر چہ یہ تبدیلی رفتہ رفتہ آتی ہے، لیکن حیران کُن ہوتی ہے۔ مَیں نے یوگا کلب میں بہ مشکل چل کر آنے والے مریضوں کو کچھ عرصے بعد دوڑتے پھرتے دیکھا ہے۔ دراصل، اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں شفایابی کی لامحدود پُر اسرار قوّتیں ودیعت کی ہیں اور یوگا جسم میں موجود ان قوّتوں یا توانائی کے مقامات کو حرکت میں لے آتا ہے۔ یوگا کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 10منٹ یوگا کرنا 5میل پیدل چلنے جتنا فائدہ مند ہے۔ یوگا ہمارے غدودوں کو بھی متحرک کرتا ہے، جس سے نشوونما بہتر اور متوازن انداز میں ہوتی ہے کہ غدود بیماری پیدا اور ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طریقۂ علاج سے نہ صرف جسمانی امراض دُور ہوتے ہیں، بلکہ یکسوئی اور اطمینانِ قلب بھی نصیب ہوتا ہے اور ذہن کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ دُنیا میں صحت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں اور اسے برقرار رکھنے کے لیے آپ کو اپنی مصروفیات سے وقت نکالنا ہو گا۔ گرچہ یوگا کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں اور آپ کسی بھی وقت پُرسکون ماحول میں ورزش کر سکتے ہیں، لیکن صبح کا وقت بہترین ہے۔
س :یوگا کسی یوگی کی نگرانی ہی میں کرنا چاہیے؟
ج :یہ انٹرنیٹ کا دَور ہے اور صرف بٹن دباتے ہی آپ یوگا کی دُنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تاہم، مَیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ جسم کو جھٹکا دیے بغیر آہستگی سے یوگا کریں۔ مراقبے کی صورت میں آلتی پالتی مار کے بیٹھ کر ناک کے ذریعے لمبی سانس لینا اور اسے آہستگی سے منہ سے خارج کرنا تو یوگا کی بنیادی ورزش ہے، جب کہ باقی ورزشوں کے بارے میں مختلف ویب سائٹس اور کُتب سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم، سخت قسم کی ورزشیں کسی یوگا تھراپسٹ کے مشورے ہی سے کرنی چاہئیں۔
س :یوگا کن بیماریوں کے لیے فائدہ مند ہے؟
ج :یوگا سے تمام امراض کا علاج ممکن ہے، کیوں کہ ترو تازہ ہوا ہماری جسم میں توانائی بَھر دیتی ہے اور جب ہماری قوّتِ مدافعت بڑھتی ہے، تو امراض خود بہ خود ہم سے دُور بھاگنے لگتے ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ 80فی صد افراد گہرے گہرے سانس نہیں لیتے۔ نتیجتاً، خلیے تازہ آکسیجن سے محروم ہو کر مُردہ ہو جاتے ہیں۔ سو، روزمرّہ زندگی میں گہرے گہرے سانس لینے کی عادت بھی ہمارے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مَیں اس بات پر یقینِ کامل رکھتا ہوں کہ اگر آپ بیمار ہیں اور بھاری رقوم خرچ کرنے کے باوجود بھی مرض کی تشخیص نہیں ہو رہی، تو صبح سویرے جوگرز پہنیں اور قریبی پارک میں یا گھر کی چھت پر جا کرگہرے گہرے سانس لینا شروع کر دیں،تو آپ کی دُنیا ہی بدل جائے گی۔
س :معیاری غذا کی افادیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج :انسان کے لیے خوراک کی اہمیت ایسی ہی ہے، جیسے چراغ کے لیے تیل کی۔ گرچہ ہر غذا کی اپنی افادیت ہے، لیکن ہمیں اسے اپنے مزاج کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً دودھ طاقت کا سرچشمہ ہے، لیکن یہ بلغمی مزاج والوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح بکرے کا گوشت بھی فائدہ مند ہے، لیکن یرقان کے مریض اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ غذائوں کی ماہیت سرد تر، خشک سرد، خشک گرم، گرم تر اور تر گرم ہوتی ہے اور ایک غذائی ماہر کسی فرد کو اُس کے مزاج کے مطابق ایسی غذا تجویز کرتا ہے، جو اُس کے لیے سونے کا نوالہ ثابت ہو۔ بہرحال، ہمیں اپنے مزاج کے مطابق ہی خوراک استعمال کرنی چاہیے اور ویسے بھی آپ کے بارے میں آپ سےبہتر کوئی نہیں جانتا۔ بد قسمتی سے ہم جان بوجھ کر ایسی خوراک استعمال کرتے ہیں، جو ہمارے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اکثر معالجین غذائوں کے سرد اور گرم اثرات تسلیم نہیں کرتے، لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ طبِ یونانی کے مطابق، نامناسب خوراک کھانے سے ہمارے جسم میں فاسد اور زہریلے مادے جمع ہو جاتے ہیں، جو مختلف امراض کا باعث بنتے ہیں، جب کہ یوگا سے جسم میں حرارت اور حرارت سے قوّت پیدا ہوتی ہے اور یہ قوّت ان فاسد مادوں کے اخراج کا باعث بنتی ہے، جس کے نتیجے میں جسم میں لچک پیدا ہوتی ہے۔ اپنی غذا ہمیشہ متوازن رکھیں۔ ایک جیسے مزاج کی حامل غذائیں مسلسل استعمال نہ کریں۔ گوشت اور مسالا جات کا استعمال کم اور مچھلی اور سبزیوں کا زیادہ کریں۔ ہمیشہ بُھوک لگنے کی صورت میں اور بُھوک رکھ کر کھائیں۔ رات کو جلد کھانا کھانے، جلد سونے اور جلد بیدار ہونے کی عادت ڈالیں۔ اپنی استعداد سے زیادہ جسمانی و دماغی کام نہ کریں۔ خوف، فکر، غُصّے اور تنائو سے دُور رہیں۔ مسلسل بیٹھے رہنے سے گریز کریں اور ورزش کو اپنا معمول بنائیں ۔ 15روز یا مہینے میں ایک روز ضرور فاقہ کریں یا روزہ رکھ لیں۔ حال ہی میں یہ ریسرچ سامنے آئی ہے کہ بُھوکا رہنے کی صورت میں جسم کے بعض خلیات از خود نقصان دہ خلیات کو کھا کر کینسر کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ ہمیشہ صاف سُتھرا اور آلائشوں سے پاک پانی پئیں۔ ٹھنڈے پانی اور بازاری مشروبات سے پرہیز کریں۔ پانی ہمیشہ کھانے سے آدھا گھنٹے پہلے یا کھانے کے ایک گھنٹے بعد پئیں۔ اسی طرح چائے، کافی اور چینی سے بھی پرہیز کریں۔ ایک وقت میں صرف ایک چیز کھانا مثالی خوراک ہے ، جب کہ ملی جُلی خوراک یا بوفے وغیرہ نقصان دہ ہیں۔ غذا کو دوبارہ پکانے یا گرم کرنے سے گریز کریں کہ یوں خوراک زہریلی ہو جاتی ہے۔ ڈبّوں میں بند خوراک اور فاسٹ فوڈ زکو اپنی زندگی سے نکال دیں کہ یہ جسم میں زہریلا پن پیدا کرتے ہیں۔ اکثر افراد اپنی توانائی برقرار رکھنے کے لیے وٹامنز کی گولیاں اور درجنوں اقسام کی جڑی بوٹیاں استعمال کرتے ہیں، جب کہ عام سی جڑی بوٹیوں پر مشتمل ’’ترپھلا‘‘ ان کا بہترین متبادل ہے۔ یہ ہریڑہ (ایک حصّہ)، بہیڑہ (دو حصّے) اور آملہ (چار حصّے) کا مرکّب ہے۔ یہ غذا بھی ہے اور دوا بھی اور یہ تمام چیزیں ہر جگہ بہ آسانی دست یاب ہیں۔ ’’ترپھلا‘‘ دافع امراض ہے اور قوتِ حیات بڑھاتا ہے۔ اس کا ایک چمچ روزانہ صبح سویرے پانی کے ساتھ استعمال کریں، صحت کے لیے اکسیر ثابت ہوگا۔