سیّد ثقلین علی نقوی
فاتحِ خیبر، حیدرکرار خاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہراءؓ کے شوہرِ نامدار ،شیرِ خدا،خلیفۂ رسولؐ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالبؓکی 13رجب 30عام الفیل کو خانۂ کعبہ میں ولادت ہوئی۔ حضرت علی ؓ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانہ کعبہ اور شہادت مسجد میں ہوئی۔ ولادت کے بعد آپ نے اپنی پہلی نگاہ جمالِ رسالتﷺ پر ڈالی۔آپ کی مبارک زندگی اور سیرت ولادت سے شہادت تک خوشنودیِ رب اور رضائے الٰہی کے لئے بسر ہوئی۔حضرت علی ؓرسول اکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں،آپ نے سایہ نبویؐ میں پرورش پائی اور رسول اکرمﷺ کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔
جگر گوشۂ رسول ،خاتون جنت سیدہ فاطمہ ؓاور حضرت علیؓکی زندگی ایک بے مثال نمونہ تھی کہ میاں بیوی کس طرح ایک دوسرے کے شریک حیات ثابت ہوسکتے ہیں ، کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے۔باب العلم کی زندگی ہر رخ سے ایک آفتاب درخشندہ ہے۔علم، حلم، عبادت، خطابت، شجاعت، ریاضت، تلاوت ہر ایک وصف گویا منفرد تھا۔
امیرالمؤمنین حضرت علیؓ ان ہستیوں میں سے ایک ہیں کہ جن کی طہارت و پاکیزگی کی گواہی کے لئے قرآن مجید میں آیتِ تطہیر نازل ہوئی ، قرآن مجید میں اس کے علاوہ بھی متعدد آیات آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے،اے علیؓ، تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارونؑ کو حضرت موسٰی سےتھی۔(صحیح بخاری )
رسول اللہﷺ نے آپ کو دین و دنیا میں اپنا بھائی قرار دیا ۔ آپ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے اور میں نے ہر باب سے ہزار ہزار باب مزید سیکھ لئے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے خود کو علم و حکمت کا شہر اور حضرت علیؓ کو اس شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔
آپ کو سفر و حضر میں حضورِ اکرمﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل رہا ۔ غزوات میں اپنی بہادری ، شجاعت کے ساتھ ساتھ،سپاہ سالاری کرکے اپنی قائدانہ صلاحیت کا لوہا منوایا ۔آپ بہت بڑے زاہد و عابد اور عالم و فقیہ تھے۔ آپ کو باب مدینۃ العلم کا مقام حاصل تھا ۔آپ ایک فصیح و بلیغ خطیب تھے ۔ نہج البلاغہ آپ کے کلام، خطبات اور خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم اور قابل قدر مجموعہ ہے کہ اپنے پرائے سب ہی اس کی عظمت و بلندی اور علوم و معارف سے واقف ہیں ۔
رسول اللہ ﷺنے اپنے دل کی ٹھنڈک ، خاتون جنت سیدۃنساء العالمین حضرت فاطمۃالزہراء ؓکا نکاح حضرت علیؓ سے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ،اگر علی نہ ہوتے تو کائنات میں خاتون جنت فاطمۃالزہراءؓ کا ہمسر، کفو اور برابر کوئی موجود نہ تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ و حضرت فاطمۃالزہراءؓ کو ایک دوسرے کے لئے خلق فرمایااور پھر دین مبین کی خدمت و بقا کی خاطر اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہؓ کو امام حسنؓ و امام حسینؓ اور حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ کی صورت میں اولاد عطا کی۔
رسول اللہ ﷺ اکثر فرمایا کرتے، یہ میرے دونوں بیٹے حسنؓ و حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں، ان کے والد علیؓ ان دونوں سے افضل ہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺنے حضرت علیؓ اور حسنین کریمین ؓ کی عظمت بیان کرتے ہوئے ان کے مقام و منزلت کو بیان فرمایا۔
حضرت علی ؓنے عہد نبویؐ کے غزوات میں جرأت اور شجاعت کی وہ تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ غزوۂ خیبر میں اہل ایمان کا سامنا اپنے بدترین دشمن یہودیوں سے تھا، خیبر یہودیوں کا مرکز تھا، جس کی جنگی اور عسکری لحاظ سے کافی اہمیت تھی، جس کا سردار مرحب عرب کے نامور بہادروں میں شمار ہوتا تھا ،جب خیبر کا قلعہ کسی طور بھی فتح نہیں ہورہا تھا تو نبی کریم ﷺنے فرمایا :کل میں اس بہادر شخص کو علم دوںگا، جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیںاور وہ بھی الله اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے۔ الله اس کے ہاتھ پرخیبر فتح عطافرمائے گا اور اس وقت تک واپس نہیں آے گا ،جب تک خیبر فتح نہ ہو۔(صحیح بخاری)
یہ اعلان بڑی اہمیت کا حامل تھا ،کیوں کہ یہ الله اور اس کے رسول ﷺکی خوشنودی کی سند تھی، جنگ میں شریک ہر صحابی کی دلی تمنا تھی کہ یہ اعزاز اس کے حصے میں آئے، ہر ایک نے بے قراری کے عالم میں رات بسر کی ۔صبح ہوئی تو ہر ایک اپنا نام سننے کو کےلیے بے قرار تھا، ہر کوئی علم لینے اور فتح اپنے نام کروانے کا منتظر تھا۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے حضرت علیؓ شیر خدا کا نام لیا،حالانکہ حضرت علیؓ آشوب چشم میں مبتلا تھے، نبی اکرم ﷺ نے اپنا لعاب دہن آپ کی آنکھوں میں لگایا ،اورآپ کے لیے دعافرمائی جس سے حضرت علیؓ کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں، بعد ازاں آپ نے حضرت علیؓ کو علم عطافرمایا، خیبر کے قموص نامی اس قلعے میں جنگ خیبر کے آخری اور اختتامی مرحلے پر یہودیوں کا نام ور پہلوان مرحب جسے اپنی بہادری پربہت ناز تھا۔ وہ بڑے رعب کے ساتھ نکلا۔یہ شعر پڑھتے ہوئے حملے کے لئے آگے بڑھا کہ
خیبر خوب جانتا ہے کہ میں ’’ مرحب ‘‘ ہوں۔
اسلحہ پوش ہوں، بہت ہی بہادر اور تجربہ کار ہوں۔
حضرت علیؓ نے اس کے جواب میں یہ شعر پڑھا،
میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے۔ میں کچھار کے شیر کی طرح ہیبت ناک ہوں۔
مرحب نے بڑے طمطراق کے ساتھ آگے بڑھ کر شیر خدا پر اپنی تلوار سے وار کیا، مگر آپ نے ایسا پینترا بدلا کہ مرحب کا وار خالی گیا۔ پھر آپ نے بڑھ کر اس کے سر پر اس زور کی تلوار ماری کہ ایک ہی ضرب سے خود کٹا، اور ذوالفقار حیدری مرحب کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی اور مرحب زمین پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر اس کی فوج شیر خدا حضرت علیؓ پر ٹوٹ پڑی۔ لیکن ذوالفقار حیدری بجلی کی طرح چمک چمک کر گرتی تھی جس سے صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں اور یہودیوں کے مایہ ناز بہادر کٹ گئے۔ اسی گھمسان کی جنگ میں حضرت علیؓ کی ڈھال کٹ کر گر پڑی تو آپ نے آگے بڑھ کر قلعہ قموص کا پھاٹک اکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بنا کر اس پر دشمنوں کی تلواریں روکتے رہے۔ یہ کواڑ اتنا بڑا اور وزنی تھا کہ چالیس آدمی مل کر بھی اسے نہ اٹھا سکتے تھے، بے شک، حضرت علی ؓ، رسول اللہ ﷺکے محب بھی ہیں اور محبوب بھی۔ بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر خیبر کی فتح عطا فرمائی اور قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو فاتح خیبر کے معزز لقب سے سر فراز فرما دیا ،یہ وہ فتح عظیم ہے جس نے پورے ” جزیرۃ العرب ” میں یہودیوں کی جنگی طاقت کا جنازہ نکال دیا۔ اس کے بعد ہی مکہ بھی فتح ہو گیا۔ اس لئے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ فاتح خیبر کی ذات سے اسلامی فتوحات کا سلسلہ وابستہ ہے۔
انیس رمضان کو نماز فجر کے وقت حضرت علی ؓ سجدے میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہوا،آپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئی۔ اس وقت مسجد کوفہ میں امیرالمومنین نے یہ جملہ ادا کیا۔"رب کعبہ کی قسم ،علی کامیاب ہو گیا"۔آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی ۔یوں شیرخدا سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ظاہری سفر خانہ کعبہ میں ولادت سے شروع ہوکر مسجد کوفہ میں شہادت تک ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا کی خاطر بسر ہو کر رہتی دنیا تک مینارۂ نور بن گیا۔آپ کا روضۂ مبارک عراق کے شہر نجف اشرف میں مرجع خلائق ہے۔