اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ سیل)سپریم کورٹ آف پاکستان نے نئےکاغذات نامزدگی کے ساتھ تمام معلومات دینا لازمی قرار دیدیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئےکہا ہے کہ نئے فارم کی ضرورت نہیں ہے،امیدوارباقی معلومات بیان حلفی پر جمع کرائیں، ووٹرز کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کی اجازت نہیں دینگے، الیکشن کمیشن فارم سے ختم کی گئی معلومات اخبارات میں چھپوادے، حقائق چھپائے تو جعلسازی اور توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، صاف ستھرے لوگ چاہئیں، ارکان پارلیمنٹ کو بچوں اور اپنے غیر ملکی اثاثے اور اکائونٹس بتانے میں کیا مسئلہ ہے، ایاز صادق کیا چھپانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اسپیکرعدالتی حکم چیلنج کا استحقاق رکھتے ہیں؟ وہ کون سی معلومات دینےسے شرما رہے ہیں؟ اگرایسا نہیں توپھر جھگڑا کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کے اختیارات کیوں کم کر رہے ہیں؟ قانون سازوں کی چالاکیوں نے قوم کو مصیبت میں ڈالا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کے کاغذات نامزدگی سے متعلق فیصلے پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی درخواست پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے نئے کاغذات نامزدگی بحال کرتے ہوئے امیدواروں کو فارم میں غیر موجود باقی تمام معلومات الگ سے بیان حلفی پر جمع کرانے کا حکم دیدیا نئے کاغذات نامزدگی برقرار رہیں گے لیکن تمام امیدواروں کو اپنی مکمل معلومات فراہم کرنی ہونگی، معلومات بیان حلفی پر اوتھ کمشنر سے تصدیق کروا کر جمع کرائی جائیں، الیکشن کمیشن بیان حلفی ڈیزائن کر کے جمع کرائے، عدالت بیان حلفی کا فارمیٹ بنا کر حکم نامے کا حصہ بنا دیگی، 3دن میں امیدوار معلومات دینے کے پابند ہونگے، اگر جھوٹ بولا تو توہین عدالت اور جعلسازی کی کاروائی ہوگی۔ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ بات حتمی ہے الیکشن موخر نہیں ہونگے، ہمیں ملک کیلئے صاف ستھرے لوگ چاہئیں، ارکان پارلیمنٹ کو بچوں کے اور اپنے غیر ملکی اثاثے اور اکائونٹس بتانے میں کیا مسئلہ ہے عوام کو انتخابات لڑنے والے کے بارے میں جاننے کا حق ہے، الیکشن کمیشن مناسب معلومات طلب کرسکتا ہے، الیکشن کی حتمی تاریخ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ میں وفاق نے 7 ماہ تک معاملے کو التوا دیا۔ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے 2011 میں فیصلہ دے چکی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ عوام کو امیدواروں کی معلومات دینے میں شرمندہ کیوں ہیں؟ اسپیکر کیوں شرما رہے ہیں کہ عوام کو اپنے نمائندوں کی معلومات نہ ہوں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایاز صادق کوئی معلومات چھپانا چاہتے ہیں؟ اس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ ایاز صادق کچھ چھپانا نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کچھ چھپانا نہیں تو جھگڑا کس بات کا ہے؟جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم ہائیکورٹ کے فیصلے کو اپنی وجوہات کےساتھ برقرار بھی رکھ سکتے ہیں، دیکھناچاہتے ہیں کہ سپیکراسمبلی کون سی معلومات دینے میں شرما رہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کو چیلنج کرنے کا سپیکر کا کیا استحقاق ہے؟ آرٹیکل 218 کے تحت انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، کاغذات نامزدگی کا معاملہ بھی آرٹیکل 218 میں آتا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کیوں کم کر رہے ہیں؟ ہم ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ امیدواران بیان حلفی کے ساتھ اضافی معلومات کمیشن کو فراہم کریں جبکہ ساتھ ہی انہوں نے الیکشن کمیشن کو بھی بیان حلفی کا متن ایک گھنٹے میں تیار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات نامزدگی الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت فارم بنایا گیا تھا، پاکستان کے عوام کو انتخابات لڑنے والے کے بارے میں جانے کا حق ہے اور الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے وہ مناسب معلومات طلب کرسکتا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جو کاغذات نامزدگی موجودہ ہے اس کے ساتھ ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ امیدوار کو کاغذات جمع کرانے کے بعد تین دن کےا ندر ایک بیان حلفی پر وہ معلومات جو الیکشن کمیشن ضروری لینا چاہتا ہے اسے دینا ہونگی۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ تمام معلومات مکمل انصاف کیلئے مانگ رہے ہیں، بیان حلفی ریٹرننگ افسران کے سامنے ہوگا، یہ بیان حلفی ایسا ہوگا جیسے سپریم کورٹ کے سامنے دیا جارہا ہے، اگر اس میں کوئی بھی غلط اطلاع دی گئی تو براہ راست سپریم کورٹ ایسی شخصیت کیخلاف اقدام کرسکے گی، عدالت 184 کے تحت اختیار استعمال کرسکتی ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ نئے فارم کی ضرورت نہیں، کمیشن بیان حلفی بناکر لائے گا اور اسے عدالتی حکم کا حصہ بنائینگے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امیدوار ریٹرننگ افسران کو تمام معلومات فراہم کریں پاکستان کے لوگوں کو اپنے امیدواروں کی ساکھ کا پتہ ہو۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ بیان حلفی کا متن بنا کر جمع کرائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکر اسمبلی کو این ٹی این دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ وکیل نے سوال کیا کہ دہری شہریت کی الگ سے معلومات مانگنے کی ضرورت کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عام لوگوںکو آرٹیکل 62 کا معلوم نہیں وکیل ایاز صادق نے سوال کیا کہ ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات کی ضرورت کیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین کا سارا مقدمہ ہی ٹیکس گوشواروں کا تھا معلومات دینے میں کیا حرج ہے۔ ہمیں ملک کیلئے صاف ستھرے لوگ چاہئیں۔ امیدو ار وں کے بیان حلفی کی کاپی سپریم کورٹ کو بھی فراہم کی جائے۔ بیان حلفی جھوٹا ثابت ہوا تو کارروائی کرینگے۔ وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ اسپیکر اسمبلی چاہتے ہیں قانون کا تحفظ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے قوم کو بچانا ہے کسی شخصیت کو نہیں۔ آپ کھادا‘ آپ پیتا‘ آپے واہ واہ کیتا نہیں چلے گا۔ الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں پینا فلیکس اور پوسٹرز لگ رہے ہیں اور دیواریں تباہ کرکے رکھ دی گئیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پولنگ کی تاریخ 25جولائی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے اسکروٹنی کا وقت بڑھانا پڑے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کس طرح لڑنا ہے یہ بھی طے کریں گے الیکشن کنٹریکٹ پر بڑا بینچ بنائیں گے بیان حلفی میں جھوٹ پر توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوگی۔