(شکاگو سے ہینری بوڈکن)
چھاتی کے سرطان سے متاثرہ خاتون جن کا کینسر خطرناک حد تک پھیل چکا تھا کا علاج ایک ایسے انجیکشن سے کیا گیا ہے جو ان کے اپنے قوت مدافعت سے حاصل کیا گیا تھا، (اس طریقہ کار میں انسان کے جسم کے کسی حصے سے سیل لے کر متاثرہ حصے میں داخل کئے جاتے ہیں)، سائننسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا انتہائی کامیاب علاج ہے۔
دو بچوں کی ماں 52 سالہ خاتون جوڈی پرکنز کو کیموتھراپی (کینسر کے علاج کا ایک مخصوص طریقہ کار) کی ساتویں ٹائپ بھی ناکام رہی تھی، ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ وہ صرف چند ماہ ہی زندہ رہ پائیں گی، ان کے جگر میں مٹھی کے برابر ٹیومرز بن چکے تھے۔
2003 میں پہلی مرتبہ کینسر کی تشخیص کے بعد انہیں سرجری کے عمل سے گذرنا پڑا تھا تاہم 2013 میں یہ دوبارہ شروع ہوگیا اور انتہائی خطرناک حد تک پھیل گیا۔
ایسے مریض جن کے چھاتی کا سرطان بڑی حد تک پھیل جاتا ہے ان کا کوئی قابل ذکر علاج نہیں ہوپاتا۔
لیکن خاتون خانہ پرکنز ،جو کہ فلوریڈا کی ایک انجینئر ہیں، گزشتہ دو برس سے کینسر کے مرض سے مکمل شفا یاب ہوچکی ہیں اور اب ایک صحت مند زندگی گذار رہی ہیں جس میں 40 میل تک پہاڑوں پر چلنا اور کشتی چلانا بھی شامل ہے۔
سائنسدانوں نے ایڈوپٹیو سیل ٹرانسفر (یعنی حاصل کردہ کار آمد سیلز کی منتقلی) کے زریعے سے ان کے سینے میں موجود ٹیومر کو نکال دیا اور اس میں موجود ایسے فرینڈلی ٹی سیلز (دوستانہ یا کار آمد سیلز) کا پتہ چلایا جو کہ نقصان دہ سیلز کی نشاندہی کرسکیں۔
8 ہفتوں تک نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم نے ان کے جسم سے حاصل کردہ ٹی سیلز کو 82 ارب مالیکیولز کی ایک فوج (انسانی صحت کے لئے مفید جراثیم کی فوج) میں شامل کیا اور پھر اسے دوبارہ متاثرہ خاتون پرکنز کے جسم میں داخل کردیا جس کے زریعے سے ان کی قوت مدافعت کینسر کے مخالف میں زیادہ تیز ہوگئی۔
اس طریقہ کار کو ماضی میں بھی استعمال کیا جاچکا ہے اور (بوول) آنتوں کے سرطان، (سروائیکل) گردن کے حصے میں سرطان اور جگر کے سرطان کے مریضوں کا علاج کیا جاچکا ہے لیکن چھاتی کے سرطان کیخلاف اس طریقہ کار کو پہلی مرتبہ اپنایا گیا ہے۔
اس کیس کو کینسر کے ماہرین نے شکاگو میں امریکن سوسائٹی آف کلنکل انکولوجی کے اجلاس میں بھی زیر بحث لایا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ان ہزاروں خواتین کے لئے ایک بڑی پیش رفت ہوگی جو ناامید ہوچکی ہیں۔
دی انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ کا کہنا ہے کہ ’’چھاتی کے سرطان کے ایک مریض پر یہ ایک انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز تحقیق ہے، اس تحقیق نے اس ضمن میں مزید کام کرنے کے لئے ایک بڑا ’پروف آف پرنسپل‘ فراہم کیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوت مدافعت کی طاقت کو کس طرح سے لاعلاج کینسر سے لڑنے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جاستکا ہے۔ پروف آف پرنسپل کا مطلب کسی عملی طریقہ کار (پریکٹیکل) کے قابل عمل ہونے کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔
اس طریقہ علاج سے اس بات کا پتہ لگایا گیا کہ مذکورہ خاتون پرکنز کے 23 فیصد ٹی سیلز ان کے کینسر سے متعلق جینٹیک میوٹیشنز(جنیاتی خلیوں کی جینیز میں تغیرات پیدا کرنے کے فعل) پر حملہ کرنے کے قابل تھے۔
طبی ٹیم نے ان کے 62 میوٹیشنز میں سے 4 کو ہدف بنایا اور ایک برس بعد ان کے تمام ٹیومرز مکمل طور پر غائب ہوگئے۔
مس پرکنز کہتی ہیں ’’میں بہت زیادہ شکوک وشبھات کا شکار تھیں کہ آیا یہ طریقہ علاج کار آمد ہوبھی سکے گا یا نہیں کیوں کہ میں جانتی تھی کہ اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ نہیں ہیں۔‘‘
’’لیکن دو ہفتوں بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے سینے کے حصے میں موجود ٹیومرز کی جسامت چھوٹی ہورہی ہے اور میری طبعیت میں بہتری آنا شروع ہوئی۔
’’یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی معجزہ ہوا ہو، میری خوشی کی انتہا نہیں ہے، میں گزشتہ دو برس سے اب کینسر سے بالکل مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرچکی ہوں۔
’’ماہرین کہہ سکتے ہیں مجھے وقت آرام ملا ہے لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ میں مکمل طور پر شفایاب ہوچکی ہوں۔‘‘
اس وقت جب ان کے علاج کا نیا دور شروع کیا گیا کینسر ان کے جگر اور سینے کے نچلے حصے اور پیٹ میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔
ڈاکٹر اسٹیون روزنبرگ جو کہ اس طبی ٹیم کے مرکزی رکن رہے کا کہنا ہے کہ ’’یہ مریضہ ہمارے پاس ایسی صورتحال میں لائی گئی تھی جب ان کے علاج کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی اور ان کا ہر علاج ناکام ہوچکا تھا۔
’’اس میں اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ ہم ٹی سیلز کو جانچنے میں کامیاب ہوئے جس نے جینیٹک میوٹیشنز کو ہدف بنایا اور ٹی سیلز کو اس حد تک بڑھانے میں کامیاب رہے جو درکار تھے۔
’’لیکن مریض کے کینسر پر حملہ کرنے کے لئے خود مریض کے اپنے سیلز کا استعمال کرنا سب سے اہم نقطہ تھا۔‘‘
برطانیہ میں ہر سال چھاتی کے سرطان میں مبتلا 55 ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں جبکہ ہر سال 11 ہزار 500 مریض اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
امیونوتھراپیز (جِسم زا ادویہ کے ذَریعے بیماریوں کی روک تھام) جیسا کہ ایڈوپٹیو سیل ٹرانسفر، کینسر کے علاج میں تیزی سے اہم کردار ادا کررہے ہیں حالاں کہ اس وقت صرف 20 فیصد مریضوں کو اس سے فائدہ ہورہا ہے۔
چھاتی کے سرطان کے لئے برطانوی خیراتی ادارے (برٹش چیریٹی بریسٹ کینسر نائو) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سمون ونسینٹ نے نیچر میڈیسن نامی جرنل میں شائع ہونے والے اس آزمائشی طریقہ علاج کو ایک حیرت انگیز اور انتہائی امید افزا قرار دیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ چھاتی کے سرطان کے مریضوں کو علاج کی امید دلانے سے قبل اس طریقہ کار کو دیگر مریضوں پر بھی دہرایا جانا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مریضوں کے مدافعانہ سیلز کی ری پروگرامنگ ای آر پوزیٹیو ٹیومرز کے علاج کیلئے کار آمد طریقہ ہوسکتا ہے اور مذکورہ نتیجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انتہائی معنی خیز ہے، اس طریقہ علاج کے زریعے سے میٹاسٹیک بریسٹ کینسر سے متاثرہ مریضوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔