پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کارو کاری جیسی بدترین سومات کا اب تک خاتمہ نہیں ہوسکا ہےاور یہ فرسودہ سماجی روایات کے طور پر آج بھی جاری ہیں۔ ’’سیاہ کار‘‘ یا ’’سیاہ کارہ‘‘ جیسے القابات کارو کاری جیسے فعل کےملزمان کے لیے وضع کیےگئے ہیںاورخود ساختہ قبائلی قوانین کے تحت اس فعل کے مرتکب مجرموں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔غیرت کے نام پر قتل کو قبائلی علاقوں میں ضروری عمل سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص اس روایت سے انحراف کرے توعلاقےکے سرداریا وڈیرے کے حکم پر اس کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔اس قبیح رسم کے تحت ہر سال سندھ میں درجنوں مرد و زن بھینٹ چڑھا دیئےجا تے ہیں۔پاکستان سمیت ساری دنیا میں صنفی مساوات کی بات کی جاتی ہے،حقوق نسواں سے متعلق سیمینار زمنعقد کئے جا تے ہیں لیکن ،یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے۔اکتوبر 2016ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور کیا گیا تھاجسے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیا تھا۔بل کی منظوری کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن اس قانون سازی کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔
کسی بھی عورت کو نامحرم مرد سے تعلقات استوار کرنے کی پاداش میں ـــ’’کاری ‘‘قرار دے کر وحشیانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتا ردیا جاتا ہے۔ نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ذاتی دشمنی ،جائیدادکے تنازع ، شادی پر راضی نہ ہونےاور دیگر معاملات کی آڑ میں کسی بھی مرد یا عورت کو کاروکاری کا مجرم قرار دے کرجرگے کے حکم پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔سندھ کے ضلع قمبر و شہداد کوٹ کے علاقےمحمد نواز مگسی گاؤں میں قبو سعید خان تھانے کی حدود میں اہلیہ اور آشنا کو قتل کے الزام میں مبینہ ملزم گرفتار کرلیا گیا۔نومبر 2017سندھ کے سابق وزیرِ داخلہ سہیل انور سیال نےقبائلی جرگوں کے من مانے فیصلوں پر سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل پر اکسانےپر جرگے کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔کا روکاری کی رسم کے خلاف بل کی منظوری، سابق وزیر اعظم اور سابق صوبائی وزیر داخلہ کے بیانات بھی محض کاغذی حد تک رہے اور غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سےسندھ کی خواتین خودکو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔انہیں ہر لمحہ یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے ان کے اہل خانہ انہیں کس وقت کسی معمولی غلطی پر کاروکاری کا الزام لگا کر قتل کردیں۔فروری 2018 میں پنو عاقل تھانہ کی حدود بائیجی شریف غیرت کے نام پرقتل کا ایک الم ناک واقعہ رونما ہوا، جس میںسگے بھائی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کراپنی بہن پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تفصیلات کے مطابق سکھر کے تھانہ بائجی کی حدود سبزی منڈی کے علاقے میں 19سالہ لڑکی ظہیراں کا برادری کے ایک نوجوان کے ساتھ تعلقات کا علم ہونے کے بعد اس کے بھائی میر احمد مہر نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں ورثاء کی جانب سے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے واقعہ کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ ایس ایس پی سکھر امجد احمد شیخ نے جب اس قتل کی بذات خود تفتیش کی تو انہیں معاملہ مشکوک لگا اور انہوں نے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیے۔ 4فروری کو تھانہ بائجی میں مقتولہ کے قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی، ایس ایس پی کو شبہ تھا کہ پولیس بھی شاید ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہی ہے،۔انہوں نے بائجی تھانے کے ایس ایچ او کو تبدیل کرکے اس کی جگہ علی بخش شر کو تعینات کیا گیا تاکہ تفتیش کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔ پولیس نے جب مقتولہ کے باپ خاوند بخش مہر کو گرفتار کیا تو اس نے اعتراف جرم کیا تاہم ایس ایس پی امجد شیخ نےکیس میں ذاتی دل چسپی لیتے ہوئے تمام تر ثبوت و شواہد سامنے لانے اورقتل میں ملوث اصل ملزمان کی گرفتاری کے لئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی،ابتداء میں پولیس کی جانب سے لڑکی کے والد اور اس کے بھائی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا مگربعد میں دو دیگر افراد کو بھی ملزم کی حیثیت سےشامل کیا گیا جس میں گاؤں کاوڈیرہ بھی شامل ہے۔
چند روز قبل پنوعا قل سے دس کلومیٹر دور، سلطان پورپولیس اسٹیشن کی حدود اور گا ئوں شہبازی میں دوہرے قتل کی واردات ہو ئی جس میں ایک شخص نے ایک عورت اور مرد کو کاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔پولیس نے جا ئے وقوع پر پہنچ کر دونوں نعشوںکو اپنی تحویل میں اسپتال پہنچا یا جہاںضروری کارروائی کے بعد انہیں ورثاء کے حوالے کر دیا گیا۔ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جنہوں نےمرد اور عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا اعتراف کیا۔پولیس نے ملزمان کے خلاف دوہرے قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا۔
بعض اوقات چھ اور نو بچوں کی ماں کو بھی کاری قرار دے کر قتل کردیا جاتا ہے۔ چند ماہ قبل ضلع جامشورو کے علاقے لاکھی شاہ صدر میں غلام حسین چوہان نے اپنی اہلیہ زاہدہ کو، جو 9 بچوں کی ماں ہے، کاروکاری کے الزام کے تحت اس پر بیلچے سے حملہ کرکے قتل کردیا اور خود کو پولیس کے حوالے کرتے ہوئے بتایاکہ اس کی بیوی کے علاقے کے ایک شخص کے ساتھ مشکوک تعلقات تھے جس کی وجہ سے اسے یہ اقدام اٹھانا پڑا۔ ایسی ہی ایک واردات شکارپور میں رونما ہوئی جس میں 6 بچوں کی ماں کو شوہر نے غیرت کے نام پر مبینہ طور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ گڑھی یاسین تحصیل میں واقع مارفانی گاؤں میں ایک شخص نے اپنی 36 سالہ بیوی کو پڑوسی کے ساتھ ناجائز تعلقات کے شبہے میںقتل کردیا۔ قتل کا ایک اورواقعہ 25 فروری کو ضلع لاڑکانہ میں پیش آیا تھا جہاںایک شخص نے اپنی سوتیلی ماں اور اس کے مبینہ آشنا کو ’’غیرت کے نام‘‘ پر فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔مارچ 2017 میں ٹھری میرواہ کے قریب ٹنڈو میر علی،پیر وسن میں جوابدار اکبر علی نے تین افراد کو غیرت کے نام پرقتل کیا۔ قتل ہونے والوں میں نادیہ ارشاد اور تنزیلا شامل ہیں، پولیس نے قاتل اکبر علی کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایک سال قبل ضلع بدین میں ایک شخص شریف گھمبیرنے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر اپنی 38سالہ بیوی کو کلہاڑی کے وار کرکے قتل کردیاتھا۔مقتولہ کے 8 بچے ہیں جن میں سے اس کی دو بیٹیاں قوتِ گویائی سے محروم ہیں۔علاقہ مکینوں نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ مقتولہ جان بچانے کے لیےگلیوں میں بھاگتی رہی اور لوگوں سے مددکی اپیل کرتی رہی لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی اور اس کے شوہر نے اسے کلہاڑی کے پے در پے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پنو عاقل کے قریب گاؤں جھانگڑو میں ایک شخص نے اپنی بیوی کوکاری قرار دے کر قتل کردیا۔ کاروکاری کی بڑھتی ہوئی وارداتیں حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں، کاروکاری کے خلاف بل کی موجودگی کے باوجود قوانین پر عمل درآمد کیوں نہیں کرایا جاتا؟