تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کے فیصلے کے مطابق بننے والی فہرست کو دیکھ کر کسی کے ہونے کا دکھ ہے اور کسی کے نہ ہونے پر صدمہ، مگر کتنا اور کب تک؟ کیا یہ درد، دکھ اس صدمے سے زیادہ ہے جو ہم جواں بیٹے، پیاری ماں، شفیق باپ کے کھو جانے پر محسوس کرتے ہیں؟ ان جگر گداز، دل خون کرنیوالے، اندوہناک واقعات پر بھی کیا کوئی ماں بچے کو دودھ پلانے، بیٹا ڈھور ڈنگروں کا خیال رکھنے اور احباب سوگواران کے کھانے پینے کا بندوبست نہیں کرتے؟ مصیبت آ پہنچے، مشکل آن لگے تو اس سے نکلنے کیلئے کہیں زیادہ صبر اور ثبات کیساتھ ساری توانائیاں خرچ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ مصیبت میں بوکھلاہٹ ’’مصیبت سے بڑی مصیبت ہے‘‘۔ فیصلہ کن معرکہ سر پہ کھڑا ہے۔ میمنہ، میسرا اور قلب کے سالار مقرر ہوئے، طبل بجا، فوجیں اتریں، گھمسان کا رن ہے، بہت دن نہیں گزریں گے فیصلہ ہو جائے گا۔
ماہرین حرب اور میدان کارزار کے کئی بہادروں کو فوج کی صفوں کی ترتیب اور سالاروں کے چنائو پر اعتراض ہے۔ کیا عین دوران جنگ اعتراض سننا اور ان کا ازالہ ممکن ہے؟ جبکہ یہ اعتراض قطعی نہیں محض اختلاف رائے بھی ہو سکتے ہیں۔ کیا ہم اپنے اعتراض اور تحفظات لے کر ہتھیار ڈال دیں یا اپنی ہی فوج پر ٹوٹ پڑیں؟ ذرا رکئے، زیادہ دن نہیں گزریں گے آج سے ٹھیک چھ ہفتے بعد 25جولائی کو نتیجہ نکل آئے گا، فیصلہ ہو جائے گا۔ تب ہم سب کے پاس انصاف کی دہائی اور احتساب کے مطالبے کا وقت ہو گا۔ ٹھنڈے دل اور فرصت کیساتھ سب کی سنی جا سکے گی اور شاید ازالہ بھی ممکن ہو۔
ایک دو دن کی بات نہیں 23برس ہوچکے، اپریل 1996ء میں پیدا ہونیوالے بچے جوان ہو کر خود باپ بن چکے ہیں۔ تین نسلوں کی جدوجہد23طویل برس، انتھک محنت اور جدوجہد کے سال یہ عمران خان کی ضد، صبر اور ثابت قدمی کا نتیجہ ہے ورنہ کتنے جری اور بہادر تھک کہ بیٹھ رہے یا راہ چھوڑ گئے۔
غلط کیا ہے؟ غلطی کہاں ہوئی؟ اس پر سوچتے رہنا اپنی راہ کھوٹی کرنا ہے یہ رکنے، سوچنے، بیٹھ رہنے کا وقت نہیں، یہ مقابلہ ایک دو دس انتخابی حلقوں کا نہیں، ملک بھر کے ہر انتخابی حلقے نے فیصلہ کرنا ہے کہ اگلے پانچ برس ریاست اور حکومت کا سربراہ کون ہو گا۔ کس جماعت کے پروگرام کو پذیرائی ملے گی۔ ہمارے ووٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ حکومت کا سربراہ عمران خان ہو گا، زرداری یا نواز شریف، یہ معرکہ خالد، اسلم، زاہد، قاسم کے درمیان نہیں ہے۔ اس میں عمران خان کی تحریک انصاف، زرداری کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ ہارے گی یا جیت جائے گی۔ ہمارے مقامی نمائندوں کی حیثیت شطرنج کے مہرے کی ہے ایک ایک مہرے کا ماتم کیجئے تو ’’شاہ مات‘‘ کا خطرہ ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنو آپ کو یہ بازی ہر صورت، ہر شکل جیتنا ہے، روتے بسورتے یا ہنستے مسکراتے، 23برس کے طویل انتظار کے بعد فتح اور کامیابی آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ بڑی دیر کے بعد قسمت کی دیوی مہربان ہو کر آئی ہے۔ آج آپ نے دروازہ کھولنے میں کوتاہی کی تو دیر ہو جائے گی پھر شاید ہماری زندگی میں یہ دستک دوبارہ سنائی نہ دے۔
زمانے کے کسی دور میں کوئی گروہ تذبذب میں مبتلا ہو تو غزوئہ احد میں اس کے لئے سبق ہے اور ایسی روشنی جس میں سیدھی راہ سجھائی دے۔
غزوئہ بدر میں کافروں کو بدترین شکست ہوئی اس کا بدلہ لینے کیلئے قریش نے دوبارہ جنگ کی تیاری کی۔ قریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاع نبی اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے ایک خط کے ذریعے بھیجی اس وقت نبی کریم ﷺ قباء میں تھے۔ آپ قباء سے مدینہ پہنچے اور صحابہ کرامؓ کی مجلس مشاورت منعقد کی، تمام بڑے اور بزرگ صحابہؓ کی رائے تھی کہ شہر کے اندر رہ کر دفاع کیا جائے۔ بعض پُرجوش نوجوان صحابہؓ شہر سے باہر نکل کر لڑنا چاہتے تھے۔ آخر آپ ﷺ نے ان کی بات مان لی۔ آپ نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور فرمایا۔ لوگو! پوری تندہی اور ہمت کیساتھ جنگ کرنا اور اگر تم لوگوں نے صبر سے کام لیا تو حق تعالیٰ تمہیں فتح اور کامرانی عطا فرمائے گا۔ اب دشمن کے ساتھ جا کر لڑنے کی تیاری کرو۔ نماز عصر کے بعد آپﷺ جنگی لباس پہنے باہر تشریف لائے۔ آپ نے لباس کے اوپر دوہری زرہ پہن رکھی تھی۔ تب نوجوان صحابہ ؓنے عرض کیا کہ ہمارا مقصد آپ کی مخالفت نہ تھی آپ جو فیصلہ مناسب سمجھیں وہ کریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا! اب میں ہتھیار لگا چکا ہوں، کسی نبی کیلئے ہتھیار لگانے کے بعد ان کا اتارنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک اللہ تعالیٰ اس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دے۔ لشکر احد پہاڑ کی طرف چل پڑا ۔اس لشکر میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا ۔احد کے قریب پہنچ کر بولا آپ ﷺ نے مدینہ میں ٹھہر کر دفاعی جنگ لڑنے کی ہماری تجویز نہیں مانی لہٰذا یہ کہہ کر وہ اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ واپس پلٹ گیا۔ اب مسلمانوں کی تعداد سات سو رہ گئی جو تین ہزار کفار مکہ کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ شروع میں ایک ایک، دو دو جنگجو نکل کر مقابلہ کرتے رہے۔ اس میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا اس کے بعد عام جنگ شروع ہو گئی۔ حضرت ابو دجانہؓ نے سرخ پٹی سر پر باندھ لی۔ پٹی کے ایک طرف لکھا تھا اللہ کی مدد اور فتح قریب ہے اور دوسری طرف لکھا تھا جنگ میں بزدلی شرم کی بات ہے جو میدان سے بھاگا وہ جہنم کی آگ سے نہیں بچ سکتا۔ انصار نے یہ دیکھ کر کہا ابو دجانہؓ نے موت کی پٹی باندھ لی۔ انصار میں یہ بات مشہور تھی کہ جب ابو دجانہؓ سر پر یہ پٹی باندھ لیتے ہیں تو دشمنوں پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ کوئی ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔ چنانچہ انہوں نے گاجر، مولی کی طرح دشمنوں کو کاٹ ڈالا اور اس حد تک قتال کیا کہ تلوار مڑ کر درانتی جیسی ہو گئی۔ مسلمان پکار اٹھے کہ ابودجانہ ؓ نے واقعی تلوار کا حق ادا کر دیا اور حضرت حمزہ ؓ بیک وقت دو تلواروں کے ساتھ انتہائی سرفروشی سے جنگ کر رہے تھے۔ آخر مشرکین بدحواس ہو کر بھاگ نکلے، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کر کے انہیں قتل کرنا شروع کردیا اور مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے۔
نبی کریم ﷺ نے ایک دستہ گھاٹی کی حفاظت کے لئے متعین کر رکھا تھا اور انہیں حکم تھا کہ وہ کسی صورت گھاٹی کو نہ چھوڑیں جب تک کہ آپ ﷺ کا حکم ان تک نہ پہنچ جائے۔دشمن کو بھاگتے اور صحابہؓ کو مال غنیمت جمع کرتا دیکھ کر گھاٹی پر متعین جنگجوئوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ خالد بن ولید (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) وہ موقع کی تاک میں تھے مسلمانوں کو غافل دیکھ کر پیچھے سے حملہ کر دیا اور اب مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ بھاگتے کفار نے مسلمانوں میں افراتفری پھیلتے دیکھی تو وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوئے۔ مسلمان اس حملے سے اس قدر بدحواس ہوئے کہ سارے قیدیوں اور مال غنیمت کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے جو مشرک بھاگ رہے تھے وہ بھی واپس آگئے۔ ایسے میں مشرکین نے مشہور کردیا کہ (نعوذ باللہ) حضرت محمد ﷺ شہید کر دیئے گئے ہیں جس سے مسلمان مزید بدحواس ہو گئے۔ آپ ﷺ اس سخت وقت میں بھی ثابت قدم رہے آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کو پکارا۔ اے فلاں ابن فلاں میری طرف آئو میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نازک وقت میں صحابہؓ کی ایک جماعت حضور اکرم ﷺ کے گرد جمع ہوگئی اور آپ ﷺ پر ہونے والے حملوں کو اپنے اوپر روکے رکھا۔ احد کی لڑائی سے پہلے مشرکین نے میدان میں گڑھے کھدوا دیئے تھے تاکہ مسلمان ان میں گر جائیں ایک گڑھے میں نبی ﷺ گر پڑے آپ گڑھے میں گرے تو عتبہ بن ابی وقاص نے پتھر مارا جو آپﷺ کے چہرہ انور پر لگا جس سے چہرہ لہولہان ہوگیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا۔ خود (لوہے کی ٹوپی) ٹوٹا اور اس کی دو کڑیاں آپﷺ کے رخساروں میں گڑ گئیں۔ حضرت ابوعبیدہ ؓنے دانتوں سے کھینچ کر ان کڑیوں کو نکالا جس سے ان کے اپنے دو دانت ٹوٹ گئے۔ دو دانت ٹوٹنے سے ابو عبیدہ کا چہرہ بدنما ہونا چاہیے تھا مگر وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گیا۔ غزوئہ احد میں اکثر صحابہ ؓ شدید زخمی ہوئے۔ حضرت حمزہ ؓ سمیت ستر کے قریب صحابہؓ غزوئہ احد میں شہید ہوئے۔اس جنگ میں ہم سب کیلئے ایک سبق ہے کہ مشکل مرحلے میں عبداللہ بن ابی کی طرح واپس پلٹ جائیں یا ابو دجانہؓ کی طرح سرپر سرخ پٹی باندھ کر دشمن پر ٹوٹ پڑیں۔ آج ابو دجانہؓ ہیں نہ منافق عبداللہ بن ابی لیکن تاریخ میں ابودجانہؓ روشنی ہیں، نور ہیں اور عبداللہ بن ابی سیاہی اور عبرت کا ابدی نشان۔ مختصر یہ کہ مشورے کے بعد جو طے ہوجائے وہی حرف آخر ہے، وقت ہنگام سردار کے حکم سے سرتابی نقصان دہ ہے، آخری فیصلے کے بعد اپنی پسند کو خاطر میں لاکر عبداللہ بن ابی کا طرزعمل دنیا میں خرابی اور آخرت کا خسارہ ہے۔ جب معرکہ بپا ہو تو ڈر کر لوٹ جانا یا منافقت کر کے اپنے گروہ کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا منافقوں کو زیبا ہے بہادروں کو نہیں۔تاریخ میں یہ سبق ساری نسلوں کی خاطر ہمیشہ کیلئے لکھ دیا گیا۔