• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان کتنا ہی ذہین، سمجھ دار، ہو مگر

ریٹائرمنٹ کے کچھ ہی عرصے بعد عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے میرا چلنا پھرنا تقریباً موقوف ہوگیا تھا۔ آٹھ دس قدم چلنے سے سانس پھولنے لگتا۔ گھر کے قریب ایک پارک تھا، جب شام کے وقت دل گھبراتا، تو گھر کے گیٹ پر کرسی ڈلوا کر بیٹھ جاتا اور پارک کی رونق دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ وہاں خواتین، مرد، بچّے جاگنگ اور مختلف کھیلوں کے لیے بھاگتے دوڑتے دکھائی دیتے۔ مائیں اپنے بچّوں کو جھولوں پر بٹھاکر ان کے لاڈ اٹھاتیں، یہ مناظر میرا بہت دل لبھاتے تھے۔ خواتین میں بھی جاگنگ کا شعور آگیا تھا۔ جس جگہ میں بیٹھتا، وہاں سے جاگنگ ٹریک نزدیک ہی تھا، لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے مجھے سلام کا اشارہ کرتے آگے نکل جاتے اور میرے لیے اتنی اہمیت ہی بہت تھی کہ لوگ مجھے پہچانتے اور عزت کرتے تھے۔

ایک دن میں حسبِ معمول پارک کی رونق سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ایک شخص پارک کی گرین بیلٹ پر چلتا دکھائی دیا، پھروہ ایک طرف کھڑے ہوکر جاگنگ کرتے لوگوں کو دیکھنے لگا، ان میں سے بہت سے لوگ میری طرف ہاتھ ہلاتے یا ماتھے پر انگلیوں سے سلام کا اشارہ کرتے معمول کے مطابق گزر رہے تھے۔ معاً میری نظر اس شخص پر پڑی، وہ بھی میری طرف غور سے دیکھ رہا تھا، پھر وہ اچانک پارک کا گیٹ عبور کرکے میری طرف بڑھا، اس کے کاندھے پر ایک بڑی سی گٹھری تھی۔ سلام کرکے وہ میرے قریب زمین ہی پر بیٹھ گیا اور لجاجت بھرے لہجے میں کہا ’’صاحب! میں یہ چادریں کمیشن پر بیچتا ہوں، شام ہوگئی ہے، لیکن آج ایک چادر بھی نہیں بِکی، اگر آپ ایک دو خرید لیں گے، تو میرے گھر کا چولھا جل جائے گا، ورنہ آج میرے بچّے بھوکے سوئیں گے۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے چادر کھولی، اس میں بیڈ شیٹس دیکھ کر میں نے کہا، ’’بھائی! میں ان چادورں کا کیا کروں گا؟‘‘ اس نے مایوسی سے میری طرف دیکھا اور گٹھری باندھ کر بولا ’’اگر آپ مجھے پانچ ہزار روپے فراہم کردیں، تو یہ پورا بنڈل آپ کے سپرد کردوں گا، اس طرح میری دن بھر کی مشقّت بھی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’بھائی، میں کوئی رئیس نہیں، ایک ریٹائرڈ آدمی ہوں، اپنی بیماری کی ادویہ بھی بہ مشکل خرید پاتا ہوں، ان کے لیے رقم کہاں سے لائوں۔‘‘ ان دنوں پانچ ہزار روپے ایک بڑی رقم تھی۔ میں نے اپنی مرحومہ بیوی کی آٹھویں برسی کی فاتحہ خوانی کے لیے دس ہزار روپے کی رقم پسِ انداز کی ہوئی تھی۔ میں نے اس شخص کو بتایا کہ میں اتنی بیڈ شیٹس کا کیا کروں گا، جب کہ ایک بڑا خرچا میرے سر پر پہلے ہی سوار ہے۔ اتنے میں ایک اورشخص ہمارے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے استفسار پر وہ چادر فروش پھر سے اپنی پریشانی کی کتھا دہراکر اس سے بھی درخواست کرنے لگا کہ ’’اگر میں یہ چادریں نہ بیچ سکا، تو گھر میں فاقہ ہوجائے گا۔‘‘ چادر فروش کی دکھ بھری کہانی سن کر اس شخص نے میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’آپ یہ چادریں خرید رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’بھائی! اتنی چادروں کا میں کیا کروں گا؟‘‘ چند ثانیے وہ میری طرف دیکھتا رہا، پھر بولا ’’میری دو بچیّوں کی شادی ہونے والی ہے، مگر فوری طورپر میرے گھر میں اتنی رقم موجود نہیں، اگر آپ مجھے صبح تک کے لیے پانچ ہزار روپے ادھار دے دیں، تو یہ چادریں میں خریدلوں، آپ میرا بھروسا کرسکتے ہیں، جب تک رقم ادا نہ کروں، یہ بیڈ شیٹس آپ اپنے پاس رکھیں۔‘‘

یہ شخص میرے ہی علاقے میں کہیں آس پاس رہتا تھا، کیوں کہ میں اسے متعدد بار گھر کے سامنے سے آتے جاتے دیکھتا رہا تھا۔ بہرحال، میں اس کا نام، پتا پوچھ کر اطمینان کرنے کے بعد گھر گیا اور اپنی الماری سے رقم نکال کر باہر آیا، تو دونوں میرے منتظر تھے۔ میں نے اس شخص کے ہاتھ میں رقم تھمادی۔ اس نے رقم گن کر چادر فروش کو دے کے وہ بنڈل لےلیا اور مجھے دیتے ہوئے کہا ’’جناب! یہ میری امانت سمجھیں، میں کل کسی وقت آپ کے گھر آکر پیسے ادا کرکے لے جائوں گا۔‘‘ چادر والا پیسے لے کر دعائیں دیتا ہوا چلا گیا، تو وہ شخص بھی میرا شکریہ ادا کرکے چلا گیا کہ میں نے اس پر اعتبار کرکے اس کی مدد کی۔ میں کچھ دیر وہیں بیٹھا پارک کی سرگرمیوں کا نظارہ کرتا رہا۔ مغرب کی اذان ہونے پر معمول کے مطابق واپس اندرگیا اور وہ بنڈل الماری میں رکھ دیا۔ اگلے روز میں نے اس شخص کا انتظار کیا، لیکن وہ نہیں آیا، پھر ایک دن کیا، پورا ہفتہ گزر گیا، وہ پارک کے آس پاس بھی دکھائی نہیں دیا۔ جب دو ہفتے گزر گئے، تو دل میں سوچا کہ اس غریب سے پیسوں کا بندوبست نہیں ہوسکا ہوگا، اس لیے شاید اب تک نہیں آسکا۔ میں نے اپنی بہو کو سارا قصّہ سنایا، تو کہنے لگی ’’آپ فکر نہ کریں، چادریں گھر کے کام آجائیں گی اور فاتحہ خوانی کی رقم کا ہم مل کر بندوبست کرلیں گے۔‘‘میری فکرنیک بخت بہو نے دور کردی تھی۔ اس نے پوچھا ’’چادریں کیسی ہیں؟‘‘ ان کی کوالٹی خراب تو نہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا، ’’پورا بنڈل تونہیں کھولا تھا، اوپر والی چادردیکھی تھی، اچھی لگ رہی تھی۔‘‘میری بہو کو اطمینان نہیں ہوا، کہنے لگی ’’کھول کر دیکھ لیتے ہیں، میں دو چادریں تو آج ہی اپنے بیڈ روم کے لیے لے جاتی ہوں، بقیہ بھی استعمال میں لے آئیں گے، اس دوران اگر وہ آدمی پیسے لے کر آجائے، تو اسے کہہ دیجیے گا کہ کافی دن گزرنے کے بعد آپ نہیں آئے، تو مایوس ہوکر ہم نے گھر میں استعمال کرلیں۔‘‘

میری بہو نے یہ فیصلہ فوری طور پر صرف اس لیے کیا تھا کہ میں اس پریشانی کو دل سے نہ لگائوں۔ اس کے کہنے پر میں اپنی الماری سے وہ بنڈل اٹھالایا۔ بہو نے اسے کھولا، پہلی بیڈ شیٹ پلاسٹک میں لپٹی خوش نما رنگوں کی تھی، دوسری اٹھائی، اس کا رنگ زیادہ اچھا لگا، بہو نے اسے پلاسٹک کے شاپر سے نکال کر دیکھنا چاہا، تو اس کے ہاتھ میں بچّوں کے پوتڑوں جیسے چھوٹے چھوٹے رنگین کپڑوں کے ٹکڑے آگئے۔ اس نے بے تابی سے سارا بنڈل کھول ڈالا، پورا بنڈل اسی طرح کی کترنوں سے بھرا ہوا تھا، انہیں انتہائی مہارت سے جوڑ کر پلاسٹک کی شیٹوں میں تہہ کرکے رکھا گیا تھا کہ پہلی نظر میں وہ بیڈ شیٹس ہی لگتی تھیں، جب کہ اوپر والی تہہ پر صرف ایک بیڈ شیٹ تھی، بقیہ تہوں میں صرف رنگین کترنوں کا ڈھیر تھا، جنہیں دیکھ کر میرا سر چکراگیا، اتنا بڑا دھوکا اور وہ بھی ایک بوڑھے آدمی کے ساتھ۔ یقیناً وہ دونوں ٹھگ ملے ہوئے تھے، کیوں کہ وہ شناسا صورت والا بندہ جو پچھلے بیس پچیس دنوں سے متعدد بار مجھے سلام کر کے گزرتا رہا تھا اور خود کو مجھ سے پیسے مانگتے ہوئے اس نے میرے سیکٹر کا رہائشی بتایا تھا، دوبارہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔ میری رحم دلی اور سادہ مزاجی کو بھانپتے ہوئے، ملی بھگت سے انہوں نے مجھے بہ آسانی لوٹ لیا تھا۔ گویا بندہ کتنے بھی تجربے حاصل کرلے، کتنا ہی ذہین اور سمجھ دار کیوں نہ ہو، کسی بھی عمر میں ٹھگوں سے آسانی کے ساتھ بے وقوف بن سکتا ہے۔

(سراج الدین،اسلام آباد)

تازہ ترین
تازہ ترین