• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طاقچے میں دنیا...

ڈاکٹر احمد حسن رانجھا،لاہور

چاند بادلوں کی اوٹ میں چُھپتا، چُھپ کر نکل آتا اور سیاہ پانی کو اپنے نقرئی جادو سے اُجال دیتا۔ رات چاندنی کے رتھ پر سوار ہو کر دیو ہیکل درختوں کے سیاہ ہیولوں پر اُتر آتی۔ تارے ، جگنو بن کر آسمان پر ٹمٹمانے لگتے۔ دادی امّاں طاقچوں میں رکھے دِیوں کو آگ دکھا دیتیں،تو ان کے شعلے اپنی لمبی زبانوں کے ساتھ لہرا سے جاتے۔ مگر جوں ہی کوئی جھونکا آتا، تو دِیے کی لَو ہوا کی زد پر پھڑ پھڑا اٹھتی اوراس کی روشنی طاقچے میں رقص کرتی۔ ’’امّاں! اتنی چاندنی تو ہے، پھر آپ کیوں دِیا جلا رہی ہیں؟ کیا فائدہ بلا وجہ دِیا جلانے کا۔‘‘ حسن فضا میں پھیلے نُور کی طرف اشارہ کرتا۔ ’’پُتّر! ہر کام میں نفع نقصان ہی نہیں دیکھتے۔ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں، جو کرنے ہی ہوتے ہیں، چاہے اِن میں نفع ہو یا نہ ہو۔ سو، چاندنی ہو یا نہ ہو، دِیے کے بغیر یہ طاقچہ اور میری رات نامکمل ہے۔‘‘ ابّاجی، ہماری زندگی میں دادی امّاں کا وہ دِیا تھے،جن کے بغیر اُن کی ذات نامکمل تھی۔چاند ،چاندنی، تارے جو جگنو بن کر آسمان پر ٹمٹماتے تھے، سب اپنی جگہ، پر دِیے کا وجود اپنی جگہ تھا۔ ہماری زندگیوں میں روشنی ابّاجی کے دَم قدم سے تھی اور چہروں پر رونق بھی اُن ہی کے وجود سے۔ وہ گھر میں داخل ہوتے، تو مَیں بھاگتا ہوا اُن کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا۔ وہ مجھے اُٹھا کر میرے گالوں پر پیار کرتے،پھر دادی امّاں کو سلام کرتے اور ان کی پائینتی کی طرف چارپائی پر بیٹھ جاتے۔ ان کا حال احوال دریافت کرتے اورنرم ہاتھوں سے دادی امّاں کی ٹانگیں دبانے لگتے۔ ابّاجی ہمارے لیے ہی نہیں، بہت سارے لوگوں کے لیے طاق میں رکھے دِیے کی حیثیت رکھتے تھے۔ کئی لوگوں کی زندگی میں روشنی اُن کے دَم سے تھی۔ غریبوں کی مدد کرنا، بے سہاروں کا سہارا بننا۔ گِرتے ہوں کو تھام لینا، اُن کا وصف تھا۔ عید آتی تو سارے گائوں کے غریب بچّے اُن کے اردگرد اکٹھے ہوجاتے۔ ان بچّوں کے لیے عیدی، کپڑوں اور کھلونوں کا بندوبست پتا نہیں ابّاجی کیسے کرلیتے تھے۔

سرداروں کی حویلی کے سامنے پُرانے دھرم شالہ کی عمارت تھی۔ دو منزلہ کھنڈر ہوتی باقیات۔ نچلی منزل قدرے بہتر حالت میں تھی۔ وہاں اب پٹوار خانہ منتقل ہوچکا تھا۔ ایک بڑا سا ہال نما کمرا تھا۔ جس کا واحد دروازہ دھرم شالہ کے صحن میں کھلتا تھا۔ بوسیدہ دروازہ، جسے جب بھی کھولتے، تو چولیں ہلتی اور پَٹ چَرچَرا کر احتجاج کرتے وا ہوجاتے۔ دروازے کے دونوں طرف دو کھڑکیاں تھیں۔ زنگ آلود آہنی سلاخیں، کھڑکیوں کے چوکھٹوں میں سال ہا سال سے آویزاں تھیں۔ کتنی دہائیوں کے سورج تھے، جن کی کرنیں ان سلاخوں کے نیچے سے گزریں اور اس کمرے کے دَر و دیوار کو روشن کیا۔ لکڑی کی دیمک زدہ الماریوں نے کمرے نما ہال کی تینوں دیواروں سے ٹیک لگا رکھی تھی۔ پیلے کاغذوں سے بَھرے پُرانے بہی کھاتے، جریبیں(زمین ناپنے کا ایک خاص پیمانہ)، نقشے اور رجسٹر ان الماریوں میں ٹُھنسے ہوئے تھے۔ ہم جب لُکّن میٹی کھیلتے، تو پُرانے دھرم شالے اور نئے پٹوار خانے کا چوبارہ، جو اِمتدادِ زمانہ سے ایک کھنڈر کی شکل اختیار کرگیا تھا، چُھپنے کے لیے میری پسندیدہ جگہ تھی۔ نیچے ہال میں تحت پوش پہ موٹے شیشوں کی عینک لگائے، بوسیدہ بہی کھاتوں پہ پٹواری کا منشی،یار محمّد جُھکا ہوتا اور اوپر چھت پر ہم نے دھما چوکڑی مچا رکھی ہوتی۔ بابا تاج دین موچی، پٹوار خانے کا لاغر اور کم زور سا چوکیدار ڈنڈا اُٹھا کر،گالیاں بکتے ہوئے جوں ہی ہمارے پیچھے بھاگتا، ہم تتّر بتّر ہوکر اِردگرد کی چھتوں پر چھلانگیں لگا دیتے۔ تاج دین بہت غریب آدمی تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچّے اور معمولی سی تن خواہ۔ گزر بسر بہت مشکل سےہوتی تھی۔ ابّاجی عید سے ایک دِن پہلے مٹھائی کی ٹوکری ہمیں تھماتے اور کپڑوں کا شاپر خود اُٹھا لیتے اورپھر تاج دین کے گھر پہنچ کراُسےکچھ نقدی دیتے ،اورکپڑے اور مٹھائی بھی اُس کے حوالے کردیتے۔ اُن بچّوں کے چہروں کی روشنی اور بابے تاج کے چہرے پر پھیل جانے والی مُسکراہٹ دیکھ کر ہمیں لگتا کہ ابّاجی طاقچے میں رکھا دیا ہیں، جس کی پھڑپھڑاتی لَو کی رقص کرتی روشنی سے ان لوگوں کی زندگی منوّر تھی۔

ابّاجی کو ہم سے بچھڑے زمانہ ہوگیا ہے۔ اُن کے جانے کے بعد نہ وہ چاند رہا، نہ اُس کی وہ چاندنی۔ تاروں کی چمک ماند پڑگئی۔ زندگی وہ نہیں رہی، جو کبھی تھی۔ وہ لمحے اب کیسے لوٹ سکتے ہیں کہ ابّاجی گھر میں داخل ہوں اور مَیں اُن سے لپٹ جائوں۔ وہ مجھے اُٹھائیں اور گالوں پر پیار دیں۔ ایک مستقل اُداسی ہے، جو سینے میں کہیں چُھپ کر بیٹھ گئی ہے۔ دیوار پر لگی اُن کی تصویردیکھتا ہوں، تو دِل اور بھی اُداس ہوجاتا ہے کہ جو آپ کے سینے میں دِل بن کر دھڑکتے ہوں، وہ آپ کے لیے فقط تصویر ہوجائیں، تو پلکوں پہ برسات کا موسم مستقل آکر ٹھہر جاتا ہے۔عید آتی ہے، تو مَیں گائوں کا رُخ کرتا ہوں۔گائوں کے غریب بچّوں کے لیے عیدی، کپڑے اور کھلونے لے جاتا ہوں۔ ان بچّوں کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر زندگی پھرسے ایک بار کچھ دیر کے لیے روشن سی ہوجاتی، جیسے پھر سے طاقچے میں دیا جل اُٹھا ہو اورپھر مَیں قبرستان میں ابّاجی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے چل دیتا ہوں۔

تازہ ترین
تازہ ترین