آئین اورقانون کے طالب ِعلم جو سپریم کورٹ کے ارکان ِ پارلیمنٹ کی نااہلی کے حالیہ فیصلوں کے پیچھے کوئی طے شدہ پیمانہ اور ربط تلاش کرنے کی کوشش میں تھے ، کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ وہ اکیلے ہی الجھن کا شکار نہیں۔ محترم جسٹس فائز عیسیٰ کی شیخ رشید نااہلی کیس میں رائے، اور اسلام آبادہائی کورٹ کے فل بنچ کی خواجہ آصف کو ’’بوجھل دل ‘‘ کے ساتھ نااہلی(جسے بعد میں ختم کردیا گیا) کرنے کی رولنگ جو سپریم کورٹ کے سابق فیصلہ کی پیروی کرتی تھی سے پتہ چلتا ہے کہ بنچ کے کچھ ارکان بھی کسی قانونی مساوات کو تلا ش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور سے آرٹیکل 184(3) کے تحت شروع ہونے والے نااہلی کے کیسز میں سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو جس طریقے سے استعمال کیا گیا، وہ قانون کے طلبہ کے لئے اہمیت کا حامل ہے ۔ اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس عیسیٰ بہت مدلل اندا ز میںاُن معاملات کو بیان کرتے ہیں جو اُن افراد کے ذہن میں بھی ہیں جو عدالت کو آئین اور قانون کی روح کے مطابق کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک لیگل سسٹم فرض کرتا ہے کہ اگر قانون واضح ہو توشہری (یا ان کی اکثریت) اپنی زندگی اس کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ اگر کوئی تنازع کھڑا ہو تو شہریوں کے درمیان، اور شہریوں اور ریاست کے درمیان عدالتیں ثالث کے طور پر موجود ہوتی ہیں۔ حتمی عدالت ہونے کے ناتے سپریم کورٹ آئین کی فیصلہ کن تشریح کی مجاز ہوتی ہے ۔اس کا وضع کردہ قانون ہر کسی پر لاگو ہوتا ہے ۔ چنانچہ قانون کو یقینی پن عطاکرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے بغیر قانون کی حکمرانی اور فرد ِ واحد کی حکمرانی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے میں اسی یقینی پن کی کمی کا تاثر ابھراہے۔ اپنے اکثریتی فیصلے میں جسٹس عظمت سعید دلیل دیتے ہیں، ’’ ہمارے قانونی نظام میں قانون فیصلہ در فیصلہ ارتقا پذیر ہوتا ہے ۔ اگر اس عدالت کی طرف سے انتخابی تنازعات کے فیصلوں کو غور سے پڑھیں، معروضی طو رپر سمجھیں، اور ان کے تناسب کی درست شناخت کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان میں قانون کے ایسے اصول وضع کردیے گئے ہیں جن کا اطلاق ہر شخص ، اور ہر انفرادی کیس پر ہوتا ہے ۔ ‘‘ یقیناََ قانون کی یہی منشا ہے ۔ لیکن کیا درحقیقت ایسا ہی ہے ؟
جسٹس سعید خود کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا نااہلی کے کیسز میں جانچ کا پیمانہ اس طرح ہے ، ’’ جہاں ایک غلط بیانی کی جاتی ہے ، سچ کو چھپایا جاتا ہے ، یا جزوی طو رپر بیان کیا جاتا ہے ، تو امیدوار کو اس کی وضاحت کا موقع دیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ ایسی وضاحت قابل ِقبول ہو یا ممکن ہے کہ اسے قبول نہ کیا جائے۔‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غلط بیانی یا سچائی کو چھپانے کے نتیجے میں نااہلی ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہے تو بھی واضح نہیں کہ عدالت کس غلط بیانی پر نااہلی کی سزا سنائیں گی اور کس پر نہیں؟اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ نااہلی کی سزا کے لئے جرم کی نیت دیکھی جائے گی۔ اگر ایسا قصور قابل ِ گرفت نہیں ہے ، جیسا کہ جسٹس سعید نے خود رولنگ دی ، تو ایک رکن ِ پارلیمان کو اپنی وضاحت پیش کرنے کا حق دیا جانا چاہیے ۔ تو پھر سپریم کورٹ کسی ٹرائل (جس کی ضمانت آرٹیکل 10A دیتا ہے) کے بغیر کسی وضاحت کے درست یا غلط ہونے کا تعین کیسے کرے گی ۔ اگر ایسی غلطیوں پر سزا دینے کے لئے کوئی معروضی پیمانہ موجود نہیں، اور نہ ہی یہ طے ہے کہ کس قسم کی وضاحت کو تسلیم کیا جائے اور کس کو رد کردیا جائے ، تو کیا ارکان ِ پارلیمان کی قسمت کا فیصلہ جج حضرات یا بنچ کی مرضی کرے گی؟
نوازشریف کی نااہلی کے بعد سے سپریم کورٹ یہ وضاحت کرنے میں بہت مشکل کا سامنا کررہی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا ، اور اب یہ مختلف کیسز میں کیا کررہی ہے ۔ پاناما کیس نمبر ایک میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے جج حضرات کی دلیل واضح تھی۔ اُنھوںنے کیس کی سماعت کی تھی، اور اس کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے ۔ لیکن پاناما کیس نمبر دو کی بنیاد لندن فلیٹس وغیرہ نہیں، بلکہ ایک ایسی غلطی تھی جو بہت معمولی دکھائی دیتی تھی۔
اس کے بعد سے سپریم کورٹ معروضی جانچ کے پیمانے طے کرنے کی کوشش کررہی ہے ، لیکن ان کی بنیاد پاناما کیس کا وہ فیصلہ ہے جس میں معروضیت سے زیادہ داخلی سوچ پائی جاتی ہے ۔ اب یہ کوشش مزید ابہام پیدا کررہی ہے ۔ بعد میں نااہلی کے چار مقدمات میں بھی ایک بنیادی سوال کا تاحال جواب نہیں مل سکا ہے۔ یہ سوال ان کی آئینی مثال اور تشریح ، اور اختیارات کی علیحدگی کی بابت ہے ۔ جسٹس عیسیٰ کی رائے اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ قالین کے نیچے چھپانے سے یہ معاملہ ختم نہیں ہوجائے گا۔ اس سے پانچ بنیادی سوالات جنم لیتے ہیں: (1) کیا کاغذات ِنامزدگی میں ہونے والی ہر بھول چوک کے نتیجے میں امیدوار تاحیات نااہلی کا سامنا کرے گا ، یا کسی کو قانونی شکنجے سے بچ نکل کر انتخابات لڑنے کی رعایت بھی حاصل ہوگی؟ (2) اگر کسی درخواست میں کچھ مخصوص حقائق کا ذکر نہیں کیا گیا، جن کی وجہ سے نااہلی کی سزا ہوسکتی ہے ، تو کیا اُنہیں تسلیم کیا جائے گا جب وہ امیدوار کسی حلف نامے میں ، یا کیس کی سماعت کے دوران عدالت یا ٹربیونل کے روبرو ظاہر کردے ؟ (3) کیا آرٹیکل 225انتخابی تنازعات پر آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی کی درخواست کار استہ نہیں روکتا؟ (4) اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو کیا کسی امیدوار کی نااہلی یا اہلیت سے متعلق انتخابی تنازع عوامی دلچسپی کے دائرے میں آتا ہے؟یا کیا اس سے عوام کے بنیادی حقوق پر کوئی زد پڑتی ہے جس کی وجہ سے آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے ؟ (5) اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو کیا الیکشن سے متعلق تمام قواعد وضوابط اور طریق کار دراصل آرٹیکل 184(3) کے تابع ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انفرادی سیاست دانوں کو پہنچنے والے فائدے یا نقصان سے بالا تر ہوکر ان کا جواب تلاش کیا جائے ۔ یہ افراد کا نہیں، بلکہ آئین کی تشریح اور قانون کے نفاذ کا معاملہ ہے ۔ ہمیں اس بابت واضح، غیر مبہم اور دوٹوک اتفاق ِر ائے درکار ہے کہ کس نے کیا فیصلہ کرنا ہے اور کیوں ؟ کیا آئین عدلیہ کو نااہلی کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے، یا سپریم کورٹ نے یہ اختیار آئین کی اپنی مرضی سے تشریح کرتے ہوئے حاصل کرلیا ہے ، اور ایسا کرتے ہوئے اس نے الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کی عملداری میں قدم رکھ دیا ہے ؟
اگر ہمارے آئین کی روح کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے استحقاق کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ چونکہ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کی حتمی اتھارٹی ہے، اس لئے اب ہم آرٹیکل 225 کی کیا تشریح کریں گے جو کہتا ہے کہ انتخابی تنازعات کو الیکشن ٹربیونلز کے سامنے پیش کیا جائے گا؟یا آرٹیکل 63(2) کی کیا تشریح کی جائے جو کہتا ہے کہ اگر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کسی رکن کی نااہلی کا سوال اٹھے تو اُسےا سپیکر، یا چیئرمین سینٹ کے پاس بھیجا جائے گا جو اسے فیصلے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس بھیجیں گے ۔ اگر سپریم کورٹ 184(3) کو استعمال کرتے ہوئے منتخب شدہ نمائندوں کو گھر بھیجتی ہے تو اسے اپنے صوابدیدی اختیار کا جواز پیش کرنا پڑے گا۔ شیخ رشید کے کیس میں جسٹس سعید نے شیر عالم خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ اگر کسی رکن پارلیمان کی نااہلی کا کیس سپریم کورٹ کے سامنے کسی بھی صورت میں آتاہے تو سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے 184(3) کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرے ۔دوسری طرف جسٹس فائز عیسیٰ کی رائے اس سے برعکس ہے ۔ وہ محمد صدیق بلوچ کیس کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا تھاامیدوار کو نااہل قرار دینے کے لئے کسی ٹھوس وجہ کا ہونا لازمی ہے ۔ اس کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ قانون کی عدالت بن کر کسی ٹرائل کے بغیر منتخب ارکان ِ پارلیمنٹ کو گھر بھیج سکتی ہے۔ لیکن یہ روایت منتخب شدہ اور غیر منتخب شدہ اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کو برہم کردے گی۔ سوموٹو کے تحت کارروائی کا دارومدار چیف جسٹس کی ذاتی ترجیحات پر ہوتا ہے۔ اس اختیار کو سیاسی اور انتخابی تنازعات میں استعمال کرنا خطرناک ہے۔ اس سے قانونی اور سیاسی احتساب کے درمیان فرق ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ جسٹس فائز عیسیٰ کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب ملنا چاہئے۔ دیکھنا ہے کہ کیا ان کا جواب ہمیں موجودہ چیف جسٹس صاحب کے دور میں ملے گا، یا اُن کا کوئی جانشین اس ابہام کو دور کرے گا، جو قاضی عیسیٰ خود بھی ہوسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)