حیرت کی بات یہ ہے آج بھی اس مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں لوگ اپنے خود ساختہ اوہام اور نظریات کے جال میں گرفتار ہیں جو ”کامن سینسں“ کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ ایسے اوہام و نظریات آج تک انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے استفسار پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے بتایا ہے کہ کراچی میں اب تک 1897/افراد مختلف واقعات میں قتل کئے جا چکے ہیں جبکہ گزشتہ برس 1924/افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ابھی یہ سال ختم ہونے میں دو ماہ باقی ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس سال کے دوران مزید کتنی جانیں بدامنی کی نذر ہو جائیں گی۔ سندھ پولیس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ ماہ میں434ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات درج ہوئے ۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد کے مطابق سندھ میں دس لاکھ اسلحہ لائسنس جاری کئے جا چکے ہیں جن میں سے دو لاکھ لائسنس صرف کراچی سے جاری ہوئے ہیں۔ ان ہتھیاروں کی تعداد ہی یہ ظاہرکرنے کیلئے کافی ہے کہ حکومت نے اسلحہ کے لائسنس بھی ریوڑیوں کی طرح بانٹے ہیں۔جہاں تک غیرقانونی ہتھیاروں کی بھرمارکا تعلق ہے تو اس کے اعداد و شمار کیلئے کوئی سروے کرانا ممکن نہیں۔ کئی سالوں سے بڑھتی ہوئی بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں نے چھوٹے بڑے تاجروں،دکانداروں، خوانچہ فروشوں تک کو مستقل پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ حکومت بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کے ہاتھوں بے بس نظر آتی ہے۔اس سال اغوا برائے تاوان کے97کیس ہوئے جس میں بیس مغویوں نے کروڑوں روپے دے کر رہائی حاصل کی۔ مددگار ہیلپ لائن تنظیم کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ نو ماہ میں صرف شہر کراچی سے 170بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے صرف 10 بازیاب کرائے جاسکے جبکہ160بچے تاحال لاپتہ ہیں۔ یہ160 لاپتہ بچے کہاں گئے کچھ معلوم نہیں یہ تو اُن بچوں کی تعداد ہے جو رپورٹ ہوئے اور کتنے اور لاپتہ ہوئے کچھ نہیں معلوم۔
کراچی کے کئی علاقوں کے شہریوں کو پہلے تو صرف پینے کے پانی کی قلت کا سامنا تھا مگر اب انہیں ”نیگیریا“ کا خوف بھی دامن گیر ہوگیا ہے۔ یہ ایسا وائرس ہے جو دماغ چاٹ کر انسان کی جان لے لیتا ہے۔مچھر کی قیامت خیزیاں ، ڈینگی اور ملیریا کی شکل میں پہلے ہی منڈلاتی رہتی تھیں لیکن جب سے یہ ”نیگیریا“ آیا ہے اس نے سب پر لرزہ طاری کر دیا ہے حتیٰ کہ اب نمازی بھی وضو کرتے وقت ناک میں پانی ڈالتے وقت پریشان نظر آتے ہیں۔ سی این جی گیس کے معاملے میں منافع خوروں کی ہوس زر کی وجہ سے گیس کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود ٹرانسپورٹر ابھی تک عوام کی کھال کھینچے جارہے ہیں اوربچارے عوام”آہ سے واہ“ تک کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ معیشت کا پہلے ہی بُرا حال ہے اور رہی سہی کسر ہڑتالوں، احتجاجی مظاہروں اور عوام کی کمرکو دہرا کر کے پوری کر دی ہے۔ فرقہ واریت، لسانیت، صوبائیت، برادریوں کی گروہ بندیوں اور اقتدار کیلئے چھینا جھپٹی اور سیاسی مفاہمتوں کے ہاتھوں بار بار قربانی دینے والے عوام آخر کب تک اُس اونٹ کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے رہ سکتے ہیں جنہیں پہلے ہی شہ رگ پر وار کرکے زخمی کیا جاتا رہا ہے۔
مملکت کے مفاد کو غیروں کیلئے قربان کرنے کی کوششیں بہت خطرناک ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کو اب تک اس میں ناکامی کا سامنا ہے۔ ملک دشمن اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے پورا زور لگارہے ہیں لیکن یہ پاکستان بنانے والوں کی قربانی کا ثمر ہے کہ پاکستان پر اب تک خدائے ذوالجلال سایہ فگن ہے۔