• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی تو ہلکی پھلکی سی ہے

منزل تک پہنچنے کے بجائے ہم خواہشات کے صحرا میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ خواہش اور نیت میں بڑی مماثلت ہے۔ نیت نیک ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے ،صلہ بھی اسی دنیا میں ترقی و خوشحالی کی صورت میں مل سکتا ہے۔ خواہش بڑی ظالم چیزہے، انسان کو رسوائی بھی دے سکتی ہے، محبت بھی اور نفرت بھی ۔خواہشیں مقدر بدل سکتی ہیںان کی کوئی انتہا نہیں۔

کہتے ہیں ایک بادشاہ نے ایک درویش سے کہا۔۔

” مانگو کیا مانگتے ہو؟” درویش نے اپنا کشکول آگے کردیا اور عاجزی سے بولا۔۔

” حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔‘‘بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے انگوٹھیاں اتاریں جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم، لہذا اس نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا۔

انچارج ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا‘ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا گیا، یہاں تک کہ تمام جواہرات غائب ہوگئے۔بادشاہ کو اپنی بے عزتی کا احساس ہوا اس نے خزانے کے منہ کھول دیئے لیکن کشکول بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا، خزانے کے بعد وزراء کی باری‘ اس کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی‘ لیکن کشکول خالی کا خالی رہا۔ آخر بادشاہ ہار گیا درویش جیت گیا۔

درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹا‘ مسکرایا‘ سلام کیا اور واپس مڑ گیا‘ بادشاہ‘ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔

” حضور ! مجھے صرف اتنا بتادیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے ؟” درویش مسکرایا۔۔

” اے نادان ! یہ خواہشات سے بنا ہوا کشکول ہے‘ جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔۔۔‘‘

انتخاب:حنا طاہر

تازہ ترین
تازہ ترین