• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دادا جان انتہائی سادہ، نفیس اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ لبوں پر دھیمی مُسکراہٹ اُن کی خاص پہچان تھی۔ بلاشبہ وہ سنجیدگی اور مزاح کا حَسین امتزاج تھے۔ سفید چمکتی داڑھی کے ساتھ سر پر عمامہ شریف سجاتے، تو چہرے کا حُسن کئی گُنا بڑھ جاتا۔ ہمیشہ سفید لباس ہی زیب تن کرتے اور کہا کرتے کہ’’ یہ سنّتِ رسول ﷺ ہے۔‘‘ ساگ کے ساتھ دیسی گھی کے پراٹھے رغبت سے کھاتے۔ اچار گوشت اور مکئی کی روٹی بھی اُن کی مرغوب غذا تھی، جب کہ لسّی اور دودھ پسندیدہ مشروب تھے۔ خود تو سادگی کا نمونہ تھے ہی، گھر والوں کو بھی سادہ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے۔ زبان اس قدر میٹھی پائی تھی کہ بولتے تو پَل بھر میں مخالف کو اپنا گرویدہ کرلیتے۔ صاف گو انسان تھے، اس لیے ہمیشہ سیدھی اور کھری بات کرتے، جو عموماً لوگوں کو ناگوار ہی گزرتی۔ کہتے تھے کہ’’ کسی کو دھوکے میں رکھنے سے بہتر ہے کہ منہ پر سچ بول کر بُرا بن لیا جائے۔‘‘ مجھے اُن کی عاجزی، انکساری اور رحم دِلی نے بہت متاثر کیا۔ اُن کا شمار گائوں کی بااثر شخصیات میں ہوتا تھا، مگر اس کے باوجود کسی سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کے آرام کے لیے کوشاں رہتے۔ اپنے اثرو رسوخ کو ہمیشہ عوامی بھلائی ہی کے لیے استعمال کیا۔ خوش خوراکی اور فٹنس کی وجہ سے 83برس کی عُمر میں بھی بغیر عینک کے بڑے ذوق و شوق سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔

اسلامی شخصیات، مسلم شعرا اور اُردو ادب سے غیر معمولی دل چسپی تھی، تاہم اخبارات کا مطالعہ کم ہی کرتے، بس سُرخیوں پر نظر ڈال لیا کرتے اور ٹیلی ویژن سے بھی دُور ہی رہتے، البتہ ہفتہ وار اور ماہانہ رسائل کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرتے اور اُن میں چَھپنے والے مضامین پر تبصرے بھی کرتے۔ بچّوں کو نماز اور مطالعے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ گو کہ مجھے اُن کی صحبت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملا( وہ میری شعوری عُمر سے پہلے ہی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے)، لیکن جتنی دیر بھی اُن کی صحبت میں رہا، بہت کچھ سیکھا۔ آج جس مقام پر ہوں، یہ اُن کی شفقت، اخلاقی تربیت اور دعائوں ہی کا نتیجہ ہے۔ اللہ ربّ العزّت اُنہیں کروٹ کروٹ جنّت عطا فرمائے (آمین)۔ ایک شعر اُن کی نذر ہے؎ زندگی جن کے تصوّر سے جِلا پاتی ہے…ہائے کیا لوگ تھے، جو دامِ اجل میں آئے۔

(ملک محمّد رضوان، نشیمنِ اقبال، واپڈا ٹاؤن، لاہور)

تازہ ترین
تازہ ترین