عام انتخابات کاپہلامرحلہ مکمل ہوگیا سندھ بھر سے 243قومی ، صوبائی اور مخصوص نشستوں کے لیے پانچ ہزار کے قریب نامزدگی فارم وصول کئے گئے بعض امیدواروں نے کئی کئی فارم پر کئے کراچی کی 65 نشستوں پر 2 ہزار کے قریب فارم وصول کرلیے گئے متحدہ قومی موومنٹ میں دھڑے بندیوں کے بعد پی پی پی سمت دیگر جماعتوں نے ان حلقوں سے بھی امیدوار نامزد کردیئے جہاں سے یہ جماعتیں کبھی امیدوار کھڑے کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی اس مرتبہ کراچی کے حلقوں کے نتائج پر پورے ملک کی نظر ہے جس کی وجہ نئی حلقہ بندیاں اور متحدہ قومی موومنٹ کے اندر گروپ بندیاں ہیں تاہم کراچی کے حلقہ این اے 243 جو گلشن اقبال، گلستان جوہر، جوہر کے کچھ بلاکس، بہادرآباد، شریف آباد اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے خصوصی توجہ کا مرکز ہے یہ حلقے سابقہ این اے 251 اور 252 کے علاقوں پر مشتمل ہے اس حلقے سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال، متحدہ(پی آئی بی کے) کنوینرفاروق ستار، سابق ایم این اے رشیدگوڈیل، پی پی پی کی شہلا رضا، سمت انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں تاہم اس حلقے میں اصل مقابلہ ایم کیو ایم ، پی ٹی آئی، ایم ایم اے اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان ہوگا ماضی کی نسبت اس مرتبہ کراچی کے 21 قومی اسمبلی حلقوں کے نتائج حیران کن ہوں کراچی سے اس مرتبہ دس کے قریب سیاسی جماعتوں کے سربراہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں شہبازشریف، عمران خان، بلاول بھٹو،فاروق ستار، خالدمقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال، آفاق احمد،ثروت قادری اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے سربراہ شامل ہے کراچی کے حلقوں سے متعلق قبل ازوقت پیشن گوئی بھی ناممکن ہوگئی ہے نئی حلقہ بندیاں نتائج پر بھی اثرانداز ہوں گی پیپلزپارٹی کے خلاف سابقہ پی این اے طرز کا اتحاد تشکیل دینے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے لاڑکانہ میں قومی کی دو اورصوبائی کی چار نشستوں پر ایم ایم اے، پی ٹی آئی، شیخ برادری، جی ڈی اے اور دیگر مقامی اتحاد پی پی پی کے خلاف میدان میں آگئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور جی ڈی اے نے مشترکہ الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے سندھ کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے اور پیپلزپارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ایک مدت سے سندھ پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی کی مشکلات بڑھ گئیں ذوالفقار مرزا اپنی اہلیہ فہمیدہ مرزا کے ساتھ پہلے ہی جی ڈی اے سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ گرینڈڈیموکریٹک الائنس(جی ڈی اے) نے الیکشن تحریک انصاف سے مل کر لڑنے کا اعلان کیا ہے دونوں کے درمیان اتحاد پیپلزپارٹی کے خلاف ہے تاکہ اسے حکومت بنانے کے لیے درکاراکثریت کے حصول سے روکا جاسکے۔ جی ڈی اے کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے عمرکوٹ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے این اے 220 سے شاہ محمودقریشی کے حق میں دست بردار ہونے کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام کو جاگنا ہوگا شاہ محمودقریشی نے کہاکہ سندھ میں تبدیلی کی لہرچل پڑی ہے ظلم اور ناانصافی کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ادھرایم کیو ایم پی آئی بی اور بہادرآباد ایک ہوگئے، فاروق ستار اور ساتھیوں نے ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی کو پارٹی سربراہ تسلیم کرلیا۔ علی رضاعابدی اور سرداراحمد نے تصدیق کردی۔ ایم کیو ایم پی آئی بی نے ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی کی سربراہی تسلیم کرتے ہوئے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار بھی رابطہ کمیٹی کو دے دیا تاہم بہادرآباد نے واضح کیا ہے کہ فاروق ستار کو بھی لے آئیں مگر کامران ٹیسوری کسی صورت قبول نہیں۔یہ بھی کہاجارہا ہے کہ یم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑوں میں اتحاد کے باوجودٹکٹوں کی تقسیم پر اب تک اختلافات برقرارہیں پی آئی بی گروپ کے اہم رہنماؤں نے فاروق ستار کے ساتھ کام نہ کرنے کے اشارے دے دیئے، 27 جون کے بعد ایک بار پھر اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔پی آئی بی گروپ کے لیبرڈویژن کے انچارج کاشف انجینئر نے فوری طور پر وڈیوپیغام جاری کردیا جس میں واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ اگرفاروق ستار بہادرآباد گروپ کے ساتھ الیکشن لڑتے ہیں تو پھر ہم فاروق ستار کا ساتھ نہیں دیں گے جبکہ پی آئی بی گروپ کے سینئر رہنما اور ڈپٹی کنوینرشاہد پاشا نے کہاکہ بہادرآباد گروپ اپنے من پسند افراد کوٹکٹ جاری کررہا ہے اور یہ لوگ فاروق ستار کو استعمال کرنے کے لیے اپنے ساتھ ملارہے ہیں انہوں نے کہاکہ فاروق ستار کو چند ٹکٹوں کے لیےبہادرآباد گروپ کے ساتھ مل رہے ہیں اگر وہ ملے توہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ شاہد پاشا نے کہاکہ فاروق ستار نے جب سے اعلان کیا کہ وہ بہادرآباد کے ساتھ الیکشن لڑیں گے ،ذرائع پی آئی بی گروپ کے مطابق اے پی ایم ایس او کے بھی کچھ کارکنان نے بہادرآباد کے ساتھ مل کرالیکشن لڑنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔دوسری جانب بانی متحدہ نے مہاجرعوام سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے جس کی وجہ سے بعض حلقوں سے متعلق کراچی میں ٹرن آؤٹ کم ہوسکتا ہے۔ اب تک پی پی پی واحد جماعت ہے جس نے سندھ سے 184 حلقوں پر ٹکٹ جاری کردیا تاہم پی پی پی کو بعض حلقوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انہیں کئی اہم امیدوار نظرانداز کرنے پڑے ہے جس کا انہیں سیاسی نقصان ہوگا این اے 200 سے بلاول بھٹو کا مقابلہ ایم ایم اے کے صوبائی صدر راشد سومرو کریں گے یہ حلقہ پہلے این اے 207 کہلاتاتھا اس حلقے سے شہیدبے نظیربھٹو کا مقابلہ شہید ڈاکٹرخالدسومرو کرتے تھے اب اس حلقے سے شہید کے بیٹے کا مقابلہ شہید کا بیٹاکرےگا راشد محمدسومرو شکارپور کے صوبائی حلقے سے بھی امیدوار ہے جہاں وہ پی پی پی کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر شدید اختلافات ہے ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی کے کراچی آفس میں کارکنوں نے توڑپھوڑ بھی کی اور عارف علوی کو دھکے بھی دیئے مسلم لیگ (ن) بھی سندھ کے صرف چند حلقوں سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرسکی ہے مسلم لیگ(ن) سندھ کے صدرشاہ محمدشاہ کراچی کے حلقے این اے 238 اور میٹاری کے حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے دوست محمدفیضی کراچی کے حلقہ این اے 256 سے میدان میں اترے ہیںاین اے 246 سے بلاول بھٹو کا مقابلہ مسلم لیگ(ن) کے سلیم ضیاء کررہے ہے جبکہ مفتاح اسماعیل بھی کراچی کے حلقے سے الیکشن لڑرہے ہے اور ادھر سکھر میں انتخابات کے حوالے سے گہماگہمی عروج پر پہنچ گئی ہے سکھر کاحلقہ این اے 206 اہمیت اختیار کرگیا ہے اس حلقے سے سابق اپوزیشن خورشید شاہ کا مقابلہ جی ڈی اے کی نصرت سحر عباسی سے گا، اسی حلقے سے ایم ایم اے کے راشدسومرو نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں این اے 207 اور اس کے ساتھ پی ایس 24,23,22 اور پی ایس 25 میں سخت مقابلے کی توقع ہے جہاں پی پی پی اور جی ڈی اے اور ایم ایم اے کے امیدوار آمنے سامنے ہیں ۔