انتیس اکتوبر سال دوہزار سولہ کی بات ہے ۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ڈان لیکس کے باعث ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے۔ صبح گیارہ بجے وزیراعظم ہائوس میں واقع وزیراعظم کے دفتر میں غیر معمولی گہما گہمی تھی۔ اس وقت کمرے میں وزیرداخلہ چوہدری نثار ، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد سب موجود تھے۔ کمرے میں ماحول پر خاموشی کا غلبہ تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی اہم فیصلہ ہوچکا ہے اور کچھ اہم ترین ہونے جارہا ہے۔ سب وزیراعظم نواز شریف کے کسی بھی وقت آنے کے منتظر تھے۔ اسی ماحول میں وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز ، چہرے پر سنجیدگی اور افسردگی کے تاثرات سجائے ، کمرے میں داخل ہوئیں اور کرسی پر بیٹھے پرویز رشید کے سامنے دو زانو جھک گئیں اور پرویز رشید کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر بولیں ، انکل ابو نہیں آسکتے ، ابو آپ سے بہت شرمندہ ہیں ، وہ آپکا سامنا نہیں کرسکتے َ۔ پرویز رشید نے مریم نواز کے سرپر ہاتھ رکھا ۔ مریم کو اٹھایا اور کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ، " میں نے تو پہلے بھی کہا تھا ، اگر میری وجہ سے حکومت کو کوئی نقصان ہے تو میں ہٹ جاتا ہوں ، استعفیٰ دے دیتا ہوں ، یا مجھے برطرف کردیں"۔ کمرے میں پراسرار خاموشی تھی ۔ مریم نواز نے پرویز رشید کو دیکھا اور ایک بار پھر مخاطب کرتے ہوئے کہا ، انکل وہ سخت ناراض ہیں اور ابو آپ سے بہت شرمندہ۔ پرویز رشید جو شاید اس وقت تک سب سمجھ چکے تھے ، مسکرائے اور گویاہوئے ، نہیں میاں صاحب شرمندہ نہ ہوں ۔ میں تیار ہوں جیسا آپ سب چاہیں۔ پرویز رشید کی طرف سے اپنی جماعت کے لیے یہ ایک فراخدلانہ پیشکش تھی۔
" میرے خیال میں برطرفی کی بات درست ہے ، پہلے ہم یہ خبر ٹی وی پر لیک کرتے ہیں اور پھر باقی کام۔ اس سے پیغام ٹھیک جائے گا"، کمرے میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی آواز گونجی۔ پرویز رشید خاموش رہے۔ یقیناََان کے دل پرگراں گزرا ہوگا کہ ان کی فراخدلانہ پیشکش پر ان کے اپنے دوست کسی کو خوش کرنے کے لیے انہیں وزارت کے عہدے سے باعزت رخصت کا موقع بھی نہیں دے رہے۔ پرویز رشید نے کمرے میں موجود تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور مسکراتے ہوئے چل دئیے۔ شام تک یہ خبر ٹی وی چینلز کی سب سے بڑی شہ سرخی تھی اور رپورٹرز اپنے اپنے واسطوں اور رابطوں سے خبر کی تفصیلات لے کر بریکنگ نیوز دے رہے تھے۔ شام آٹھ بجے سے رات گیارہ بجے تک ٹی وی اینکرز اسی خبر پر عوام کے سامنے اپنی اپنی نوٹنکی کررہے تھے ۔ ان دنوں یہ بھی طشت ازبام تھا کہ پرویز رشید کی بعض تقاریر کے کچھ حصوں پر مبنی ایک ویڈیو سی ڈی بھی وزیراعظم نوازشریف کو دکھائی گئی تھی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ پرویزرشید اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بیررکھتے ہیں حالانکہ پرویز رشید تو غیر جمہوری رویوں کے ناقد تھے۔ پرویز رشید اپنی وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اف تک نہ کی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پرویز رشید سیاست میں ستر کی دہائی سے سرگرم رہے ۔ بلکہ وہ ستر کی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں بھٹو کے اقتدار کے آخری دوسالوں میں اس وقت وزیراعلیٰ سرحد کا مشیر بھی مقرر کیا گیا ۔ لہذا وہ اقتدار اور اقتدار کے نشیب و فراز سب سے واقف تھے اور پارٹی کے وفادار بھی۔ اس واقعے میں چوہدری نثار علی خان نے جومبینہ کردار ادا کیا وہ بظاہر نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کی دوریاں ختم کرنے کی کوشش تھی۔ ماضی میں بھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے رابطہ کارکا ہی کام سرانجام دیتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف دونوں کی دوریاں تو ختم نہ ہوئیں مگر اس روز چوہدری نثار کی طرف سے پرویز رشید کی برطرفی کی تجویز نے کہیں پرویز رشید کے دل میں بھی گرہ لگا دی تھی۔ بعد کے حالات میں جب نوازشریف اور چوہدری نثار کی دوریاں بڑھیں تو نثار کے دل میں بھی شاید یہی بات در آئی کہ پرویز رشید ان کے خلاف کوئی سازش کررہے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر سامنے آگئے۔ اقتدار کے کھیل میں بادشاہوں کو عقل اور وفاداری کی یکساں ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر دونوں میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو ہمیشہ وفاداری فوقیت حاصل کرتی ہے ۔ دونوں اکٹھی مل جائیں تو کیا ہی بات ہے۔ یہ اصول آج کا نہیں اس روز کا ہے جس روز دنیا میں پہلا شخص اقتدارمیں آیا تھا۔ اقتدار میں چھوٹی سی بات اور تلخی وفاداری کو شک میں ڈالتی ہے اور شک دوریاں پیدا کرنے میں وہی کردار ادا کرتا ہے جو بھڑکتی آگ پر تیل۔ یہی کچھ چوہدری نثار کے ساتھ بھی ہوا۔ چوہدری نثار نے کلثوم نواز کی علالت کےد وران محترم سلیم صافی کو انٹرویو دیا اور مریم نواز پریہ کہتے ہوئے طنز کیا کہ ، " بچے تو غیر سیاسی ہوتے ہیں،"۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب مریم نواز اپنی علیل والدہ کا الیکشن ایک طاقتور کمپنی کے خلاف لڑ رہی تھیں ۔ اقتدار سے نکلے نوازشریف لندن میں اپنی اہلیہ کی تیمارداری کررہے تھے ایسے میں تلخیوں سے بھرپور انٹرویو نے نوازشریف اور ان کے بچوں کے دلوں میں چوہدری نثار کے بارے نفرت کے وہ بیج بو دئیے کہ شاید ہی ان کو تلف کیا جاسکے لیکن کبھی ان کی طرف سے کوئی چیز طشت ازبام نہ ہوئی۔
چار مارچ کو پنجاب ہائوس میں چوہدرِی نثار سے میری ملاقات ہوئی ۔ جس میں دیگر بہت سی باتوں کے ساتھ یہ معاملہ بھی زیر گفتگو رہا ۔ میں نے عرض کیا کہ میرا مریم نواز سے کوئی تعلق نہیں تاہم مجھے ان کے انٹرویو میں کیے گئے طنز سے زاتی طور پر رنج ہوا۔ اس پر چوہدری نثار نے کہا کہ ، میرے دل میں جو تھا وہ کہا ، کوئی منافقت نہیں کی ۔ اس وقت تک میرا گمان تھا کہ چوہدری نثار پارٹی چھوڑیں گے نہ پارٹی انہیں چھوڑے گی۔ مگر آئندہ آنے والے دنوں میں باہمی تلخیاں اتنی بڑھ گئیں کہ اب شاید واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ مگر خواجہ سعد رفیق جیسے رہنما آج بھی کوشاں ہیں کہ کسی طریقے سے چوہدری نثار کو واپس پارٹی میں لایا جائے۔ کہتے ہیں دوستوں کی لڑائی سے گھٹیا کوئی لڑائی نہیں ہوتی۔ جس کے ساتھ ایک باردوستی ہوجائے تو کسی ناراضی پر بھی باہمی اعتماد کی باتیں لوگوں میں کرنے سے اپنا وقار ہی کم ہوتا ہے ۔ دوستوں کی لڑائی میں باہمی خاموشی زیادہ باوقار ہوتی ہے ۔ جون ایلیا نے خوب کہا تھا ، بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم ؟ شاید چوہدری نثار یہ نہیں سمجھے۔ ویسے گلے ان کے بھی بہت ہیں۔ چوہدری نثار کی تنقید کے بعد مریم نواز عملی طورپر پرویز رشید کو اپنا سیاسی گرو مان چکی ہیں۔ شریف خاندان نے چوہدری نثار کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کے فلسفے کو مسترد کرکےعملی طورپر پرویز رشید کے سویلین بالادستی کے فلسفے کو فوقیت دے دی ہے ۔ سویلین بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ، دونوں فلسفے ایک دوسرے کی ضد ہیں لہذا ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ نوازشریف کی طرح چوہدری نثار نے بھی اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز جنرل ضیا کی چھتری تلے کیا۔ شاید چوہدری نثار آج بھی ضیاالحق کے فلسفے پر قائم ہیں جبکہ نوازشریف پرویزرشید کی مدد سے ضیاالحق کا فلسفہ ترک کرکے آگے بڑھ چکے۔ فلسفے کی یہ جنگ نوازشریف ، چوہدری نثار یا پرویز رشید کی جنگ نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے اندر جاری بڑی جنگ کی ایک چھوٹی لڑی ہے ۔ جو پاکستان میں جنرل ایوب کے اقتدار میں آنے کے دن سے جاری ہے اور آئندہ نجانے کتنے عرصے تک جاری رہے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)