عید کے تیسرے دن بہت سے لوگ سپریم کورٹ میں جمع تھے ۔اس سے پہلے شاید ایسی عدالت کبھی نہ لگی ہو ۔ صوبائی انتظامیہ، وکلا صحافی، سماجی کارکن اور خواجہ سرائوں کی ایک بہت بڑی تعداد۔۔۔ چیف جسٹس پاکستان اپنی کرسی پہ براجمان ہوئے اور گزارشات پیش کرنے کا حکم صادر ہوا ۔ ’’ محترم جناب چیف جسٹس! میں شکر گزار ہوں کہ آپ نےمعاشرے کے سب سے محروم طبقے یعنی خواجہ سرائوں کو توجہ کا مستحق سمجھا اور عید کے دنوں میں عدالت لگائی‘‘۔ میں نے اپنی آواز کے زیروبم اور جذبات پہ قابو پاتے ہوئے کہا ۔ ’’ جناب والا ! اچھے معاشرے ، دولت کی ریل پیل سے نہیں اس امر سے پہچانے جاتے ہیں کہ وہاں محروم طبقوں سے کیا سلوک کیا جاتا ہے ۔ کیا کوئی یتیم کو گلے لگاتا ہے، کسی مفلس اور قلاش کے آنسو پونچھتا ہے ، کسی بیوہ کے سر پہ ہاتھ رکھتا ہے۔ کسی بے سہارا کا سہارا بنتا ہے۔ آج آپ نے جن لوگوں کو داررسی کے لیے طلب کیا وہ ایسے ہی لوگ ہیں۔ ان کے بہت سے نام ہیں لیکن کچھ لوگ انہیں خواجہ سرا بھی کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا سب سے محروم طبقہ۔ غربت،افلاس، دکھ درد،محرومی اور استحصال۔ا ن کے بدن اور روح پر بہت سے زخم ہیں۔ یہ زخم اور ان زخموں سے رستا ہوا خون پوچھتا ہے کہ کیا ہم کسی اور خدا کی مخلوق ہیں؟جناب والا! غربت کیا ہے؟ تعلیم کا نہ ہونا،صحت کا نہ ہونا، روزگار کانہ ہونا، عزت کا نہ ہونا، وارثت کا نہ ہونا، کسی ایسی چھت کا نہ ہونا جو دھوپ کی تمازت سے بچا سکے اور اگر کوئی بدنصیب شخص ان تمام محرومیوں کا شکار ہوتو اس کی غربت کا کیا عالم ہوگا ، وہ کتنا غریب ہوگا ۔ خواجہ سرا ان تمام محرومیوں کا شکار ہیں۔ نہ ان کے پاس تعلیم ہے ، نہ صحت ہے ، نہ گھر ہے اور نہ ہی وہ عزت وآبرو کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ کسی خزاں رسیدہ درخت کے پتوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر۔۔۔ اور پھر ایک روز دکھ کی چتا میں جلتے یہ لوگ مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔جناب والا ! تنہائی اور بے چارگی کا شکار یہ خواجہ سرا ۔ بھری دنیا میں کوئی کندھا ایسا نہیں جس پہ سر رکھ کے یہ لوگ آنسو بہا سکیں۔ ان کے ساتھ نفرت اور بدسلوکی کا آغاز بچپن سے ہی ہوتا ہے، جب ماں باپ انہیں وہ محبت نہیں دیتے جو دوسرے بچوں کو ملتی ہے۔ ان کی بے چین روح رات بھرسسکیاں بھرتی ہے اور ان کے خواب آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتے ہیں۔ ایک روز یہ مجبور ہوکر گھر سے نکل جاتے ہیں یا نکال دیئے جاتے ہیں۔ دربدر کی ٹھوکریں ، طنز کے نشتر، بھوک اور جنسی تشدد انہیں کسی گرو کے ڈیرے پر پناہ لینے پر مجبور کردیتا ہے اور پھر وہ زندگی شروع ہوتی ہے جس کے دکھ شاید کوئی بھی بیان نہ کرسکے۔ جب تک یہ نوجوان ہیں انہیں سیکس ورکرز بنا کر ان کی بوٹیاںنوچی جاتی ہیں یا ان کے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر نچایا جاتا ہے۔ ان گھنگھرو کی بازگشت میں درد کی جو کیفیت جھلکتی ہے اسے ہم محسوس نہیں کرتے۔ جوانی ڈھلتی ہے تو نئے المیے رونما ہونے لگتے ہیں۔ ایڈز، کالا یرقان، ہیپاٹائٹس، بلڈ پریشر،جنسی اور جلدی امراض۔ کوئی ایسی بیماری نہیں جوانہیں لاحق نہ ہوچکی ہو ۔ذیا بیطس، دمہ،ٹی بی اور پھر سب سے بڑھ کر ذہنی اور جذباتی خلفشار، تنہائی اور ڈپریشن۔ مائی لارڈ! اگر آپ اجازت دیں تو تحریم نامی ایک نوجوان کی کہانی سنائوں۔ یہ کہانی یادآتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ ایک کم عمر خوبرو خواجہ سرا جسے پانچ اوباش لوگوں نے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا اور ساری رات جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ۔ جب درندگی کا یہ کھیل ختم ہوا اور معصوم تحریم کا جسم خون میں لت پت ہوگیا تو وہ درندے اسے برہنہ حالت میں ایک بڑی سڑک کے کنارے چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔ کسی نے اس معصوم کو پاگل کہا ۔ کسی نے پتھر پھینکے۔ کسی نے گالیاں دیں لیکن وہ زخموں کو چھپاتا، روتا سسکتا کسی نہ کسی طرح اسپتال پہنچا اور پھر ہوش کھو بیٹھا۔ تین دن کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ اس واقعہ کو یاد کرکے اس بے چارگی سے رویا کہ عرش بریں بھی اس کی کراہوں سے ہل گیا ہوگا۔ جناب والا ! ہزاروں خواجہ سراوں کی کم وبیش یہی کہانی ہے۔ دکھ درد، آنسواور سسکیاں۔ مائی لارڈ! اس جرم میں ہم سب شریک ہیں۔ ماں باپ، معاشرہ اور ریاست۔ ان کے ساتھ ہونے والا سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ ہم نے ان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا۔ ان کی کوئی شناخت ہی نہیں۔ جس شخص کے پاس شناختی کارڈ نہ ہو اس شخص پر بنیادی حقوق کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ نہ تعلیم اور جائیداد مل سکتی ہے نہ ملازمت ، نہ وہ بینک جاسکتا ہے، نہ عمرہ یا حج کی سعادت حاصل کرسکتا ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ صدہابرس کے ظلم وستم کا یہ باب اب ہمیشہ کے لیے بند ہو ۔ ان کی زندگی انہیں دوبارہ لوٹادی جائے ۔ ان کے حقوق کوتسلیم کیا جائے اور ان حقوق کی فراہمی ریاست کے ساتھ ساتھ ہر خاص وعام پر لازم ہو ۔ پہلے قدم کے طور پر ان کے شناختی کارڈ بناکر ان کے وجود کا اعتراف کیا جائے۔ دوسرا قدم یہ کہ حقارت بھرے ناموں سے پکارنے کی بجائے انہیں، انہی کا منتخب کردہ نام، خواجہ سرا، دے دیا جائے ۔ شاید یہی دوقدم ان کی عزت نفس لوٹانے کا نقطہ آغاز بن جائیں۔ ایک جامع حکمت عملی کے ذریعے ان کی تمام محرومیوں کا خاتمہ، یعنی تعلیم،صحت، تربیت، روزگار یہ سب تو بہت بعد کی باتیں ہیں‘‘۔ غم کی یہ کہانی بہت طویل نہیں تھی ۔ غم کی کہانی طویل ہوتی بھی نہیں۔ میں نے اپنی بات مکمل کی اور سرجھکا کر خاموشی اختیار کرنے لگا ۔چیف جسٹس جناب ثاقب نثار اور ان کے ساتھی جج جناب اعجاز الاحسن نے ان باتوں کو بہت توجہ اور انہماک سے سنا۔ہمہ تن حیرت ،گوش۔ ان کے چہروں کے تاثرات، درد کی کیفیت کے غماز تھے۔ کمرہ عدالت میں بیسیوں لوگ موجود تھے لیکن مجھے گاہ، گاہ یوں لگا کہ ہر طرف مکمل سناٹا اور گہری خاموشی ہے۔ عدالت نے خواجہ سرائوں کی باتیں بھی انتہائی محبت سے سنیں۔ پرسوز اور پردرد۔ ان میں شکوہ وشکایت بھی تھی، گریہ وزاری بھی ۔ محرومی کی یہ کہانیاں کسی عدالت نے اس تحمل سے کب سنی ہوں گی۔ یہ غم ہی تھا جو کسی کو عید کے دنوں میں یہاں لے آیا۔ بیسیوں خواجہ سرا کمرہ عدالت میں خاموش بیٹھے تھے ۔ آب دیدہ۔ لیکن ان کی یہ خاموشی بھی ایک دعا تھی ۔ شاید یہی وہ دعا ہے جو پلک جھپکتے ہی خدا کے حضور پہنچ جاتی ہے۔ عدالت کا فیصلہ وہی تھا جوسب کے دل کی آواز تھی ۔ ’’ خواجہ سرائوں کے ساتھ کوئی ظلم برداشت نہیں ہوگا ان کا حق ان کی دہلیز پہ دیا جائے گا ۔ کوئی انہیں تمسخر اور حقارت کا نشانہ نہ بنائے۔ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتیں بنائی جائیں۔ یہ سارے کام دومراحل میں ہوں۔ پہلے مرحلہ میں شناختی کارڈ بنانے کا آغاز اور پھر اس کے بعد وہ سفارشات جن میں بتایا جائے کہ ان معصوم لوگوں کوان کے حقوق کیسے لوٹائے جاسکتے ہیں‘‘۔ تین گھنٹوں بعد عدالت برخاست ہوئی۔ کسی نے کہا شاید یہ ایک نئے دور کا آغاز ہو ۔ ایک ایسا دور جب ان مظلوموں کی شنوائی ہوگی ۔ انہیں گلے سے لگایا جائے گا۔ ان کے آنسو پونچھے جائیں گے۔ ہم سب مل جل کر وہ کندھا بنیں گے جس پہ سررکھ کر یہ دوآنسو بہا سکیں گے ۔ ( خواجہ سرائوں کے حقوق کے بارے میں سوموٹوایکشن پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو بیان)
(صاحب مضمون ایگزیکٹو ڈائیرکٹر ،چیئرمین، اخوت )