• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واشنگٹن میں واقع پیسفک نارتھ ویسٹ نیشنل لیبارٹری (پی این این ایل ) کے ماہرین نے ایل سی ڈبلیو سپر کریٹکل ٹیکنالوجیز کی مدد سے ایٹمی صنعتوں کے لیے ایک کام یاب تجربہ کیاہے،جس کے ذریعے پور ی دنیا میںیورینیئم کا حصول ممکن ہو جا ئے گا ۔اس طریقے کو بجلی بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکے گا ۔ ماہرین نے سمندری پانی سے 5 گرام پیلے رنگ کا کیک نکالا ہے جو یورینیئم کا دوسرا نا م ہے ۔اس عمل میں دھاگے نما ریشے استعمال کیے گئے ہیں ۔ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا پہلا عمل ہے، جس میں عام کھارے پانی سے یورینیئم نکالا کیا گیا ہے۔سمندری پانی میں نمکیات، پوٹاشیئم، سلفیٹس، برومائیڈ، فلورائیڈ اور یورینیئم کی معمولی مقدار موجود ہوتی ہے۔ ایک لیٹر سمندری پانی میں تین مائیکرو گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود زمینی ذخائر سے 500 گنا زائد یورینیئم سمندروں میں بھرا ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یو رینیئم کی اتنی مقدار 100,000 برس تک ایک گیگا واٹ کے ایک ہزار ایٹمی بجلی گھر چلانے کے لیےکافی ہے۔

اس سے قبل سمندر سے یورینیئم کشید کرنے کے بے شمارطریقے وضع کیے گئے ہیں لیکن یہ تمام طریقے کافی مشکل اورمہنگے تھے اسی لیے ان میں خاطر خواہ کام یابی نہیں مل سکی ،تا ہم اب پی این این ایل کے ماہرین اور ایل سی ڈبلیو کمپنی نے عام دھاگے سے یورینیئم جذب کرنے والی ایک چٹائی بنائی ہے لیکن فی الحال اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں ۔ماہرین کے مطابق دھاگے کی چٹائی میں جمع یورینیئم نکا ل کر اس نظام کو بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ان دھاگوںکو ٹینک میں رکھا جاتا ہے ،جس میں سمندری پانی ڈال کر گھمایا جاتا ہے ۔ اس عمل میں یورینیئم کے ایٹم دھاگے ایٹمی بونڈ کے ذریعے جڑتے جاتے ہیں۔ اس طرح ماہرین نے 5 گرام یورینیئم حاصل کی ہے اور اس میں ایک مہینہ لگا ہے۔پی این این ایل کے ماہرین کا خیال ہے کہ سمندروں میں یورینیئم کے بھرپور ذخائر ہیں جن سے بھر پورا ستفادہ کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین