• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھری باسیوں کا گھر ’چونئرا‘

عبدالغنی بجیر،تھرپارکر

صحرائے تھر کے دیہات کی خوبصورت عکاسی و منظر نگاری تھری چونئروں (جھونپڑوں)سے ہی وابستہ ہے۔تھرکے کل 23سودیہات میں لاکھوں چونئرے ،تھر کی شناخت بنے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر تھری مکین اپنا چونئرا خود ہی بنا تے ہیں، جس میںمرد و خواتین کی مشترکہ محنت ایک چاشنی کی مانند ہے جو ایک ساتھ کام کرنے کو جلا بخشتی ہے۔گھا س اور مٹی کے سنگم سے بنی اس عمارت کا نصف حصہ مرد اور نصف خواتین بناتی ہیں ۔بنیادی ڈھانچے کے لیے دیہی عورتیںگائوں کے مخصوص علاقے سے سخت مٹی کا چنائو کرتی ،اسے گوندھ کر اینٹیں بناتی ہیں۔ جس کے سوکھنے کے بعد گول دائر ہ نما دیوار کھڑی کی جاتی ہے، اس کی بلندی پانچ فیٹ اور گولائی 20سے 30 اسکوائر فیٹ ہوتی ہے۔

یہ مرحلہ کچی اینٹوں اور گارے کے مکسچر سے مکمل ہوتا ہے۔درمیان میںایک دروازہ بنایا جاتا ہے اور باقی دو نوں اطراف میں چھوٹی سی کھڑکیاں بنائی جاتی ہیں،چوں کہ اس کی چھت بھی ہوا کے گزر کے لیےموزوںہوتی ہے، اس لیے اکثر کھڑکیا ں برائے نام ہی چھوڑی جاتی ہیں ۔دیوار کے آخری حصہ پر چار انچ کی گول شیلف بھی بنایا جاتا ہے، جسے مقامی زبان میں ’’آلڑہ ‘‘کہا جاتا ہے ۔یہ مختلف چھوٹی بڑی اشیاء کورکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے سرمے دانی ،چھوٹا آئینہ ،تیل کی شیشی،دستکاری کا سامان یا اس میں گھر کے برتن بھی سجائے جاتے ہیں۔

بالائی حصے کی چھت کی تعمیر تکون نما کی جاتی ہے ۔ لکڑیوں کو اوپر جوڑنے اور مضبوط رکھنے کے لیے ایک لکڑی کا سانچا تیار کیا جاتا ہے، جس کو مکڑہ کہتے ہیں۔جس چونئرے میں بارہ لکڑیا ںاوپر ستون کی طور استعمال ہوتی ہیں اس کے مکڑہ میں چھ سوراخ کیے جاتے ہیں، باقی چھ لکڑیوں کو سائیڈ سپورٹ کےطور پرلگایا جاتا ہے، تاکہ اوپر اس سانچہ کا توازن برقرار رہ سکے ۔اکثر لوگ چونئر کے اوپر ملنے والی چھت کی ایک فیٹ رہنے والی گولائی میں آر سی یعنی شیشیہ بھی لگا دیتے ہیں ،جس سے اس کی خوب صورتی میں چار چاند لگ جاتے ہیں،بعد ازاں اوپر تیز اور باریک سی مضبوط قسم کی لکڑیوں کا جال بچھایا جا تا ہے اور انہیں کھپ نامی جھاڑیوں سے بنی رسی سے پرویا جاتا ہے۔جس کے بعد آخری مرحلے میں گھاس کے تنکے جن کو پہلے کاٹ کر سیدھا لیول میں لایا جاتا ہے اور بعد میں اس کو ٹھیک طرح سے چو گرد گھیر کر مکمل طور پر ڈھانپ دیا جاتا ہے یوں ایک نئے بننے والے چونئرے کو دو سے تین تہہ دیئے جاتے ہیں ۔جس کو نیچے دیوار تک لے جانے کے بعد چھتری نما کاٹ کر مزید بہتری لائی جاتی ہے، تاکہ بارش کا پانی دیوار پر لگنے کے بہ جائے نیچے بہہ جائے۔

تھری باسیوں کا گھر ’چونئرا‘

عام طور پر ہر گھر میں دو سے تین چونئرے ہوتے ہیں اور کچن کی طور استعمال ہونے والے چونئرے کے علاوہ باقی فی چونئرے میں ایک خاندان رہتا ہے ۔جس میں کھانے پکانے کے لیےایک کونے میں چولہا اور بستر رکھنے کے لیے بھی صندوق کی طرح مٹی کی الماری بنائی جاتی ہے، جسے تھری زبان میں’’ پیھی یا ڈھانچی ‘‘کہتے ہیں۔جس کا بالائی حصہ بستر رکھنے اور اندرونی حصہ گھر کے برتن وغیرہ رکھنے کے کام میں لایا جاتا ہے، یوں یہ گھاس اور مٹی سے بنی یہ عمارت تھری باسیوں کے لیے ایک پُر آسائش گھر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک بڑے خاندان کے گھر میں یہ چھونپڑے قطار میں یا نصف گولائی میں ترتیب دیئے جاتے ہیں تا کہ گھر کے ایک طرف سے پردہ بھی ہو سکے اور آنگن بھی کھلا کھلا ہو۔

تھری باسیوں کا گھر ’چونئرا‘

جس کو مویشیوں کے گوبر سے بنا کر ایک سے دو فیٹ کا کچا کٹہرہ لگا کر مٹی سے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔جس کی نقش و نگاری میں گائوںکی ماہر خواتین کی بھی مدد لی جاتی ہے۔یہ چونئرے گھاس سے بننے کے بعد اور مینا برسنے سے قبل ہرے رنگ کے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ بارش ہونے کے بعد یہ گھاس کالی ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے گائوں پر نظر ڈالی جائے ، تو سرخ ریتیلے ٹیلوں کے درمیان بنے یہ سیکڑوں بلند و بالا چونئرے ایک سے نظر آتے ہیں ۔تھر کے کسی بھی ریتیلے ٹیلے پر چڑھا جائے، تو بآسانی کسی نہ کسی گائوں کا دھندلاتا منظر نظروں کو کھینچ کر اپنی جانب متوجہ کرالیتا ہے۔یوں بارش کے بعد ان کیخوب صورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں، کیوں کہ بارشوں سے ان کے اوپر سے جہاں مٹی دُھل جاتی ہے وہاں شجر اور ریت دھلنے سے ماحول انتہائی دلفریب نظر آتا ہے، اندر سے یہ گھر ٹھنڈے اور مزید فرحت بخش محسوس ہوتے ہیں۔

ان گھروں میں طرز رہائش بھی انوکھی اور پ اپنی مثال آپ ہے، اندر سونے یابیٹھنے کے دوران اس کی چھت کی طرف دیکھا جائے گا تو گھاس کے تنکوں کے ہلکے سوراخوں سے آسمان تاروں کی طرح نظر آئے گا ،مگر اس بات کی بھی سوفی صد ضمانت ہوتی ہے، کہ ان سوراخوں سے بارش کا ایک قطرہ بھی اندر نہیںآتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی گھاس کی تکون نما ترتیب کے باعث نیچے اتر جاتا ہے۔ ٹھنڈی چھائوں کے ساتھ انتہائی ہوادار چونئرے صحرامیں گرمیوں کے دوران کسی نعمت سے کم نہیں لگتے ۔

تھری باسیوں کا گھر ’چونئرا‘

البتہ سردیوں میں جن چوئنروں پر گھا س کم ہوتی ہے، وہ سرد بن جاتے ہیں اور یوں یہاں کے باسی اندر آگ جلا کر اسے گرم رکھتے ہیں، مگر موسم سرما یہاں پر انتہائی کم اثر انداز ہوتا ہے۔اسے یہاں کے لوگوں کی فن تعمیر کا شاہ کار ہی کہنا چاہیے کہ صدیوں قبل تھری باسیوں نے اس طرز کے گھر بنانے شروع کیے، جو آج بھی اسی طرح بنائے جاتے اور تھر کی پہچان ہیں۔ صحرائے تھر کے باسی انتہائی سادہ ،مہمان نواز ،ملنساز اور محنت کش لوگ ہیں، جو کہ اپنے گھروں سے پانی کنووں تک اور مویشیوں کے چرانے سے کھیتوں کو آباد کرنے تک کے اہم کام آج بھی خود سر انجام دیتے ہیں ۔

البتہ وقت کی جدت کے ساتھ ان چونئروں کی تعمیر میں نت نئے طریقہ تعمیر بھی اپنائے جا رہیں، جو کہ شوقیہ طور پر تعمیر کیے جاتے ہیں ،چند اہل ثروت لوگ ہی بنا پاتے ہیں ،جو کہ پکے گھروں کے ساتھ یا دیہات میں بیٹھک کےطور پر استعمال ہوتےہیں، جس میں پکی دیوار کے اسٹرکچر کے ساتھ اوپر لکڑیوں کا کام کا انتہائی مہنگا اور نقش و نگار سے طےپاتا ہے۔جدید چوئنروں کو اندر سے ایک ہی قسم کی لکڑیوں سے سجانے کے بعد وسط میں ایک لکڑی کا جھومر بھی لگایا جاتا ہے۔یوں تھر میں جہاں سادہ قسم کے چونئرے صحرا کی شناخت بنے ہوئے ہیں، وہاں اس ثقافتی رہن سہن کو قائم و دائم رکھنے کے لیے جدید چونئرے بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔

نقش ونگاری کے ساتھ تھری چوئنروں کی اوطاق بنوانے والے ساجن چارو اور عبداالسبحان سمیجو نے بتایا کہ ہم نے اپنے اوطاق کے چوئنروں کو اس لیے جدید طرز پر تعمیر کروایا ہے،تاکہ صحرائے تھر کی اس ثقافت اور رہن سہن کو نئے انداز سے زندہ رکھا جا سکے۔اپنے علاقائی ثقافتی رہن سہن کو جدید دور میں فروغ دے کر جو سکون ملتا ہے، وہ کئی منزلہ شان دار عمارتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مقتدر حلقے تھری کلچر کے ان مثبت پہلوئوں کو دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ وطن عزیز کا یہ خطہ عالمی سطح پر سیر و سیاحت کے حوالے سے بھی نمایاں نظر آسکے۔

تازہ ترین