• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اٹھارہ سال پہلے کا واقعہ ہے، ہماری نانی اور امی کو اپنے قریبی رشتے داروں سے ملنے کلیاں نامی گائوں جانا تھا۔گائوں کا راستہ چوں کہ دشوار گزار تھا، بس سے اتر کر، گائوں تک کا کافی راستہ پیدل طے کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے امّی ہم بچّوں کو اکثر ساتھ لے کر نہیں جاتی تھیں، میرا چھوٹا بھائی، عمرجو ایک انتہائی خوب صورت بچّہ تھا، اس وقت دو ماہ کا تھا،اس لیے اسے ساتھ لے جانا ان کی مجبوری تھی۔ امّی اور نانی گائوں میں رشتے داروں سے ملنے کے بعد واپس آنے لگیں، توگائوں سے بس تک کے کچّے راستے میں انہیں ایک درخت کے نیچے چولائی اور بتھوے کا ساگ خاصی وسیع جگہ پر اگا دکھائی دیا۔ امّی کو ساگ بہت پسند تھا۔ 

انہوں نے نانی سے کچھ ساگ توڑ کر ساتھ لے جانے کی فرمائش کردی۔ اور پھر اپنا دوپٹا اتار کر اس پرعمر کو درخت کے نیچے لٹاکے نانی کے ساتھ مل کر ساگ توڑنے لگیں۔ عمر کچھ دیر تک تو درخت کے نیچے لیٹے غوغاں غوغاں کرتا رہا،لیکن پھر اچانک زور زور سے رونا شروع کردیا۔ امّی نے اس کے رونے پر زیادہ دھیان نہیں دیا، جلدی جلدی ساگ توڑ کر کپڑے میں باندھا، عمر کو گود میں لیا اور نانی کے ساتھ سڑک کی طرف روانہ ہوگئیں۔ عمربدستور رو رہا تھا۔ امّی اور نانی نے اسے چپ کروانے کی سر توڑ کوششیں کرلیں، مگر وہ مسلسل روتا رہا، گھر آنے پر بھی چپ نہیں ہوا، تو فکر ہوئی، اس کا سارا جسم چیک کیا کہ مبادا کسی زہریلے کیڑے نے نہ کاٹ لیا ہو‘ مگر ایسا کوئی نشان نہیں ملا، مغرب کی اذان کے بعد وہ خودبہ خود چپ ہوگیا اور نڈھال ہوکر سوگیا، دودھ بھی نہیں پیا، جب اٹھا، تو ہشاش بشاش تھا، نانی اور امّی نے سکھ کا سانس لیا، اور نانی اپنے گھر چلی گئیں۔ رات کے دوسرے پہر عمراچانک جاگ گیا اور پھر سے رونا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد بڑی مشکلوں سے وہ چپ تو ہوگیا، مگر اس کے بعد بلاوجہ اچانک رونا اس کامعمول بن گیا۔ ابّوجی نے اسے ڈاکٹروں کو بھی دکھایا، اس کے کئی ٹیسٹس ہوئے، مگر ڈاکٹروں نے اسے نارمل اور صحت مند قرار دے کرکوئی دوا تجویز کیے بغیر گھر روانہ کردیا۔

وقت گزرتا گیا، وہ چار سال کا ہوگیا، مگر اس کے بلاوجہ رونے کی عادت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سب اس کی اس عادت سے تنگ آچکے تھے۔ ایک دن ابّوجی نے اسے کسی بات پر ڈانٹ پلائی، تو تڑپ کر زمین پر گرا اور پیٹ پکڑ کر چیخنے چلاّنے لگا،زمین پر گر کر اس طرح تڑپنا شروع کردیا، جیسے کسی نے اسے چھرا گھونپ دیاہو، اس کی حالت دیکھ کر ابّو گھبراگئے۔ اسے دوا پلائی، مگر بدستور چیخ چیخ کر روتا رہا، تو ابّو اسے اسپتال لے جانے کے لیے گود میں اٹھاکرباہر نکلآئے اور ایک سوزوکی وین میں سوار ہوگئے۔ وین میں بھی عمر مسلسل رو رہا تھا۔ ابّو کے بالکل سامنے والی سیٹ پر ایک بزرگ بیٹھے تھے، وہ کچھ دیر اسے روتا دیکھتے رہے، پھر ابو سے اس کے اس طرح بے تحاشا رونے کی وجہ پوچھی، تو ابّو نے ہم درد پاکر ساری صورتِ حال بتادی۔ بزرگ نے چند سوالات کیے اور کہا ’’بیٹا! یہ ڈاکٹر کا کیس نہیں ہے۔ میں تمہیں ایک پتا لکھ کر دیتاہوں، تم بچّے کو وہاں لے جائو، وہ روحانی معالج ہیں، اس کا علاج بہتر طریقے سے کرسکیں گے۔‘‘ بزرگ نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ ابو، جو ان باتوں پر قطعی اعتبار نہیں کرتے تھے، راضی ہوگئے۔ بزرگ نے پتا لکھ کر انہیں دیا۔ ابّو اگلے اسٹاپ پر اترگئے اور عمرکو لے کر سیدھے اس پتے پر پہنچ گئے، لیکن وہاں بہ جائے کسی بزرگ کے، تیس سالہ ایک نوجوان کو دیکھ کر بہت مایوس ہوئے، پھرسوچا کہ اب آہی گئے ہیں، تو دِکھاکر ہی جائیں۔ نوجوان نے عمرکو اچھی طرح چیک کرنے کے بعد ابّو سے کہا ’’بچّے کو بہ ظاہرکوئی جسمانی تکلیف ہرگز نہیں، البتہ اسے تکلیف ہوتی ضرورہے، یہ محض ضد میں ایسا نہیں کررہاہے۔‘‘پھر انہوں نے عمر پر کچھ پڑھ کر وقفے وقفے سے پھونکیں ماریں، تو اسے کافی سکون ملا۔ جب وہ چپ ہوگیا،تو انہوں نے ابو کو بتایا کہ ’’بچّے کے ساتھ کچھ چیزیں ہیں، اگر آپ دل مضبوط کرلیں، تو انہیں حاضر کرکے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ ابو، عمر کے اس طرح پرسکون ہوجانے پر اس نوجوان بابا کے علم کے قائل ہوچکے تھے۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ 

جس کے بعد دس پندرہ منٹ تک انہوں نے مراقبہ کیا، پھر عمر کو سامنے بٹھا کر اس پر دم کرکے پھونکتے رہے، عمر کی آنکھیں لال ہونے لگیں، تو نوجوان بابا جی نے نرم آواز میں پوچھا ’’تم کون ہو اور اس بچّے سے کیا چاہتے ہو؟‘‘یک لخت عمر کی آواز بدل گئی، اگرچہ وہ پانچ سال کاتھا، مگر کسی جوان آدمی کی طرح بھاری آواز میں جواب دیا ’’ہم اس سے کچھ نہیں چاہتے، ہمیں یہ بچّہ بہت پیارا لگتا ہے، اس لیے ہم اس کے ساتھ رہتے ہیں اور ہمیشہ اس کے آس پاس رہنا چاہتے ہیں۔‘‘

ابو کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔ بابا نے پوچھا ’’تم اسے کہاں ملے تھے؟‘‘ عمر نے جواب دیا ’’جب یہ دوڈھائی ماہ کا تھا، تو اس کی ماں اسے درخت کے نیچے لٹاکرکسی کام سے آگے چلی گئی‘ تو ہم نے اس بچّے سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ یہ جب ہنستا، تو ہمیں بہت اچھا لگتاتھا، پھر اس کی ماں آگئی، اور اسے اٹھاکر چل پڑی۔ ہمیں یہ بچّہ بہت پیارا لگا، ہم اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اسی روز سے ہم اس کے ساتھ ہیں۔‘‘ بابا نے پوچھا ’’تم اسے تکلیف کیوں دیتے ہو کہ مسلسل رونے لگتا ہے۔‘‘جواب ملا ’’ہم اس سے پیار کرتے ہیں، اسے تکلیف دینا نہیں چاہتے، اس کا پورا خیال رکھتے ہیں، خوش رکھنے کے لیے اسے نئی نئی شرارتیں سکھاتے ہیں، مگر جب کوئی اسے مارتا یا ڈانٹتا ہے، تو ہمیں بہت غصّہ آتا ہے، ہم اس کے پیٹ میں مکّے مارتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ روتا چلاّتا ہے، تو اس کے گھر والے ڈر جاتے ہیں، ہم ایسا اس کے گھر والوں کو باز رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔‘‘ پھر بابا نے پانی میں دَم کرکے عمر کو پلانے کے بعد ابو سے کہا ’’گھبرائیں مت، کوئی خبیث بدروح نہیں ہے، بچّےکا علاج ممکن ہے، آپ کل زعفران اور پانی کا کولر لے کر آئیں‘میں اس میں دَم کیا ہوا پانی بھروادوں گا، جو بچّے اوراس کی ماں کو پینا ہوگا،جس کے بعد بچّہ نارمل زندگی گزارے گا اوررونادھونا بھی ختم ہوجائے گا۔‘‘

ابو نے گھر آکر یہ سارا واقعہ سنایا، تو امّی نے اعتراف کرلیا کہ ساگ توڑنے کے چکّر میں انہوں نے عمر کو ایک درخت تلے کچھ دیر کے لیے لٹایاتھا۔ ابّو کا یقین کچھ اور پختہ ہوگیا اور وہ اگلے روز کولر اور زعفران لے کر بابا کے پاس چلے گئے۔ زعفران سے لکھا ہوا تعویذ اور دَم کیا پانی لے کر واپس آکر انہوں نے بتایا کہ اس نوجوان باباجی نے نذرانے کی رقم یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ یہ علم انہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی خدمت کے لیے بخشا ہے۔

میرا بھائی، عمر ماشاء اللہ اب اٹھارہ سال کا ہوگیا ہے۔ ہم کراچی شفٹ ہوچکے ہیں۔ اس روز کے بعد اس کا رونا دھونا اور تڑپ کر پیٹ درد کی شکایت کرنا یک سَر ختم ہوگیا۔ ابّو، جو ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، اب کہتے ہیں کہ ’’دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں، جو کسی لالچ کے بغیر بھی خلقِ خدا کی مدد کرتے ہیں اور ان ہی لوگوں کے دَم سے دنیا قائم ہے۔‘‘

(ماریہ یاسر، کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین