• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سورج میاں گئے چھٹیاں منانے

حمیرا مختار… کراچی

’’ارے شایان تم اسکول سے کب آئے اور یہ کیا آتے ہی بوتل منہ سے لگائے کھڑے کھڑے پانی پینے لگے… کتنی بار سمجھایا ہے پانی گلاس میں نکال کر، بیٹھ کر پیا کرو بیٹا‘‘شایان کی امی اسے کھڑے ہوکر پانی پیتا دیکھ کر ناراضگی سے کہہ رہی تھیں۔

شایان نے بوتل واپس فریج میں رکھتے ہوئے کہا کہ، ’’ امی باہر بہت گرمی ہے اور دھوپ بھی بہت تیز ہے۔ پیاس سے گلا خشک ہو گیا تھا‘‘۔ اب شایان اپنی شرٹ اتار کر چارپائی پر لیٹتے ہوئے امی سے گلہ کر رہا تھا کہ، ’امی مجھے سمجھ نہیں آتا یہ اتنی گرمی کیوں پڑتی ہے؟ کیا سورج کی تپش کچھ کم نہیں ہو سکتی؟‘‘۔

’’بیٹا گرمی بھی اللہ کی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے چار موسم بنائے ہیں اور ہر موسم میں انسان کے لئے بے شمار فوائد اور راحتیں پوشیدہ ہیں‘‘۔ امی شایان کا سر سہلاتے ہوئے اسے سمجھا رہی تھیں۔

’’بھلا اتنی گرمی سے بھی کسی کو فائدہ ہوسکتا ہے، میں تو کہتا ہوں کہ، جس طرح ہمارے اسکول والوں نے ہمیں گرمی کی چھٹیاں دی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی سورج میاں کو گرمیوں میں دو تین مہینوں کی چھٹیاں دے دیں تو کتنا اچھا ہو ناں، نہ سورج نکلے گا نہ اتنی تیز دھوپ ہوگی اور نہ ہی اتنی گرمی لگے گی۔‘‘ شایان نے خوشی سے کہا۔

’’نہیں بیٹا! اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو انسان کی ضرورت کے مطابق بنایا ہے۔ سورج کی روشنی اور گرمی بھی انسان کے لئے بہت ضروری اور فائدہ مند ہے۔ اس لئے اسے برا بھلا نہیں کہنا چاہیے اور نہ ہی اس سے گھبرانےاور بوکھلانے کی ضرورت ہے، بلکہ اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ چلو اب تم اٹھو، نہا دھو کر آئو، میں کھانا نکالتی ہوں۔‘‘ امی یہ کہہ کر باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔

گرمی تو کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی، نہ ہی اتنی تیز دھوپ کی کسی کو ضرورت ہے۔ میں کیا، سب ہی گرمی سے گھبراتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں۔ ہر کوئی ہائے گرمی، ہائے گرمی کرتا رہتا ہے۔‘‘ شایان یہ اور ایسی کئی باتیں سوچتے، بڑبڑاتے ہوئے سو گیا۔

ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک زور زور سے دروازہ بجنے لگا، جس کی آواز سے شایان کی آنکھ کھل گئی، آس پاس کوئی نہیں تھا، چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور کوئی زور زور سے دروازہ بجا رہا تھا۔ اس نے صحن کی لائٹ جلائی اور دروازہ کھولا تو سامنے اس کے ہمسائے شفیق صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ، ’’بیٹا! معذرت چاہتا ہوں، اس وقت تمہیں تکلیف دی، دراصل ہمارے گھر کی ساری گھڑیاں اچانک بند ہو گئی ہیں اور موبائل بھی ٹائم نہیں بتا رہا، میں دو تین گھروں میں معلوم کر کے آیا ہوں، کسی کے گھر بھی گھڑی نہیں چل رہی، کیا تم مجھے ٹائم بتا سکتے ہو؟‘‘ شایان حیران ہو کر واپس پلٹا اور ایک کے بعد ایک تمام کمروں کی گھڑیاں دیکھتا رہا، لیکن حیرت انگیز طور پر گھر کی ساری ہی گھڑیاں بند تھیں۔ آخر میں اس نے امی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ امی آنکھیں ملتی ہوئیں باہر آئیں تو اس نے ساری بات انہیں بتاتے ہوئے پوچھا، ’’امی کیا آپ کے کمرے میں گھڑی وقت بتا رہی ہے؟‘‘

امی نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ، ’’نہیں بیٹا گھڑی تو بند ہے‘‘۔

شایان حیران و پریشان سا دروازے پر آیا اور شفیق صاحب سے معذرت کی کہ، ’’سوری انکل! ہمارے گھر کی گھڑیاں بھی بند ہیں۔‘‘ شفیق صاحب نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور واپس چلے گئے۔ اتنے میں امی اور ابو بھی کمرے سے باہر آچکے تھے۔ سب پریشان تھے کہ اچانک پورے محلے کی گھڑیاں کیسے بند ہو گئیں۔ اسی پریشانی کے عالم میں کافی وقت گزر گیا، تو ایک نئی پریشانی کا شور مچ گیا کہ صبح کیوں نہیں ہو رہی…؟ سورج کب نکلے گا…؟ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ سب لوگ سو سو کر بھی تھک چکے تھے۔ لیکن صبح ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، ہر طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، کچھ سمجھ نہیں آہا تھا کہ صبح ہے یا رات، معمول کے مطابق اپنے کام کریں یا صبح ہونے کا انتظار کریں۔ جب کافی دیر تک اندھیرا بدستور قائم رہا تو لوگوں نے اپنے معمول کے کام کرنے شروع کر دیئے۔ بچے اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگے اور بڑے ملازمت پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ شایان بھی تیار ہو کر اسکول چلا گیا اور ابو بھی آفس کے لئے روانہ ہو گئے، لیکن کسی کی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ہر شخص حیران و پریشان تھا، دن یونہی گزرنے لگے، نہ رات کا پتہ چلتا نہ دن کی خبر ہوتی، بس ہر فرد اپنے اندازے سے کام سر انجام دینےلگا۔ ایک دن شایان اسکول سے گھر آیا تو امی بے حد پریشان تھیں۔ اس نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو امی نے بتایا کہ، ’’گھر میں راشن، سبزیاں، پھل سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور سورج کے نہ نکلنے کی وجہ سے بازار میں کچھ بھی دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی سبزیاں اور پھل اگ رہے ہیں، کیونکہ کھیتی باڑی کے لئے پانی اور ہوا کے ساتھ دھوپ بھی نہایت اہم عنصر ہوتا ہے۔ اس کے بغیر فصلیں نہیں پک سکتیں، نتیجتاً پوری دنیا میں شدید قحط پڑچکا ہے۔یہ سن کر شایان بھی پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اب ہم کھائیں گے کیا؟

صرف انسان ہی نہیں چرند پرند بھی پریشان تھے، آہستہ آہستہ پرندوں نے اڑنا اور چہچہانا چھوڑ دیا، جانور بھی سست اور بیمار رہنے لگے۔ غرض یہ کہ دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔ جانور، انسان سب عجیب و غریب بیماریوں میں بھی مبتلا ہونے لگے تھے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ، گرمی کی وجہ سے جو پسینہ انسانی جسم سے نکلتا تھا، اس سے کئی قسم کی بیماریاں دور ہو جاتی تھیں، اب چونکہ سورج نہیں نکل رہا تو پسینہ بھی نہیں بہہ رہا، یوں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ یہ بھی ایک پریشان کن صورتحال تھی، جس کا حل کسی کے پاس نہ تھا۔ اس کے علاوہ گرمی نہ ہونے کے باعث ہر وقت ٹھنڈ رہنے لگی تھی۔ جس سے دریا، سمندر ، آبشاریں سب کا پانی جم گیا، اس طرح پانی کی فراہمی بھی بند ہو گئی۔ اب تو تمام افراد خوفزدہ رہنے لگے، ہر وقت گھپ اندھیرا چھایا رہتا، جس سے ماحول میں وحشت پھیل گئی تھی۔ لوگوں کو اب سورج کی قدر ہونے لگی جس کی تیز دھوپ اور گرمی کو وہ برا بھلا کہتے نہیں تھکتے تھے، اب وہ ہی رو رو کر سورج نکلنے کی دعائیں کرنے لگے۔ ہر طرف ایک ہنگامہ برپا تھا۔ شایان بھی ایک کونے میں کھڑا اللہ تعالیٰ سے سورج نکلنے کی دعا کر رہا تھا کہ، اچانک کسی نے زور سے اس کا کاندھا ہلایا۔ شایان چونک کر اُٹھا تو سامنے اس کی امی کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھی کہ ’’شایان بیٹا، اب اٹھ بھی جائو، کتنی دیر سے سو رہے ہو۔ دوپہر کو بھی کھانا کھائے بغیر سوگئے تھے، بس جب سے اسکول سے آئے ہو سوئے جا رہا ہو۔ شام ہو گئی ہے، ٹیوشن نہیں جانا تمہیں؟‘‘۔

شایان ہڑبرا کر اُٹھ بیٹھا اور اپنی آنکھیں مل مل کر چاروں طرف دیکھنے لگا پھر دوڑتا ہوا صحن میں آگیا۔ دھوپ اب دیواروں کے سروں پر تھی۔ گرمی بھی کچھ کم ہو گئی تھی۔ آسمان پر پرندے چہچہا رہے تھے۔ شایان نے مسکرا کر اپنے سر پر ہاتھ مارا اور زیر لب بڑبڑایا، ’’اوہ! تو یہ خواب تھا۔ شکر ہے خدا کا، سورج موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی بنائی ہوئی ہر چیز واقعی نعمت ہے۔ سوری اللہ تعالیٰ اب میں دھوپ اور گرمی کو کبھی برا نہیں کہوں گا۔ پلیز اللہ تعالیٰ آپ سورج کو کھبی چھٹیوں پر نہیں بھیجئے گا‘‘۔

تازہ ترین
تازہ ترین