ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کرکے عوام سے اشیائے خورد و نوش و اشیائے ضرورت کے زائد نرخ وصول کرکے انہیں لوٹنا کسی جرم سے کم نہیں ہے مگر سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں ضلعی و میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی عدم توجہی و لاپروائی کے سبب ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی نے قابل سزاجرم کی شکل اختیار کرلی ہے۔منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اشیائے خورو نوش اور روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کرکے عوام بالخصوص مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے تو کیے جاتے ہیں ،لیکن رمضان المبارک کے مہینے میں بھی انہیں مہنگائی کے عفریت سے نبرد آزما ہونا پڑا۔رمضان سے قبل ہر سال ضلعی انتظامیہ کی جانب سے روایتی طور پر ایک اجلاس منعقد کیا جاتا ہے جس میں قیمتوں پر کنٹرول کرنے اور اشیائے خور ونوش کی سرکاری نرخ نامے پر فروخت کو یقینی بنانے کے لئے فیصلے کئے جاتے ہیں لیکن بند کمروں کے اجلاس کی کارروائیاں صرف کاغذوں کی حد تک رہتی ہیں، عوام کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انتظامی افسران، میونسپل کارپوریشن، پرا ئس کنٹرول کمیٹی سمیت دیگر متعلقہ ادارے جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کریں لیکن وہ متحرک دکھائی نہیں دیتے۔ روایتی طور پر کبھی کبھار افسران مارکیٹ کا دورہ کرتے ہیںاشیاء پر زائد قیمتیں لینے والوں پر جرمانے عائدکرتے ہیں لیکن یہ جرمانہ بھی انتہائی کم ہوتا ہے۔
کمشنر سکھر ڈویژن ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ نے رمضان المبارک میں اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور ذخیرہ اندوزی و گراں فروشی کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے سکھر، گھوٹکی اور خیرپور اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنر ز اور دیگر متعلقہ افسران کو ہدایات دی تھیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں اورمنافع خوروں کے خلاف کوئی رعایت نہ برتی جائے، فرائض میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی لیکن اس پر کوئی بھی عمل نہیں ہوسکا۔ مارکیٹ کمیٹی جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری نرخ نامہ صبح کے وقت دکانداروں کو جاری کریں لیکن حیرت انگیز طور پرمارکیٹ کمیٹی کی جانب سے نرخ نامہ دوپہر 12بجے کے بعد تاجروں کو دیا جاتا ہے، تاجروں کی اکثریت سرکاری نرخ نامے پر عملدرآمد نہیں کرتی جب کہ قیمتیں چیک کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
رمضان المبارک اور عید کی خریداری کرنے والوں کو انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال درپیش رہی۔ اہم تجارتی مراکز گھنٹہ گھر چوک، مہران مرکز، غریب آباد، کریانہ بازار، اناج بازار، پان منڈی، وکٹوریہ مارکیٹ، شاہی بازار، پرانا سکھر ودیگر بازاروں میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال ہونے اور متعلقہ محکموں کے افسران کی عدم توجہی و لاپروائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دکان داروں نے من مانے نرخ وصول کیے۔ دکانداروں اور خریداروں کے درمیان سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیاء فروخت نہ کرنے پر لڑائی جھگڑےبھی دیکھنے میں آئے۔ واضح رہے کہ مارکیٹ کمیٹی کا دفتر فروٹ و سبزی مارکیٹ سے چند قدم کے فاصلے پرہے مگر اس کے باوجود دکانداروں کو علی الصباح نرخ نامہ فراہم کرنے کے بجائے دوپہر 12 بجے کے بعد فراہم کیا جاتا ہے۔ قوانین کے مطابق دکاندار نرخ نامے کو نمایاں جگہ پر لگانے کے پابند ہیں ،مگر زیادہ تردکاندار نرخ نامہ آویزاں ہی نہیں کرتے ۔مارکیٹ کمیٹی کی جانب سے من مانی کرنے والےدکانداروں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جاتی۔
اگر کبھی انتظامی افسران گراں فروشی کے خلاف کارروائی کی نیت سے باہر بھی نکلیں تو دکان داروں کو قبل از وقت چھاپے کی اطلاع مل جاتی ہے اور وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرلیتے ہیں، لیکن خطرہ ٹل جانے کے بعد وہ اپنی روش پر لوٹ آتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹور انتظامیہ کو بھی احکامات دیے گئے تھے کہ عوام کو سستے داموں اشیائے خورد ونوش کی فروخت یقینی بنانے کے لئے شہر کے 3مختلف مقامات گھنٹہ گھر چوک، جناح میونسپل اسٹیڈیم کے نزدیک، بشیر آباد ملٹری روڈ پر بچت بازارلگائے جائیں لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔سیاسی و سماجی رہنماؤں ، جمعیت علمائے پاکستان کے صوبائی صدر مفتی محمد ابراہیم قادری، مشرف محمود قادری، سنی تحریک کے حافظ محبوب علی سہتو، جے یو آئی کےمولانا عبدالحق مہر، سکھر ڈویلپمنٹ الائنس کے حاجی جاوید میمن، غلام مصطفی پھلپوٹو، سکھر اسمال ٹریڈرز کے حاجی ہارون میمن، بندھانی برادری کے حاجی شریف بندھانی، عبدالجبار راجپوت و دیگر نےضلعی انتظامیہ سےمطالبہ کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزوںاور گراں فروشوں کے خلاف بھرپورطریقے سے کریک ڈائون کیا جائے تاکہ عوام کو اشیائے خورونوش سستے نرخوں پر فراہم ہوسکیں۔