• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی دور میں ہمارے ہاں سستی تفریح کا واحد ذریعہ لکی ایرانی سرکس ہوا کرتا تھا ۔عرس ،میلے اور دیگر تہواروں کے موقع پر معلوم ہوتا کہ گائوں یا شہر میں لکی ایرانی سرکس آیا ہے تو لوگ سب مصروفیات ترک کرکے سرکس کے شیروں کا تماشا دیکھنے پہنچ جاتے۔جب روایتی ثقافت کا یہ سلسلہ متروک ہوتا چلا گیا تووطن عزیز کے حقیقی مالکان نے انتخابات کی صورت میںقوم کو ’’لکی پاکستانی سرکس ‘‘ کے نام سے انتہائی سستی تفریح گھر کی دہلیز پر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور الحمد اللہ آج سرکس کا یہ کھیل لکی ایرانی سرکس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقبول ہے۔اگرچہ امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری ہونے کے بعد ٹکٹیں تقسیم کرنے کا کرتب انجام کو پہنچ چکا ہے اور اب انتخابی مہم کی گاڑی پر سوار امیدوار موت کے کنویں میں کار کو تیز رفتاری سے بھگانے اور شائقین کا دل لُبھانے کو تیار ہوچکے ہیں لیکن میں ابھی تک ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران فنکاروں کی کاریگری اور کمالات کے سحر سے نہیں نکل پایا ۔آپ بھی ایک نظر دوڑائیں گے تو ضرور داد کے ڈونگرے برسائیں گے۔ملتان میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 154جہاں ’’گھڑمس‘‘ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا وہاں تبدیلی کے ساہوکاروں اور ووٹ کو عزت دو کے علمبرداروں نے ملکر جس طرح نظریاتی سیاست کی داغ بیل ڈالی ہے اس کی داد نہ دینا صحافتی بددیانتی ہوگی۔یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے الحاج سکندر بوسن کو دو مرتبہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیکر واپس لے لیا گیا،بنی گالا کے باہر احتجاج رنگ لایا اور پیپلزپارٹی سے تحریک انصاف کا رُخ کرنے والے احمد حسن ڈیہڑ کو ٹکٹ دیدیا گیا۔میں نے پی ٹی آئی کے ایک رہنما سے پوچھا ،تم لوگ سکندر بوسن کے معاملے پر اتنے کیوں بھڑک گئے ؟احمد حسن ڈیہڑ کو بھی تو پی ٹی آئی میں شامل ہوئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں ؟کہنے لگے ،کچھ بھی ہو سکندر بوسن سے تو سینئر تھے پی ٹی آئی میں ۔بہرحال مسلم لیگ(ن) بھی یہاں تیل اور تیل کی دھار دیکھنے میں مصروف تھی ،سننے میں آرہا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں پی پی 198سے ایم پی اے منتخب ہونے والے شہزاد مقبول بھٹہ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر اعلان نہ ہوا تو محسوس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اندر خانے کھچڑی پک رہی تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 39604ووٹ لینے والے سلمان قریشی مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے ہیں اور اب شیر کے انتخابی نشان پر ووٹ کو عزت دو کے بیانئے پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔صورتحال کچھ یوں ہے کہ فرزند یوسف رضا گیلانی عبدالقادر گیلانی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں ،پیپلز پارٹی کے سابقہ امیدوار احمد حسن ڈیہڑ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں ،پی ٹی آئی کے سابقہ امیدوار کو مسلم لیگ(ن) نے ٹکٹ دیا ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر جانیوالے سابق وفاقی وزیر سکندر بوسن آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں ۔ایسا ہی ایک دلچسپ نظریاتی ملاکھڑا چکوال میں دیکھنے کو ملا ۔سردار غلام عباس جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) سے ہوتے ہوئے مسلم لیگ(ن) میں پہنچے تھے ،حکومت ختم ہونے کے بعد نیا پاکستان بنانے کیلئے تحریک انصاف کے قافلے میں شامل ہو گئے ۔یاد رہے کہ سردار غلام عباس دوسری بار پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ،پہلی بار شمولیت کے بعد انہوں نے محض اس لئے تحریک انصاف کو چھوڑ دیا تھا کہ عمران خان نے ان کے کیمپ کے سامنے گاڑی کیوں نہیں روکی۔بہر حال پی ٹی آئی نے انہیں این اے 64چکوال ون سے ٹکٹ جاری کر دیا ۔ان کے بھتیجے آفتاب اکبر جو یہاں سے ان کے کورنگ امیدوار تھے ،انہیں بھی پی پی 23سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا گیا ۔مسلم لیگ(ن) نے پی پی 23سے سردار ذوالفقار دولہہ کو ٹکٹ جاری کیا ۔ اسی اثنا میں ایپلٹ ٹریبونل نے سردارغلام عباس اور ان کے بھتیجے آفتاب اکبر کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے اسی روز شاہد خاقان عباسی اور فواد چوہدری کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہوئے ۔تینوں نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی ۔اس دوران مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار ذوالفقار دولہہ نے پی ٹی آئی سے ساز باز کرکے این اے 64کا ٹکٹ لینے کے بعد مسلم لیگ(ن) کو ٹھینگا دکھا دیا اور اب سردار غلام عباس پھر سے مسلم لیگ (ن) کی طرف دیکھ رہےہیں۔
مظفر گڑھ میں بھی نظریاتی سیاست پورے جوبن پر دکھائی دیتی ہے ۔یہاں بخاری اور دستی خاندان کا طوطی بولتا ہے۔عبداللہ شاہ بخاری کے صاحبزادے ہارون سلطان بخاری پی پی 258(پرانا) سے پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوتے رہے ہیں جبکہ ان کے بھائی صاحبزادہ باسط سلطان بخاری این اے 179مظفر گڑھ (موجودہ این اے 185)سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوتے رہے ہیں ۔
2002ء میں باسط بخاری مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر جیتے ۔2008ءمیں پیپلزپارٹی کے معظم جتوئی سے ہار گئے جبکہ 2013ء میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر معظم جتوئی کو شکست دی ۔چند ماہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو انہیں نئے حلقے این اے 184سے بیوی کیلئے ٹکٹ دیا گیا مگر یہ اپنے پرانے حلقے این اے 185سے خود بھی الیکشن لڑنا چاہتے تھے جہاں پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی سے شامل ہونیوالے معظم خان جتوئی کو ٹکٹ دیا ہے ۔اُدھر مسلم لیگ (ن) نے امیدواروں کے شارٹ فال کے پیش نظر ہارون سلطان بخاری کو مظفر گڑھ میں پانچ حلقوں کیلئے ٹکٹ جاری کر دیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ایک بھائی ہارون سلطان بخاری مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں ،دوسرے بھائی باسط سلطان بخاری این اے 185میں اپنے بھائی ہارون بخاری اور سابقہ حریف معظم جتوئی کیخلاف آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ انکی اہلیہ سیدہ زہرہ باسط بخاری این اے 184سے پی ٹی آئی کی امیدوار ہیں اوریہاں سے مسلم لیگ (ن) نے انکے دیور ہارون بخاری کو ٹکٹ دیا ہے۔اب معظم علی خان جتوئی کی فنکاریاں بھی ملاحظہ فرمالیں ۔انہوں نے خاصی بھاگ دوڑ کے بعد پی پی 275مظفر گڑھ سے ظفر مشتاق لغاری کیلئے پی ٹی آئی کا ٹکٹ جاری کروایا لیکن جب ٹکٹ جاری ہو گیا تو معلوم ہوا کہ اس حلقے میں تو ظفر مشتاق لغاری نام کا کوئی امیدوار ہی موجود نہیں ۔اس بلف گیم کے پیچھے یہ حکمت پوشیدہ نظر آئی کہ معظم علی خان جتوئی کے بہنوئی عبدالقیوم جتوئی پی پی 275سے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ واپس کر کے جیپ کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں ،صاف ظاہر ہے اگر پی ٹی آئی کی طرف سے اس حلقے میں کوئی امیدوار نہیں ہو گا تو وہ باآسانی جیت جائینگے ۔
ٹکٹوں کی تقسیم کیساتھ ہی مسلم لیگ(ن) کی تطہیر کا عمل بھی جاری رہا ۔چوہدری نثار کو الیکشن کمیشن نے جیپ کا انتخابی نشان الاٹ کیا تو عمومی تاثر یہی تھا کہ جیپ میںزیادہ سے زیادہ کتنے لوگ بیٹھ سکتے ہیں لیکن ان کی جیپ میں سوار ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔این اے 181سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر سلطان محمود ہنجرا نے شیر کی سواری سے دستبردار ہو کر جیپ کے حصول کی درخواست دیدی ہے۔راجن پور ،لیہ اور ڈیرہ غازی خان میں بھی جیپ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے ۔شیر علی گورچانی ،حفیظ دریشک،پرویز اقبال گورچانی ،اطہر گورچانی ،یوسف دریشک ،عاطف مزاری اورخضر مزاری نے جیپ پر سوار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔این اے 175رحیم یار خان سے چوہدری مسعود نے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ کو بھاری پتھر کی طرح چوم کر ایک طرف رکھ چھوڑا ہے۔جس حساب سے سواریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لگتا ہے چوہدری نثار کو ایک آدھ ٹرک کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا ۔ایک جیپ اور ٹرک ہو تو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہائوس کو فتح کرنا کونسا مشکل ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین