جن دنوں ’’باراک حسین اوباما‘‘ نیا نیا امریکہ کا صدر منتخب ہوا تھا تو میں نے اُس کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں اوباما اسٹیج پر آنے سے پہلے رقص کرتا ہے مجھے بڑا عجیب لگا میں نے اپنے ایک ہسپانوی دوست سے کہا کہ اِس بات کی مجھے بے حد خوشی ہے کہ ’’حسین‘‘ نامی ایک شخص امریکا کا صدر بنا ہے مگر یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ وہ اسٹیج پر تقریر کے لئے آنے سے پہلے ڈانس کر رہا تھا، ہسپانوی دوست نے جواب دیا کہ ممکن ہے تمہارے مذہب یا کلچر میں ڈانس کرنا بری بات ہو مگر ہمارے ہاں تو یہ مسرت حاصل کرنے کے لئے عام لوگوں کا ایک ذریعہ ہے اور اوباما نے اسٹیج پر آنے سے پہلے ڈانس صرف اس لئے کیا کہ وہ اپنے عوام کو بتا سکے کہ میں تم جیسا اور تم میں سے ہوں۔ جرگہ پروگرام میں سلیم صافی نے شہباز شریف کا دو حصوں پر مشتمل ایک تفصیلی انٹرویو کیا اُس کے آخر میں شہباز شریف نے سلیم صافی کا ہاتھ پکڑا اور اچانک گانا سنانا شروع کر دیا، شہباز شریف کی زبان سے میں پہلے انقلابی شاعری تو سن چکا تھا مگر اس طرح ایک انتہائی سنجیدہ پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے جب انہوں نے گانا گایا تو میرے احساسات بالکل اُسی طرح کے پیدا ہوئے جیسے اوباما کو ڈانس کرتے دیکھ کر ہوئے تھے، پھر مجھے ہسپانوی دوست کی بات یاد آئی اور مجھے لگا کہ شہبازشریف بھی پاکستانی عوام کو بتا رہے ہیں کہ میں آسمان سے نہیں اُترا بلکہ تمہاری طرح کا ہوں، روتا ہوں، ہنستا ہوں، فلمیں دیکھتا ہوں، گیت گاتا ہوں، یعنی میں بھی تمہاری طرح ایک عام آدمی ہوں (پاکستانی اوباما زندہ باد) میرا خیال ہے شاید اسی لئے کبھی کبھار شہباز شریف اسٹیج پر تقریر کرتے ہوئے فرطِ جذبات میں ’’ڈانس اسٹیپ‘‘ بھی لگا جاتے ہیں۔ قارئین بُرا منانے کی بالکل ضرورت نہیں، ہم پاکستانی تو دھمال ڈالنے والے لوگ ہیں، مادھو لال حسین کے عرس پر ایک بار میں نے بھی دھمال ڈالی تھی، عمران خان کے بابا فرید کے مزار پر جانے کے بعد شہباز شریف کا مادھو لال حسین کے دربار پر آنا اب ضروری ہو گیا ہے، دھمال ڈالیں یا نہ ڈالیں لیکن پیروں فقیروں کو منائے بغیر سیاسی معاملات مشکل تر ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، پیر سیال عمران خان کے ساتھ چلے گئے اُن کے بیٹے نے نون لیگ کا ٹکٹ چھوڑ کر پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے لیا ہے، تمام بڑے بڑے پیران ِ عظام عمران خان کے لئے اس وقت دعائیں مانگ رہے ہیں اور یہ کرامت بابا فرید کی چوکھٹ کو چومنے سے ہی طلوع ہوئی ہے، جبکہ دوسری طرف سابق وفاقی وزیر مذہبی امور پیر امین الحسنات شاہ بھیرہ شریف والے بھی شریف خاندان سے منہ موڑ گئے ہیں (اب دھمال ضروری ہو گئی ہے)۔
شہباز شریف نے سلیم صافی کو جو گیت سنایا تھا ’’اتفاق‘‘ سے محمد رفیع کا گایا ہوا حقیقت فلم کا وہ گانا میرے پسندیدہ گانوں میں بھی شمار ہوتا ہے آپ بھی اُس گانے کے چند مصرعے سن لیجئے۔ میں یہ سوچ کر اُس کے در سے اُٹھا تھا، کہ وہ روک لے گی منا لے گی مجھ کو، ہواؤں میں لہراتا آتا تھا دامن کہ دامن پکڑ کر بٹھا لے گی مجھ کو، قدم ایسے انداز میں اُٹھ رہے تھے، کہ آواز دے کر بُلا لے گی مجھ کو، مگر اُس نے روکا نہ اُس نے منایا، نہ دامن ہی پکڑا، نہ مجھ کو بٹھایا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ شہباز شریف کی ’’وہ‘‘ کون ہو سکتی ہے جس کے لئے انہوں نے اِس گانے کو یاد کیا، سب سے پہلا خیال تو خلائی مخلوق کی طرف گیا، پھر سوچا کہ ’’وہ‘‘ چوہدری نثار علی خان بھی ہو سکتے ہیں، ایک خیال اور بھی آیا یہ ’’حکومت صاحبہ‘‘ بھی تو ہوسکتی ہیں کیونکہ اِن صاحبہ کی جُدائی بھی تو بڑے بڑے صاحبان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے ویسے مذکورہ کے کئی عشاق تحریک انصاف کے ڈانسنگ فلور پر جمع ہو چکے ہیں، کیونکہ خبر عام ہے کہ مذکورہ کی جلوہ نمائی وہیں ہونے والی ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ اتنے مشکل راگ میں ’’کمپوز‘‘ ہونے والا یہ گانا اتنی آسانی سے تو شہباز شریف کو یاد نہیں ہوا ہوگا، لگتا ہے انہوں نے یہ گانا اُس دن سے ہی یاد کرنا شروع کر دیا تھا جب سہیل وڑائچ نے لکھا تھا کہ ’’پارٹی از اوور‘‘ اب تو خیر سہیل وڑائچ کی پوری کتاب شائع ہو چکی ہے ’’پارٹی از اوور‘‘ کے نام سے یعنی معاملہ سچ مچ ختم ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سہیل وڑائچ کو مستقبل بینی اتنی زیادہ عطا کی ہے کہ وہ مہینوں پہلے بہت مدھم سروں میں چلتی ہوئی ہواؤں کو سن کر آنے والے طوفانوں کی خبر دے دیتے ہیں بلا شبہ ’’پارٹی از اوور‘‘ کتاب لمحہ موجود کی پاکستانی سیاست کا پیش خیمہ ہے۔
سہیل وڑائچ کی پیش گوئیوں کو دیکھ کر یقیناً یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ اِن کو خبریں خلا سے ملتی ہیں، مگر حقیقت اِس کے بہت برعکس ہے بلکہ یہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ پاکستانی سیاست میں خلائی مخلوق کے کردار کو سیاست دانوں نے ہمیشہ بڑی اہمیت دی، سب کا یہی خیال ہے کہ فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں، حیرت ہے تو اس بات کی کہ زمینی مسئلوں کے حل خلاؤں میں ڈھونڈے جا رہے ہیں، شاید یہ تو میں نے میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ بیان کر دیا؟ ویسے میاں نواز شریف سے یاد آیا کہ آواز تو اُن کی بھی بہت اچھی ہے کیونکہ وہ ’’لانگ ڈسٹنس‘‘ کال میں کئی بار ’’اپنوں‘‘ کو مدھر گیت سُنا چکے ہیں، لیکن اب تو ’’لانگ ڈسٹنس‘‘ کال بھی خلا سے ہو کرجاتی ہے یعنی سیٹلائٹ سے۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ بہت جلد کسی بھی ٹاک شو میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف انتہائی رندھی ہوئی آواز میں یہ گانا گاتے نظر آئیں گے۔
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)