بعض غیبی یا ناگزیر باتوں کے سوا ، جو کلی طور پر انسانی فہم یا طاقت سے باہر ہوتی ہیں تقدیر کا زیادہ تر دارومدار تدبیر پر ہوتا ہے۔ مکمل غلام اقوام اُن اقوام سے بہتر ہیں جو نصف غلامی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے پسا ہوا طبقہ اُسی مقتدر طبقہ عاقبت نا اندیشی یا عارضی مفاد کے پیش نظر خاموش رہتا ہے۔
جو لوٹ مار وہ کرتے ، کہ جھولیاں بھرتے
خموش رہتے ، نہ الزام اُن پر ہم دھرتے
اگر وہ قوم کی خاطر بھی ،کچھ نہ کچھ کرتے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم سے سوالات پوچھنے کے بجائے ملت کے زوال کے صحیح اسباب سے سبق حاصل کرکے اُن عوامل سے بچا جائے جن کے نتیجے میں پاکستانی قوم انتشار کا شکار ہے ۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ہر بار غلطیوں کا اعتراف کرکے راہ راست سے دوبارہ انحراف تو نہیں کیا جائے گا۔ مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کی چھوٹی سی لغزش بھی اُس بڑے انحراف کا راستہ ہموار کردیتی ہے جو تاریخ میں تبدیلی کے اثرات کچھ اس طرح چھوڑ جاتی ہے کہ اہل فکر بھی اس کاتدراک کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
بادی النظر میں اب بھی ایسا لگتا ہے کہ ماضی سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ خواہش اقتدار کے سبب بعض ملکی سرخیلوں کے جوہر انسانیت قریب قریب مردہ ہوچکے ہیں۔ نہ ان کے سینہ میں قوم کی حیات کیلئے زندہ آرزوؤں کی کوئی مقدس قندیل روشن ہے اور نہ ہی ان کی نگاہوں میں قومی وقار کے بلند مقصد کی درخشندگی کی کوئی رمق باقی ہے۔ ہوس اقتدارکو ہزار لعنتوں کی ایک لعنت اور جذام کا مرض قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جسدِ انسانیت میں اقتدار کی ہوس کے تباہ کن اثرات قوم کی جسم میں داخل کر دئیے گئے ہیں کہ قوم سے جھوٹے وعدے وعید کرنے والے سرخیلوں نے ثابت کردیا کہ میدانِ اقتدار ایسے سعی و عمل کا نام ہے۔قوم نے خود کو دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے کہ جنہوں نے انہیں بار بار فریب دیا شاید اس بار نہیں دیں گے۔نہ جانے کیوں ہماری ایسی حالت ہوگئی ہے کہ کسی کی خاص تراش خراش کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ دکھاوا قابلِ ضمانت ہے ۔ہم غور وفکر کی اتنی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ ہماری اس روش نے ہمیں تباہی اور بربادی کے کس دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، بے حس لیڈروں سے زیادہ قصور وارخود ہم ہیں۔
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاموش ہوکر تماشہ دیکھنے والی اکثریت کیلئے باز آفرینی کا سوال بھی ناپید ہوجائے گا صرف وہی قومیں اپنا اجتماعی تشخص بحال رکھ سکتیں ہیں جو اپنی خرابیوں کی اصلاح کیلئے اپنے آپ کو تیار کر کے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے خود کو ذلت اور ادبارکے اُمڈنے والے بادلوں کی برسنے والی برسات سے بچا سکیں۔ مُردہ قومیں حیات نو پا سکتی ہیں اگر اس کیلئے کوشش کریں لیکن ہم نے سب کچھ قدرت کے دھارے پر تباہی پھیلانے والے سیلاب کو قسمت سمجھ کر چھوڑ دیا ہے ۔ فطرت کے قوانین بلا امتیاز سب کیلئے برابر ہیں۔ہم آئے دن بلند بانگ دعوے سن کر سمجھتے ہیں کہ اگر قوم کی تقدیر یہ نہیں بدل سکا تو کوئی بھی نہیں بدل سکتا کرشماتی تقاریر کے سحر میں ہم ماضی کو فراموش کرکے اس عمارت کی بنیاد میں رکھنے والی مفاد پرستی کی اینٹوں سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن جب نظریات کی حفاظت پر محلات کے مخملیں قالین اور ریشمی لحاف حاوی ہوجائیں تو مکافات عمل کی سزا بھی سب کو ملتی ہے جو خودسر عمل کرگزرتے ہیں اور انہیں بھی جو خاموش رہ کر سرکشوں کو معصیت کاری کی اجازت دیتے ہیں لیکن وقت بربادی پر عجز و نیاز کے جتنے بھی سجدے بارگاہ الٰہی میں کر لئے جائیں مکافات ِ عمل کے قانون سے نہیں بچا جاسکتا ۔
یقینی طور پر غور و فکر کی تمام گنجائش اس شخص کے مقابلے میں بہ اتم رہتی ہے جو راستہ کی تلاش کیلئے مضطرب و بے قرار پھر رہا ہوتا ہے لیکن قوم میں جذبہ تجسس و تلاش اور کدوکاوش کی کیفیت کو ملحوظ رکھنے کے بجائے اسلاف پرستی میں گم رہنے کو ترجیح دے دی جائے تو پھر قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود قوم کا ہوگا جو اپنے ہاتھوں اُن نااہل حکمرانوں کو خود پر مسلط کرتے ہیں جنہیں مختلف حیلوں اور عجیب و غریب توجہیہ سے قوم کو خود فریبی کے دھوکے میں مبتلا کرکے فائدے اٹھانے کا ملکہ حاصل ہے لیکن کیا کبھی قومِ نے یہ سوچا کہ جو خاموشی کا عمل ہم سے سرزد ہورہا ہے اس کے نتائج کیا ہیں ۔
اگرقوم ابن الوقت سیاست دانوں کی قدم بوسی کی روایت کو ترک کرنے سے گریز کی راہ اپنانے کے بجائے اپنی روایتی بے حسی پر قائم دائم رہی تو کوئی مورخ ایسی قوم کے تباہی کے اسباب پر رائے زنی بھی نہیں کرے گا جو اپنی تاریخ کو صرف چند سالوں میں سیکڑوں بار بھلا چکے ہوں۔کسی کے ذاتی عمل کو اداروں پر تھونپا نہیں جاسکتا لیکن کوئی فرد واحد تمام تر قوت کے ساتھ محض ذاتی استطاعت کو کسی طول طویل مراحل کے تجارب کی روشنی میں کافی سمجھ کر انفرادی جرأت کا مظاہرہ بھی نہیں کر سکتا۔ پاکستان آج اس مرحلے پر متحمل نہیں ہو سکتا کہ حقائق کو منطقی انجام تک پہنچانے اور کڑی سے کڑی ملانے کیلئے انتظار کی مالا کو انگلیوں کے درمیان سے تھام کر اقتدار کو تسبیح کے دانوں کے طرح اس طرح گراتا رہے کہ زمین کو چھوئے بھی نہیں، ہاتھوں سے نکلے بھی نہیں اور انگلیوں کے اشاروں پر گھوم پھیر کسی جست کیلئے دوبارہ کمر بستہ ہوکر ملک کی خاموش اکثریت کو مزید کوئی بے وقوف بنا سکے۔ تاریخ مصنوعی نقاب کو نوچ لیتی ہے تو فطرت کا مقصد اس اسرار کا افشا ہوتا ہے جو کبھی غیب تھا لیکن پھر مشہود ہوکر تدبر و غور و فکر کیلئے قوم کے سامنے آسکے۔ ہمیں اپنے عرش سے اُتارے جانے کا سبب کے بجائے ضمیر کی زمین میں ہی تلاش کرنا ہوگا لیکن اس کیلئے دکھاوے کے پتلوں کو ہٹا کر فصل کی از خود حفاظت کرنا ہوگی۔ بہت جلد ایک بار پھر نئی فصل کیلئے نئے اور کیڑے لگے وائرس زدہ بیج قوم کے ہاتھوں میں ہوں گے فیصلہ صرف یہ کرنا ہوگا کون سے بیج استعمال کریں یا فصلی بٹیروں کو اپنی محنت کا بیج کھانے کی ایک بار پھر اجازت دی جائے۔ نسخہ ِ حیات نو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا ہے۔ نیا پاکستان چند قدم کے فاصلے پر ہے بس قوت فیصلہ درکار ہے اور یہ قوت فیصلہ تقدیر یا تدبیر یا عقل فیصلہ عوام کو کرنا ہوگا۔ نساگر عقلِ سلیم کا ادراک رکھے بغیر جمود کی روش پر قائم رہے تو قومیں تاریخ سے فنا ہوجاتی ہیں۔