تمام مراحل طے ہونے کے بعد اب قوم پولنگ ڈے کی طرف بڑھ رہی ہے ،لیکن سیاسی جماعتوں کے اندر اب بھی تقرریوں کاعمل جاری ہے اورٹکٹوں کی تقسیم سے لگنے والے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوسکے۔ابھی سلسلہ سیاسی جماعتوں کی ٹکٹوں کاختم نہیں ہوا تھا کہ درمیان میں ’’جیپ ‘‘کے نشان نے عجیب ہلچل مچادی اوروہ لوگ جوپہلے مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ کے لئے برسرپیکار تھے انہوں نے شیر کانشان واپس کرکے جیپ کاانتخابی نشان لے لیا اتنی بڑی تعداد میں جب امیدواروں نے ’’جیپ ‘‘کانشان لیا توچہ میگوئیاں شروع ہوئیں کہ اس کے پیچھے کون ہے اورکیوں بیٹھے بٹھائے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے جیپ کے نشان کواپنی منزل بنالیا ۔جنوبی پنجاب وہ واحد خطہ بن گیا ہے جہاں وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی بڑی تعداد سامنے آئی ہے ۔پہلے علیحدہ صوبہ کے نام پر 18کے قریب ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ (ن)سے بغاوت کی اوراب مزید 6امیدواروں نے جو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ یافتہ تھے ۔شیر کے نشان پر انتخاب لڑنے سے انکار کرتے ہوئے جیپ کانشان مانگ لیا ۔یادرہے کہ یہ نشان سب سے پہلے چوہدری نثار علی خان نے لیا تھا اوراس کے بعد یہ نشان لینے والوں کی ایک لائن لگ گئی۔ صرف جنوبی پنجاب ہی نہیں ،بلکہ لاہور سے زعیم قادری نے بھی جیپ کانشان لے کر یہ اشارہ دے دیا کہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت عملی ضرور شامل ہے جس گروپ نے علیحدہ صوبے کے نام پر جنوبی پنجاب میں صوبہ محاذ بناکر مسلم لیگ (ن) کوچھوڑا تھاوہ اب علیحدہ صوبے کانام بھی نہیں لے رہا اوران میں سے تمام سابق ارکان اسمبلی اس بار تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔گویا جنوبی پنجاب کی سیاست بڑی حد تک یکطرفہ ہوتی جارہی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی یہاں سے پہلے ہی سے عدم مقبولیت کاشکار ہوئی اورکئی حلقوں میں تواسے امیدوار ہی نہیں ملے۔ ملتان جیسے بڑے شہر میں بھی قومی وصوبائی اسمبلیوں کے کئی حلقوں میں پیپلزپارٹی کے امیدوار حصہ نہیں لے رہے جبکہ مسلم لیگ (ن) بھی اس حوالے سے مشکلات کاشکار ہے ۔مظفرگڑھ جیسے شہر میں ایک ہی شخص کو 5انتخابی ٹکٹیں دے دی گئی ہیں اوراب ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں 6امیدواروں کی آخروقت پرمسلم لیگ (ن)سے رخصتی بہت بڑا دھچکا بن گئی ہے کیونکہ ان لوگوں نے اس وقت مسلم لیگ (ن)کوخیر باد کہہ دیا۔جب انتخابات کے تمام مراحل گزرچکے ہیں ۔فہرستیں تیار ہوچکی ہیں،کاغذات واپس لئے جاچکے ہیں اورکسی نئے امیدوار کی انتخابات میں شرکت کاکوئی امکان باقی نہیں رہا ۔گویا یہ 6حلقے جہاں سے مسلم لیگ (ن)نے منحرف ہونے والوں کوٹکٹ دیئے تھے۔
ادھر تحریک انصاف کابھی ملتان میں کم ازکم کوئی اچھا حال نہیں ہے ۔خاص طورپر ملتان شہر کی نشستیں جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار شاہ محمود قریشی،احمد حسن ڈیہڑ اورعامر ڈوگر شامل ہیں وہاں پارٹی انتشار کی زد میں ہے صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ تحریک انصاف کے ضلعی اورسٹی صدور ان امیدواروں کے سخت خلاف ہیں جنہیں ٹکٹیں مل گئی ہیں اصل معاملہ اس وقت بگڑا جب شاہ محمود قریشی نے صوبائی حلقوں میں اپنے من پسند امیدواروں کوپارٹی ٹکٹ بھجوائے اوروہ لوگ جو پارٹی کے بڑے عہدے دار بھی تھے جنہوں نے پارٹی کیلئے بہت محنت اوروقت بھی صرف کیاتھا۔ ٹکٹوں سے محروم کردیئے گئے ضلعی صدر اعجاز جنجوعہ اورسٹی صدر ڈاکٹر خالد خاکوانی کھل کرشاہ محمود قریشی کے سامنے آگئے اورانہوں نے علی الاعلان کہاکہ شاہ محمود قریشی کی وجہ سے تحریک انصاف ملتان کی ایک نشست بھی نہیں جیت سکے گی حتیٰ کہ خود شاہ محمود قریشی کی اپنی نشست خطرات کاشکار ہوجائے گی۔شاہ محمودقریشی نے کچھ لوگوں کوآخر وقت تک مبینہ طورپر جھانسے میں رکھاجس کی وجہ سے انہوں نے آزاد امیدوار یاپیپلزپارٹی کے امیدوار کے طورپر انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ کیاتھا۔ صوبائی حلقہ 217سے شیخ سلمان نعیم مضبوط امیدوار سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے پارٹی فنڈز کیلئے بھی بھاری رقوم دیں لیکن جب ٹکٹوں کی تقسیم کامرحلہ آیاتو صوبائی حلقہ 217میں شیخ سلمان نعیم کوٹکٹ دینے کی بجائے شاہ محمود قریشی نے خود اس حلقہ سے انتخاب لڑنے کافیصلہ کرلیا جسے شیخ سلمان نعیم نے اپنے ساتھ صریحاً ناانصافی قراردیتے ہوئے آزاد امیدوار کے طورپر ان کامقابلہ کرنے کی ٹھانی ہے۔ تحریک انصاف کے ایک اورامیدوار سلمان قریشی جو2017کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پرتحریک انصاف کے امیدوار تھے اس بار انہیں ٹکٹ سے محروم کردیا گیا جس پروہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے اوراین اے 154 سے مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ ہولڈر ہیں جہاں سے پہلے سابق وفاقی وزیر سکندر بوسن ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی تھے بعدازاں تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لئے انہوں نے مسلم لیگ کوخیرباد کہہ دیا تھا اوراب وہ اس حلقہ سے آزاد امیدوار کے طورپر حصہ لے رہے ہیں کیونکہ تحریک انصاف نے آخر وقت پرانہیں ٹکٹ دینے کافیصلہ واپس لے لیا اوران کے دیرینہ حریف احمد حسن ڈیہڑ کوایم این اے کاٹکٹ جاری کردیا ۔اس ساری صورتحال میں سید یوسف رضاگیلانی اپنی کامیاب مہم چلائے ہوئے ہیں۔ اقبال سراج جسے اس بناء پر شہرت ملی کہ مبینہ طورپر اس کی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے اداروں نے اسے تشدد کانشانہ بنایا اوروہ بعدازاں اپنے بیان سے مکر گیا۔اس صوبائی حلقہ سے امیدوار ہیں جہاں پہلے رائے منصب علی مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے تھے ۔جب انہیں ٹکٹ نہ ملی توانہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔اب وہ اقبال سراج کے خلاف پیپلزپارٹی کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ یادرہے کہ یہ وہ صوبائی حلقہ ہے جوسید یوسف رضاگیلانی کے این اے 158کے صوبائی حلقہ میں شامل ہے ۔دوسری طرف مخدوم جاوید ہاشمی کے بارے میں ابھی تک یہ تبصرے جاری ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے انہیں ٹکٹ کیوں نہیں دیا ۔