• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
, ,

پنجاب کی طرح خیبر پختونخواہ میں بھی بیوروکریسی میں تبادلوں کا مطالبہ

پنجاب کی طرح خیبر پختونخواہ میں بھی بیوروکریسی میں تبادلوں کا مطالبہ

عام انتخابات 2018ء میں 17روز باقی ہیں لہٰذا ملک بھر میں تمام جماعتوں کے قائدین اور امیدواروں کی جانب سے شدید گرمی اور حبس کے باوجود خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں‘ سیاسی جماعتیں صوبے میں اکثریت حاصل کرنے اور حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہیں تاہم فیصلہ کن گھڑی 25جولائی کو ہوگی جب عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرینگے‘ سیاسی جماعتیں خیبرپختونخوا میں پری پول دھاندلی کا الزام بھی لگا رہی ہیں‘ عمران خان نے گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کو ہٹانے کیلئے الیکشن کمیشن کو خط ارسال کیا اور الزام لگایا کہ گورنر انتخابات پر اثر انداز ہونگے لہٰذا انہیں اپنے عہدے سے ہٹایا جائے‘ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے بھی الیکشن کمیشن کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے صوبے میں اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسروں کے تبادلوں کا مطالبہ کیا ہے ‘ اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار نے اپنے خط میں الیکشن کمیشن کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ خیبر پختونخوا میں نگران حکومت کی جانب سے کئے جانے والے تبادلے اور تقرریوں پر تحفظات سامنے آ رہے ہیں کیونکہ ان تقرریوں و تبادلوں کا اصل مقصد سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور بادی النظر میں یہ پری پول رگنگ ہے‘اس حوالے سے بیانات مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں جن پر نگران صوبائی حکومت نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کی کوئی تردید نہیں کی ‘ خط میں کہا گیا ہے کہ سابق حکومت کی سیاسی چھتری تلے پروان چڑھنے والی بیوروکریسی کو صرف ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تبدیل کیا گیا جس سے تمام اضلاع میں انتخابات مشکوک ہو چکے ہیں ، الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے اور سابق حکومت کے من پسند افراد دھاندلی کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کیلئے تمام سیاسی حمایت یافتہ افسران کو کھڈے لائن لگایا جائے اور پنجاب کی طرز پر جتنے افسران او ایس ڈی بنائے گئے ہیں انہیں اوپر لا کر تعینات کیا جائے۔ مزید کہاگیا ہے کہ مختلف اضلاع میں سابق حکومت کے نمائندے سیاسی رشوت کے طور پر ترقیاتی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان تمام کاموں کے شواہد تک موجود ہیں کیونکہ سر عام یہ ترقیاتی کام جاری ہیں جس سے الیکشن کمیشن کی حیثیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں لہٰذا ان تمام اقدامات کا سختی سے نوٹس لے کر ضابطہ اخلاق کی پابندی کے زمرے میں لایا جائے‘ ماضی میں 2013ء کے انتخابات کے دوران صوبہ بھر میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھاکیونکہ ان کے قائدین اور امیدواروں پر حملے بھی ہوئے جبکہ حساس اداروں نے انہیں کسی بھی ممکنہ حملے سے باخبر رکھا تاکہ وہ کسی ہولناک واقعے کا نشانہ نہ بن جائیں یوں صوبہ بھر میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو اپنی انتخابی سرگرمیاں محدود کرنا پڑیں ‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن وامان کی بحالی کے بعد اب 2018ء کے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ آزادانہ ‘ منصفانہ اور غیر جابندارانہ بنانے کیلئے پنجاب کی طرز پر خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی میں بھی تبادلے کئے جائیں تاکہ اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور ہو سکیں‘افسروں کی اکثریت کو سابق تحریک انصاف حکومت نے تعینات کیا تھا جن کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں‘ پنجاب میں تحریک انصاف کے مطالبہ پر افسروں کی اکثریت کو وفاق تبدیل کردیا تاہم خیبرپختونخوا میں صورتحال یکسر مختلف ہے اب تک کسی بھی سرکاری افسر کو صوبے سے وفاق میں تبدیل نہیں کیاگیا جس کے باعث شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں ‘ بعض افسر کئی سالوں سے ایک ہی عہدے پر تعینات ہیں جس کے باعث وہ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ‘ خیبرپختونخوا کے گریڈ 20اور 21کے سیکرٹریز اور بعض اہم عہدے پر فائز افسروں کو تبدیل نہیں کیا گیا جبکہ دیگر تبادلے بھی صرف دیکھاوے کیلئے کئے گئے ہیں کیونکہ کئی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو ایک ضلع سے دوسرے ضلع بھجوایاگیا ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین