• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

متعدد انسانی جانیں نگلنے والا تیغانی اور بجارانی

متعدد انسانی جانیں نگلنے والا تیغانی اور بجارانی

شکارپور سے ملحقہ بیشتردیہی و شہری علاقے جوگزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف قبائلی تنازعات اور خوں ریزی کی لپیٹ میں ہونے کے باعث تعلیم، صحت اور امن و امان جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان قبائلی تنازعات کے خاتمے کے لئے پولیس اورضلعی انتظامیہ سمیت مختلف ادوارمیں یہاں سے منتخب ہونے والے سیاسی نمائندگان کی کوششیں صرف بیانات کی حد تک ہی نظر آئیں۔خونی واقعات کی جانب ان کی عدم دلچسپی کا واضح ثبوت گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ ختم ہونے والےان قبائلی تنازعات میں جاں بحق ہونے والےسینکڑوافرادکی تعداد سے ہی مل سکتا ہے۔ 

مختلف قبائل کے درمیان جاری خونریز تنازعات میں سے ایک خونریز تنازعہ تحصیل خانپور میں تھانہ ناپر کوٹ کی حدود کچے کے علاقے گاؤں حاجی مہران خان بجارانی میں تیغانی اور بجارانی برادری کے درمیان کئی برسوں سے جاری ہے، جس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہونے کے ساتھ روز بہ روز زخمیوں کی تعداد میں اضافہ معمول میں شامل ہوگیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں کے لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم رہ کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔کئی برسوں سے جاری یہ خونریز تنازعہ کچھ روزقبل اس وقت بھڑک اٹھا جب علی الصباح تیغانی برادری کے بیس سے پچیس مسلح افراد نے مبینہ طور پر گاؤں حاجی مہران خان بجارانی پر حملہ آور ہوکر گولیوں کی بوچھاڑ شروع کردی اور بھاری ہتھیار استعمال کرتے ہوئے گولے بھی داغے گئے۔ 

متعدد انسانی جانیں نگلنے والا تیغانی اور بجارانی

فائرنگ کی زد میں آکر بجارانی برادری کے چالیس سالہ امیربخش بجارانی اور تیس سالہ دلی جان بجارانی موقع پر ہی جاں بحق ہوگئےجب کہ مذکورہ برادری سے تعلق رکھنے والےسات افراد محمدیحییٰ، آدم،محمد پنہل، محمداشرف، گل شیر، ولی محمد اور محمد نوح شدید زخمی ہوگئے۔ تیغانی برادری کے حملہ آوروں نے جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش کی تو بجارانی برادری کے مسلح افراد کی جانب سے ان کا تعاقب کیا گیا اور ان پر جوابی فائرنگ شروع کی گئی۔ دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں پورا علاقہ جنگ کا میدان بن گیا،اور گولیوں اور دھماکوں کی خوفناک آوازوں سے لوگوں میں خوفف وہراس پھیل گیا۔ 

واقعے کی اطلاع ملنے پر مختلف تھانوں کی پولیس نفری اے پی سی چینز ، بکتر بند گاڑیوں اور پولیس موبائلوں میں سوار ہوکر جائے وقوعہ پر پہنچی، جہاں تیغانی برادری نے پولیس پارٹی پر بھی حملہ کردیا، پولیس سےمقابلے کے دوران تیغانی برادری کے تین حملہ آور مارے گئے۔ہلاک ہونے والوں میں سےدو کی لاشیں پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیں، جن کی شناخت سلیمان تیغانی اور قابل تیغانی کےنام سےہوئی جب کہ تیسرے ہلاک ہونے والےشخص لقمان تیغانی کی لاش کو اس کے ساتھی اٹھا کر لے گئےجسےپولیس تاحال بازیاب کرانے میں ناکام رہی ہے۔ 

پولیس مقابلے میں سات ملزمان کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، جن میں بیلو تیغانی، کرموں تیغانی،غازی تیغانی، خیر محمدتیغانی، ہوندل تیغانی، حیات تیغانی اور اختیار تیغانی شامل ہیں۔مقابلے کے دوران مارے جانے والے دونوں ملزمان کی لاشوں کو پولیس نے اپنی تحویل میںلے کر خانپور اسپتال پہنچایا، جہاں سے پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد ان کے ورثاء کے حوالے کیا گیا۔ دوسری جانب بجارانی برادری کے دونوں مقتولین کی لاشوں سمیت زخمیوں کو شکارپور اور سکھرکے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔زخمیوں میں سے تیس سالہ محمد یحیٰ بجارانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سکھر کےاسپتال میں ہی دم توڑ گیا،جس سے بجارانی برادری کے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد تین ہوگئی ہے۔

متحارب گروپوں کے درمیان حالیہ تصادم میںدونوں فریقین کےچھ افراد ہلاک جب کہ چودہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔جنگ کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق، دونوں برادریوں کے درمیان برسوں سےجاری اس خونریز تنازعے نےاب تک 25سے زائد لوگوں کی قیمتی زندگیوں کی بھینٹ لے لی ہےجب کہ سیکڑوں افراد کو اس حد تک زخمی کردیا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق مذکورہ فریقین کے درمیان جاری اس خونریز تنازعے کا تصفیہ کرانے کے لئےکچھ عرصہ قبل سردار تیغو خان تیغانی کی سربراہی میں جرگہ بلایا گیا تھا، جس میں بجارانی برادری کی جانب سےتیغانی برادری کو بطور جرمانہ ایک خطیر رقم ادا کی گئی تھی۔

لیکن دونوں برادریوں کو شیر و شکر کرنے کی یہ کوشش بھی ناکام ثابت ہوئی اور کچھ ہی ماہ بعد تیغانی برادری نے شروعات کرتے ہوئے بجارانی برادری کا ایک شخص قتل کردیا، جس کے بعد سے یہ خونریز تنازعہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ حالیہ تصادم میں دونوں برادریوں کے مسلح افراد مورچہ بند ہوکر ایک دوسرے کی تاک میں بیٹھے رہے۔ پولیس نے فریقین میں ممکنہ تصادم کے دوران مزید خونریزی کی روک تھام کے لئے کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں عارضی طور پر پولیس چوکی قائم کرتے ہوئے اے پی سی چینز اور بکتر بند گاڑیوںسمیت پولیس موبائلوں میں پولیس اہلکاروں کوتعینات کردیاہے۔ 

اس سلسلے میں سابق ایس ایس پی شکارپور، مسعود احمد بنگش نے روزنامہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقابلے کے دوران مارا گیا ملزم قابل تیغانی بدنام ڈاکو جھنگل تیغانی کا بیٹا اور ڈاکو بیلو تیغانی کا بھتیجا تھا۔قابل تیغانی اورسلیمان تیغانی کے سروں پر حکومت کی جانب سےپانچ پانچ لاکھ روپے انعام مقرر کیا ہو اتھا۔ مقابلے میں بدنام ڈاکو بیلو تیغانی،غازی، حیات اور کرمو سمیت سات ملزمان زخمی ہوگئے جو کہ گھنے جنگلات کا فائدہ اٹھاکر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے،جبکہ مارے جانے والے ساتھی لقمان تیغانی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔انہوں نے بتایا کہ گڑھی تیغو میں کچے کاعلاقہ چار اضلاع شکارپور، سکھر، گھوٹکی اور کشمور کندھ کوٹ کی سرحدی پٹی سے جاملتا ہے جہاں گھنے آبی جنگلات ہیں۔ 

پولیس کو مذکورہ کارروائی کے دوران بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے،جس میں ڈاکوؤںں کابھاری نقصان ہوا ہے۔ شکارپور سمیت کشمور کندھکوٹ، سکھر اور گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری پولیس اور رینجرز کےمشترکہ آپریشن میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ کشمور کندھکوٹ سے گھوٹکی تک بننے والا پُل پایہ تکمیل تک پہنچنے سےڈاکؤں کی کمین گاہوں کو نقصان پہنچے گا،جس سے ہمیں جرائم پر قابو پانے میں کافی مدد ملے گی ۔

دوسری جانب تھانہ ناپر کوٹ میں بجارانی برادری کے تین مقتولین کے قتل کا مقدمہ محمد صالح بجارانی کی مدعیت میں تیغانی برادری کے مذکورہ سات زخمیوں سمیت اڑتیس لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ۔جبکہ تھانہ ناپر کوٹ میں ہی انچارج ایس ایچ او محمد افضل جتوئی کی مدعیت میں تیغانی برادری کے مارے گئے سلیمان تیغانی اور قابل تیغانی کے علاوہ سات زخمیوں سمیت 42 ملزمان پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقابلے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ذرائع کے مطابق پولیس نے مقدمے میں صرف دو مسلح افراد کے مارے جانے کا ذکر کیا ہے، جبکہ تیسرےہلاک ہونے والے مبینہ ڈاکو لقمان کا مقدمے میں کہیں بھی تذکرہ نہیں آیا۔ 

اس سلسلے میں سول سوسائٹی نے شکارپور سمیت ملحقہ علاقوں میں جاری ان دیرینہ قبائلی تنازعات میں خونریزی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔انہوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ علاقوں میں جاری دیرینہ تنازعات میں ملوث مطلوبہ ملزمان سمیت ان کے سہولت کاروں کو گرفتارکرتے ہوئےخونریز تنازعات کا خاتمہ کرکے امن و امان کی فضا کو قائم کیا جائے۔بجارانی برادری کےمتاثرین احسان خان بجارانی، شیر محمد بجارانی، جلال الدین بجارانی اور محمد عیسیٰ بجارانی کا کہنا ہے کہ برادریوں کے مابین تنازعات کی وجہ سے ممکنہ حملوں کے خوف سےہم اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ہمارے بچے تعلیم جیسے زیور سمیت صحت کی تمام تر سہولتوں سے بھی محروم ہوکر رہ گئے ہیں۔انہوں حکامِ اعلیٰ سے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے علاقے میں کشیدگی کو کم کراکے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے اعلان شدہ پولیس چوکی قائم کرکے دیہاتیوں کو تحفظ فراہم کرنےکا مطالبہ کیا۔ 

پولیس کی جانب سے متاثرہ علاقے میں پولیس چوکی قائم کرکے علاقہ باسیوں کو تحفظ فراہم کرنےدونوں برادریوں کے درمیان تنازعے کا تصفیہ کرانے کا جو خواب دکھایا گیا تھا،وہ ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی روزقبل گاؤںحاجی مہران خان بجارانی کا سانحہ رونماہوا جس میں شدید فائرنگ کے ساتھ ساتھ راکٹ لانچر کا استعمال کرتے ہوئے راکٹ بھی داغے گئے۔سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے علاقے میں فوری طور سے پولیس چوکیاں قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین