• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خطرناک رجحان

سابق حکومت نے جاتے جاتے روپے کی قدر میں کمی کی بنیاد ر کھ دی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب درآمدات ، برآمدات سے آگے نکل جائیں تو یہ اس بات کا مضبوط اشارہ ہے کہ پیداوار غیرمسابقتی ہوتی جارہی ہے۔ جب عدم توازن کا یہ عمل شروع ہوجائے تو مسابقت کے باقی حالات کو یہ عمل خود بخود زمین بوس کرتا چلا جاتا ہے۔ جب درآمدات اور برآمدات کا توزان بگڑ جائے تو نتیجے میں بننے والے قرضے مسابقت کے عمل کو کمزور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ قرضوں میں مسلسل اضافہ ، قومی پیداوار اور مینوفیکچرنگ میں مسلسل کمی عالمی تجارت میں غیرمسابقتی ہونے کی علامت ہے پھر قرضوں کے بدلے خام مال یا خام پیداوار باہر منتقل ہونے لگتی ہے۔ کرنسی کی قیمت کی مضبوطی کا انحصار برآمدات پر ہے۔ قوم کواس وقت مسابقتی صلاحیتوں کومسمار کرنے والی عفریتوں کے نرغے سے نکالنےکے لئےابھی تک غور کرنے کا آغاز نہیں ہوا۔ 

عالمی سطح پر جو نظام رائج ہےاس میں جب صنعتی سرمایہ ، مالیاتی سرمائے (مشینری ، کرنسی) میں تبدیل ہوا تو پس ماندہ ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں تیزی کے ساتھ اتار چڑھائو شروع ہوا۔ سٹہ بازی ، افراط زر اور توازن ادائیگیوں کے بحران نے جو دراصل زرمبادلہ کے حصول کا بھی بحران ہے، اس نے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کردیا، خاص طور پر جن ملکوں نے اپنی معیشت کی بنیاد قرضوں پر رکھی اور آج پاکستان اس کی بدترین مثال بن گیا۔ گزشتہ تین ماہ میں کرنسی کی (روپے) ڈالر کے مقابلے میں قدر 15 فیصد کم ہوئی ہے لیکن 15فیصد برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں 15فیصد کمی نہیں آئی اس لئے روپے کی قدر کی اس قسم کی کمی کہ جس کے نتائج بھی منفی ہوں پیداواری لاگت کو بڑھاتی ہے۔ اور عالمی مسابقت میں مقابلے کو مزید مشکل سے دوچار کرتی ہے صرف ایک دن میں گزشتہ ماہ روپے کی قدرمیں 3.5فیصد کمی واقع ہوئی اسٹیٹ بینک نے اس کمی کو ’’مارکیٹ کی بنیاد پر ایدجسٹمنٹ‘‘ کا نام دیا۔ 

اس کا مطلب یہ بھی ہےکہ اس سے پہلے اسٹیٹ بینک ڈالروں کو مارکیٹ میں ڈال کر مداخلت کرتا تھا اب ایسا نہیں کیا۔ روپے کی قدر میں دسمبر 2017ء کے بعد تین مرتبہ کمی کی جاچکی ہے۔ آئی ایم ایف روپے کی قدر میں کمی کے لئے کافی عرصے سے ہدایات دیتا رہا لیکن ایسا نہ ہوا جس کی وجہ سے اب مسلسل کمی کی جارہی ہے۔ دسمبر میں 5فیصد کمی کی گئی۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد مارچ میں 4.5فیصد کمی کی گئی۔ زرمبادلہ کے نرخوں میں زوال پذیری نے اسٹیٹ بینک کو مزید مشکلات میں ڈال دیا۔ ایک دشواری جو گزشتہ کئی سالوں سے توازن ادائیگیوں کے لئے مصیبت بنی ہوئی تھی وہ کرنٹ اکائونٹ میں اضافہ ہے ،ا ب یہ اضافہ 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک اس بارے میں بار بار ایک رائے دیتا رہا ہے کہ، زرمبادلہ کے نرخ کی یہ موومنٹ برقرار رہے گی جب تک زرمبادلہ کی منڈی میں رسد اور طلب میں توازن پیدا نہیں ہوگا ۔

لیکن اس کی حقیقی وجہ بیان نہیں کی، ظاہر ہے جب برآمدات میں کمی رہے گی اور درآمدات بڑھتی رہیں گی تو، توازن ادائیگیوں کا خسارہ بھی بڑھتا اور کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ بھی بے قابو رہے گا اور یہی حالت اس وقت پاکستان کی ہے ،جس کے نتیجہ میں نگراں حکومتیں یہ تو نہیں کہہ سکتیں کہ یہ سابق حکومت کی غلط حکمت عملیاں تھیں جن کی وجہ سے پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا اور ابھی مزید اضافہ ہونا باقی ہے، کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان بجلی پیدا کرنے کے لئے فرنس آئل استعمال کرتا ہے، لہٰذا اس کا درآمدی بل مزید قرضوں کے حصول کا تقاضا کرے گا۔ حالات خراب دیکھتے ہوئے چین نے اسٹیٹ بینک میں ایک ارب ڈالر ڈپازٹ کئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی بات ستمبر میں ہونی ہے اور پاکستان کے پاس درآمدات کے لئے بمشکل 10ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرمبادلہ کی کمی کو کس طرح پورا کیا جائے اور اگلے دو سالوں میں 25ارب ڈالر کے قرضوں کی قسطیں بھی واپس کرنی ہیں۔ جب روپے کی قدر میں کمی کا رجحان برقرار رہے تو قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے اور سٹہ بازی روپے کی گرواٹ کو مہمیز لگاتی ہے۔ 

یہ سرمایہ دارانہ نظام کا مالیاتی کھیل ہے ،اس کے ساتھ حکومتیں بھی کھیلنا شروع کردیں تو ترقی پذیر ممالک دیوالیہ ہونے کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ ارجنٹائنا اور یونان دونوں کی حالت ابھی تک نہیں سدھری، دونوں ممالک 50ارب ڈالر سے زئد قرض آئی ایم ایف سے لے چکے ہیں۔ اس ماحول میں یہ دیکھنا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کن شرائط پر کوئی پیکیج دے گا، آنے والی حکومت کے لئے ایسی دشواریاں درپیش ہو ں گی جن کا ان کو ابھی تک کوئی احساس نہیں۔ قیاس آرائیوں کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کو اسٹیٹ بینک ڈالر وں کے ذریعے مداخلت ہی کرسکتا ہے، تاکہ ضرورت سے زیادہ روپے کی قدر میں کمی نہ ہو۔ ابھی تک نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کسی قسم کا اس بارے میں بیان نہیں دیا۔سابق حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مارچ 2018 میں ایک بیان میں کہا تھا ،روپےکی قدر 115روپے فی ڈالر پر جاکر ٹھہر جائے گی اور یہ نرخ دسمبر تک برقرار رہیں گے۔ 

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ 15فیصد روپے کی قدر میں کمی کیا وہ نتائج پیدا کرسکتی ہے جس کے لئے روپے کی قدر کو کم کرتے وقت سوچا گیا تھا۔ مسئلہ یہ بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان کی حکومتیں جن میں وزراء خزانہ معین قریشی ، شوکت عزیز اور اسحاق ڈار رہے ہیں ،انہوں نے پاکستانی معاشرے کو صنعتی سرمائے میں تبدیل کرنے کے بجائے اسے اپنے لئے ایک بوجھ میں تبدیل کردیا ہے، چنانچہ پاکستان ایسے قرضوں میں پھنس گیا ہے جس میں انسانی اور مادی خام وسائل کی باہر منتقلی کو روکنا محال کردیا ہے۔

عالمی بینک کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے 10ارب ڈالر لانڈر ہو کر بیرون ملک جا رہے ہیں تو پھر ملک کن بنیادوں پر ترقی کر سکتا ہے۔ اس لئے پاکستانی سرمائے کے بدلے سرمایہ، ذہانت کے بدلے ذہانت، اور محنت کے بدلے محنت کی تجارت سے محروم ملک ہے۔ پاکستان کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ جاری مالیاتی سال کے گیارہ ماہ میں 33.9ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ درآمدات میں اضافہ سی پیک کی وجہ سے بھی ہے لیکن ایکسپورٹ پیکج اس قدر نہیں جو بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو قابو میں رکھ سکے۔ 

سابق حکومت اور اس سے پہلے کی حکومتوں نے عالمی منڈیوں میں پاکستان کو مارکیٹ ہی نہیں کیا اور نہ ہی بیرون ملک سفارت کار اس قدر ملک سے محبت کرنے والے تعینات کئے جاتے رہے ہیں جو ایکسپورٹ بڑھانے میں پاکستان کو مارکیٹ کرتے ۔پاکستان کے بیورو آف شماریات کے مطابق، مئی کے مہینے میں پاکستان کی درآمدات 5.8ارب ڈالر رہی ہیں اور گیارہ ماہ میں کل درآمدات55.2ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں، اس کے مقابلے میں برآمدات میں معمولی اضافہ ہوا ہے، جس سے تجارتی خسارہ 35ارب ڈالر کی خطرناک ترین حد تک پہنچ گیا ہے اور بیرونی قرضے 95ارب ڈالر تک ریکارڈ کئے گئے۔ گردشی قرضے ایک ہزار ارب روپے اور زر مبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر ہیں ،لہٰذا کوئی بھی محب وطن ان علامات کو اگر سمجھتا ہے تو اسےڈپریشن ضرور ہوتا ہو گا کہ آخر نگرانوں کو اتنا تو کرنا چاہئے کہ پاکستان کے تمام مستند معیشت دانوں کو اکٹھا کرکے اس بحران سے نکلنے کی تجاویز تو سامنے لائیں تاکہ موجودہ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے منشوروں میں کوئی لائحہ عمل پیش کریں، ابھی تو ٹکٹوں کی لاٹری میں سیاست دان گم ہیں۔

البتہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو آئوٹ باکس اعلان کیا ہے۔ وہ بالکل درست ہےکہ جنہوں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں ان سے رقوم لے کر دو ڈیم بنائے جائیں گے۔لیکن نگران حکومت کو بھی سدھار کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ کم از کم غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا دینی چاہئے، جس سے عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کو بھی زک نہ پہنچے ،حالانکہ امریکا نے تو 50ارب ڈالر کی کسٹم ڈیوٹی درآمدات پر عائد کردی ہے۔ استعمال شدہ گاڑیاں جو تحفوں کے نام پر آتی ہیں ان پر نگرانوں کو کچھ کرنا چاہئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا عملہ جو 70سالہ جشن منا رہا ہے وہ مبارک باد کے مستحق ہے کہ انہوں نے جب پاکستان کے پاس بینکاری نظام نہیں تھا یکم جولائی1948کو قائد اعظم نے اس کا افتتاح کر دیا۔ مرکزی بینک سرمایہ داری نظام میں بنکوں کو ریگو لیٹ کرتا ہے۔ نوٹ جاری کرتا ہے، سود کی شرح مقرر کرتا ہے۔ کریڈٹ اور افراط زر کو کنٹرول کرتا ہے۔ سب سے افزوں روپے کی قدر پر کڑی نظر رکھتا ہے لیکن حکومتوں اور وزارت خزانہ مداخلت کریں تو اسٹیٹ بینک درست طریقے سے کام نہیں کر سکتا ،اور پاکستان میں یہی ہوتا رہا ہے۔ 

اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں، تو یہ دکھائی دیتا ہےکہ مارچ میں روپے کی قدر میں دوسری بار کمی کی گئی، اس وقت بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 11.944ارب ڈالر تھے جو کم ہو کر 10.041ارب ڈالر یکم جون 2018کو ہو گئے۔ جیسے بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ دو ماہ کی درآمدات کے لئے ناکافی ہیں۔زرمبادلہ کے ذخائر کم از کم تین ماہ کے لئے ہونے چاہیں ،نگران حکومت کو اس بارے میں تجاویز دینے میں کوئی طرف داری کا طعنہ نہیں دے سکتا۔ ڈاکٹر شمشاد اختر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی گورنر اورعالمی مالیاتی اداروں میں بھی رہی ہیں، ڈاکٹر عشرت حسین اور دیگر معیشت دان بھی موجود ہیں۔ 70 سالہ جشن تب کارآمد ہو گا جب موجودہ اسٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ ان سب کے ساتھ مل کر زرمبادلہ کے بحران کا حل نکالیں اور پیش کریں۔ یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ نگران وزیر خزانہ نے آفیشل کو کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے گفت و شنید کریں۔ پاکستان کے معیشت دان انکم ٹیکس جو بہت کم وصول کیا جاتا ہے، ایف بی آر کے آفیشل سے مل کر مستقبل میں آنے والی حکومت تجاویز پیش کریں۔ کم از کم ان پٹ تو آنی چاہئے۔ 

کوئی عمل کرے نہ کرے یہ ان پر منحصر ہے۔ یہ بڑی دلچسپی کی بات ہے GAMبرطانیہ کی کمپنی کے پال میک نمارا نے کہا ہے کہ پاکستان گرتی ہوئی روپے کی قدر کے دوران بونڈز کو روک لے ،جب تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہو اور روپے کی قدر دوسری بار کم ہو رہی ہو تو معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ بونڈ کو روک لینا چاہئے۔ورنہ بیرونی قرضے بڑھ جائیں گے۔ جو بجٹ میں جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں ان میں نفی ردو بدل کرنا پڑے گا۔پاکستان کے قرضے مفتاح اسماعیل ،اسحاق ڈار کے دور میں 2013،62ارب ڈالر تھے جو اب92ارب ڈالر ہو گئے ہیں، پھر ان دونوں وزرا خزانہ نے تجارتی بینکوں سے بھی بلند شرح سود پر قرضے حاصل کئے ہیں ان سب بحرانی کیفیات کا ازالہ کرنے کے لئے پارٹیوں کو اپنے منشوروں میں لائحہ عمل دنیا وقت کا تقاضا ہے اور نگران حکومتیں تمام معیشت دانوں کو اکٹھا کر کے جو ہو سکتا ہے وہ کریں۔ اور آنے والی حکومت کو آرا ءبھی دے سکتی ہیں،اگر الیکشن ایکٹ2017نگران حکومت کو کسی بھی اقدام سے روکتا ہے لیکن تجاویز دینے میں تو حرج نہیں ،آئین کی آرٹیکل 224نگرانوں کے لئے کافی گنجائش رکھتا ہے۔ لیکن18ویں ترمیم نے اس پر بھی قدغن لگا دی ہے۔

تازہ ترین