• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمانہ کہہ رہا ہے مجھ کو لیڈر

محمد اسلام

ہم نے آج ملک کے ایک ممتازسیاست دان سے ایک ’’منفرد‘‘ انٹرویو کیا ہے۔ جس میں انہوں نے سیاست‘ سیاسی حکمت عملی‘معیشت‘تعلیم‘عوام‘ ترقیاتی کام‘ سیاسی کارکنوں اور سیاست دانوں کے طبقے سے متعلق سچی سچی اور کھری کھری باتیں کی ہیں۔ یہ ان کی زندگی کا واحد انٹرویو ہے جس میں انہوں نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں ہم نے ان سے وعدہ لیا تھا جس پر انہوں نے کہا تھا کہ ’’میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ اس منفردانٹرویو کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔

سوال:۔ آپ نے نوجوانوں کے لئے ’’بلیو کیپ‘‘ اسکیم کیوں شروع کی تھی؟

جواب:۔ ایک تو یہ کہ اس میں ہمارا ٹھیک ٹھاک کمیشن طے ہوگیا تھا، دوسرے ہم نوجوانوں کو ’’نوازنا‘‘ بھی چاہتے تھے۔

سوال:۔قوم کے لئے آپ کی نمایاں خدمات کیا ہیں؟

جواب:۔ہم صرف اپنی خدمت پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ جب فرد مضبوط ہوگا تو قوم بھی مضبوط ہوگی، یہی ہمارابنیادی نظریہ ہے۔

سوال:۔آپ ہر سال کے آغاز میں کیوں کہتے ہیں کہ یہ سال حکومت کے خاتمے کا سال ثابت ہوگا؟

جواب:۔ ہمیں علم ہے کہ ابھی حکومت جانے والی نہیں، مگر کارکنوں کو اپنے گرد جمع رکھنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ہماری سیاست کا حصہ ہے۔

سوال:۔اچھا یہ بتایئے آپ نے سیاست کب شروع کی؟

جواب:۔جب سیاست پر پابندی تھی ۔

سوال:۔سیاست میں آپ کی آمد حادثہ ہے۔ یا اس کا فیصلہ آپ نے خود کیا تھا؟

جواب:۔ میں سیاست میں خود نہیں آیا بلکہ مجھے سیاست میں لایا گیا تھا۔ اس مناسبت سے ایک شعر بھی عرض کردوں؎

زمانہ کہہ رہا ہے مجھ کو لیڈر

میں آرڈر دے کر بنوایا گیا ہوں

سوال:۔ ’’ملک کے ایک صوبے میں آپ کی پارٹی کو بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

جواب:۔ ’’دراصل اس صوبے کی ایک بڑی جماعت کے سیاسی مخالفین کو کوئی سیاسی پلیٹ فارم حاصل نہیں تھا لہذا وہ ہماری پارٹی میں شامل ہوگئے‘‘

سوال:۔ ’’گویا آپ کی پارٹی کے منشور یا نظریہ سے ان کی کوئی وابستگی نہیں؟‘‘

جواب:۔ ’’ارے!یہ فضول باتیں چھوڑیں جناب‘‘

سوال:۔ ’’آپ کراچی اور لاہور جیسے شہروں کو لندن اور پیرس بنانے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں لیکن اب تو یہ شہر کھنڈر بنتے جارہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘

جواب:۔ دراصل اس وقت فنڈز کی صورتحال اچھی محسوس ہورہی تھی مگر ’’فنڈز کی منصفانہ تقسیم‘‘ کے بعد ہم کراچی اور لاہور کو لندن اور پیرس نہ بناسکے۔‘‘

سوال:۔ ’’آپ دوسرے سیاسی رہنمائوں کے خلاف بہت سخت بیانات دیتے ہیں اور کارکنوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ انہیں پکڑ لیں، بھاگنے نہ دیں، بعد میں ٓپ ایک ہی تقریب میں ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں؟‘‘

جواب:۔ ’’درحقیقت ایسے بیانات عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ ویسے تو ہم سیاست دانوں کا طبقہ ہر اعتبار سے ایک ہی ہے‘‘

سوال:۔آپ بڑے جیالے قسم کے سیاست دان ہیں’’اجالا شاہی‘‘ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔

جواب:۔اجالا شاہی ٹھیک ٹھاک ہے اور اجالا شاہی اس وقت تک چلتی رہے گی۔ جب تک اسے ’’ کچھ بڑے چراغوں ‘‘ سے روشنی ملتی رہے گی۔ اجالا شاہی کا انحصار اسی روشنی پر ہے‘‘

سوال:۔ ’’آپ کو سیاست کا شوق کیسے ہوا؟‘‘

جواب:۔ہمارے گاؤں میں مرغیوں کی لڑائی ہوتی تھی۔ وہیں سے مجھے بندوں کو لڑانے کا شوق پیدا ہوا۔‘‘

سوال:۔ ’’یہ بتایئے آپ نے پاکستانی جامعات سے تعلیم حاصل کیوں نہیں کی؟‘‘

جواب:۔ یہ جامعات حکمران طبقہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اگر جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور ہماری دیگر یونیورسٹیاں حکمران پیدا کرتیں تو ہم ان اداروں سے ضرور تعلیم حاصل کرتے‘‘

سوال:۔ ’’مگر سراج محمد خان اور گلاس حسین‘ جیسے سیاست دان تو ان ہی جامعات سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں‘‘

جواب:۔ یہ لوگ کبھی ملک پر حکومت نہیں کرسکتے ،ویسے بھی یہ سیاست دان ہمارے’’ روایتی نظام‘‘میں رخنہ ڈالنے والے سیاسی عناصر ہیں‘‘

سوال:۔ جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے اقوال قوم کو سناتے ہیں، اقتدار سے محرومی کے بعد قوم پرستانہ بیانات دیتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟‘‘

جواب:۔ ’’یہ ہمارے پروفیشن کا حصہ ہے آپ خالص پیشہ ورانہ سوالات مت پوچھیں‘‘(ذرا غصہ سے)

سوال:۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ قوم کا ہر فرد مقروض ہے پھر سیاست دان شاہانہ زندگی کیسے بسر کرلیتے ہیں؟‘‘

جواب:۔ ’’اگر قوم کا ہر فرد مقروض نہیں ہوگا تو ہم شاہانہ زندگی کیسے گزارسکیں گے۔ آخر اس ملک پر ہمارا بھی تو حق ہے‘‘(بلا شبہ صرف آپ کا ہی حق ہے)

سوال:۔ آپ ہر پانچ سال بعد پارٹی کیوں بدل لیتے ہیں؟‘‘

جواب:۔ ’’اگر ہم پارٹی نہ بدلیں تو ہمارے ’’حالات بدل جانے‘‘کا خدشہ رہتا ہے‘‘

سوال:۔ اچھا یہ بتایئے’’ہارس ٹریڈنگ سے کیا مراد ہے؟‘‘

جواب:۔ ’’ارے بابا یہ تو بہت مشہور اصطلاح ہے۔ اس سے مراد اسلام آباد کاایک اصطبل ہے وہاں گھوڑوں کی تجارت ہوتی ہے، اسی لئے اسے ’’ہارس ٹریڈنگ ‘‘ کہتے ہیں‘‘

سوال:۔ ملک کی ترقی کے لئے آپ کے پاس کوئی پروگرام ہے؟

جواب:۔ ’’ ہم چاہتے ہیں کہ مزدور اور کسان ایمانداری اور محنت سے کام کریں(یعنی خود کچھ نہیں کرنا چاہتے)

سوال:۔ ’’یہ بتایئے! اگر تعلیم کی وزارت آپ کے پاس ہو تو آپ کیا کریں گے؟‘‘

جواب:۔تعلیم کے لئے ہمارے یہاں کافی فنڈز مختص کیا جاتا ہے۔ یہ شعبہ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ بس کبھی کبھی کچھ لڑکے ہنگامہ کرتے رہتے ہیںیوں بھی یہ شعبہ منافع کی سرمایہ کاری والا شعبہ نہیں ہے اور جہاں منافع نہ ہو وہاں ہم کیا اقدامات کریں‘‘

سوال:۔ ’’کیا آپ یہ بتاسکتے ہیں کہ سیاستدان برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ کیوں کہتا ہے کہ کسی دہشت گرد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟‘‘

جواب:۔ دراصل بیشتر دہشت گرد بہت سے کاموں کی اجازت لے لیتے ہیں۔ وہ قانون ہاتھ میں لینے پر بھی اصرار کرتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ اصولی بات ہے کہ کسی کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

سوال:۔ ’’یہ بتایئے مسئلہ کشمیر اب تک حل کیوں نہیں ہوا؟‘‘

جواب:۔ ’’کشمیری ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ یہ مذہبی مسئلہ ہے جس دن ہمارا ایمان جوش مارے گا، یہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا‘‘

سوال:۔ ’’سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں؟‘‘

جواب:۔ ’’یہ الزامات وہ لوگ لگاتے ہیں جو خود کچھ نہیں کرسکتے مگر ہم تو بہت کچھ کرسکتے ہیں لہذا ہمیں تو ’’کام‘‘ کرنے دو بھئی‘‘

سوال:۔ ’’یہ بتایئے پچھلے دور میں آپ پر ڈیڑھ سو مقدمات تھے وہ کیا ہوئے؟‘‘

جواب:۔ ’’اب ہم نے اپنے مخالفین پر ڈیڑھ سو مقدمات قائم کردیئے، یہ سلسلہ تو یوں ہی چلتا رہے گا‘‘

سوال:۔ ’’ جب آپ نے سیاست شروع کی تھی تو آپ بہت غریب تھے آپ کو اپنی غربت پر فخر بھی ہے، مگر اب آپ عشرت کدوں میںزندگی بسر کررہے ہیں یہ کیا ہے؟‘‘

جواب:۔ ’’ہم غریب ضرور تھے۔ مگر سیاست میں آنے کے بعد ہم نے وہی کیا جو دوسرے سیاستدان کرتے ہیں لیکن ہماری ترقی کی شرح ان سے زیادہ رہی‘‘

سوال:۔ ’’لوگ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن آپ ان سے اتنی محبت نہیں کرتے آپ کے شہر میں کئی نوجوان ہلاک ہوئےایسا کیوں ہے؟‘‘

جواب:۔ ’’اگر یہ لوگ ہلاک نہ ہوں تو ہم زندہ کیسے رہیں‘‘

سوال:۔ ’’آپ نے طاقت کے نشے میں سب کو ذلیل و رسوا کیا۔ اب آپ ان سے مدد کی اپیل کیوں کرتے ہیں؟‘‘

جواب:۔ ’’دراصل طاقت کا نشہ اترنے کے بعد ہماری عقل ٹھکانے آگئی ہے‘‘

سوال:۔ ’’آپ کی فکر اور فلسفہ آپ کے کارکنوں کو واضح نصب العین نہیں دیتا ،کیا یہ صحیح ہے؟‘‘

جواب:۔ ’’جی ہاں! یہ صحیح ہے کیونکہ ہم جن لوگوں کے لیڈر ہیں اگر انہیںکوئی واضح نصب العین دےدیا گیا تو وہ اسے ہر صورت میں حاصل کرلیں گے پھر ہماری سیاست کا کیا ہوگا‘‘

’’آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے اپنا قیمتی وقت نکالا اور ہمیں سیاست کی سچائیوں سے آگاہ کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہر شخص آپ کی طرح کھری کھری باتیں کرے تو یہ قوم بہت جلد ’’انقلاب‘‘ برپا کردے گی۔‘‘

تازہ ترین