• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظمت صحابہ ؓ قرآن و حدیث کی روشنی میں

تحریر:مولانا ضیاء المحسن طیب…برمنگھم
( اٹھارہویں سالانہ عظمت صحابہؓ کانفرنس پر خصوصی تحریر)
صحابہ، صحابی کی جمع ہے جس کے معنی ساتھی اور دوست کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں حضور اقدسﷺ کی زیارت اور صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ہو۔ پوری امت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال ایک ادنیٰ صحابی کے مقام اور مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ صحابی رسول کو حضور اقدسﷺ کی زیارت اور صحبت کا جو شرف حاصل ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی مکتوبات میں فرماتے ہیں ’’صحبت نبویؐ کی فضیلت تمام دوسرے فضائل و کمالات سے اعلیٰ و بالا ہے اور اسی واسطے حضرت اویس قرنی جو بلاشبہ تابعین میں افضل ترین ہیں، کسی ادنیٰ صحابی کے مقام اور مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے‘‘۔ آپ مزید فرماتے ہیں ’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان شرف صحبت و دیدار رسولﷺ و معجزات و خوارق کی وجہ سے شہودی ہوچکا ہے۔ بعد والوں نے جسے صرف سنا اس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘۔ پورا قرآن صحابہ کرام رضی الہ عنہم کی عظمت ومنزلت سے بھرا پڑا ہے۔ قرآن کریم نے صحابہ کرام ؇کے ایمان اور جنتی ہونے کی گواہی دی ہے۔ سورۂ توبہ میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے ’’اور مہاجرین و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان قبول کرنے میں سبقت کی اور جن لوگوں نے اخلاص کے ساتھ مہاجرین اور انصار کا اتباع کیا اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ تعالیٰٓ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور جگہ اس طرح ارشاد فرمایا ’’وہ تمام صحابہ؇ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا ان تمام کے لئے جنت کی بشارت ہے‘‘۔ ایک جگہ فرمایا ’’یقیناً اللہ راضی ہوگیا، مومنوں سے جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے‘‘۔ امام بغوکی نے اپنی تفسیر ’’معالم التزیل میں حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ان لوگوں میں سے کوئی ایک بھی دوزخ میں نہیں جائے گا جس نے درخت کے نیچے بیعت کی‘‘۔ صحابہ کرام ؇ کے متعلق زبان نبویﷺ سے جو الفاظ اور ہدایات جاری ہوئیں اسے ملاحظہ فرمائیں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’میرے صحابہ؇ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے میرے ساتھ دشمنی کی، جس نے ان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی‘‘۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں ’’جو شخص حضور اکرمﷺ کے صحابہ ؇سے حسد کرتا ہے ان سے جلتا ہے، ان کے متعلق بدگمانی کرتا ہے وہ کافروں میں شامل ہو جاتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو حضور اکرمﷺ کے صحابہ؇ اور ساتھیوں سے کتنا پیار تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں قریش کے بعض سرداروں نے جب آپ ﷺ سے کہا کہ ان غربا کو اپنے پاس سے اٹھا دیں تاکہ دولت مند اور سرداران قریش آپ کے پاس بیٹھ سکیں کیونکہ مکہ کے سرداروں کا ان کمزور اور غریب مسکین لوگوں کے ساتھ بیٹھنا ہماری توہین ہے۔ آپ ﷺ کے دل میں یہ خیال گزرا کہ ان غربا کو تھوڑی دیر کیلئے یہاں سے اٹھا دیتے ہیں یہ تو پکے مسلمان ہیں وہ اس بات سے رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اور قریش کے سردار بھی اس صورت میں دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائینگے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا ’’آپ ﷺ روکے رکھیں اپنے آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام طالب ہیں اس کے منہ کے اور نہ دوڑیں تیری آنکھیں ان کو چھوڑ کر تلاش میں رونق زندگانی دنیا کی‘‘۔ (سورۂ کہف 28)
مجدد الف ثانی سرہندیؒ فرماتے ہیں ’’صحابہ کرام؇ میں عیب نکالنا درحقیقت پیغمبر خدا کی ذات میں عیب نکالنا ہے۔ جو شخص صحابہ کرام ؇ کی تعظیم و توقیر کا منکر ہے اس کا رسول اللہ پر بھی ایمان نہیں کیونکہ صحابہ کرام ؇ میں خرابی و خبث کا پایا جانا درحقیقت حضور اقدسﷺ کی ذات مقدس میں تقص ہونے کا باعث ہے۔ صحابہ کرام ؇ پر تنقید کرنے سے پہلے انسان کو ہزار بار سوچنا چاہئے۔ صحابہ کرام ؇ وحی و رسالت اور دین نبوی کے براہ راست گواہ ہیں۔ قرآن کریم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قابل اعتراض ٹھہریں تو قرآن پر بھی اعتراض اٹھے گا۔۔ جہاں تک صحابہ کرام ؇ کے آپس کے اختلافات تھے، تو وہ خواہش نفسانی کے باعث ہرگز نہ تھے کیونکہ یہ حضرات حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے تزکیہ کے مقام پر فائز تھے۔ امت کا اس بات پر بھی اتفاق اور اجماع ہے کہ صحابہ کرام ؇ میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام؇ بشمول حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس پر متفق ہیں کہ ابوبکر صدیقؓ افضل ترین ہیں۔ دار قطنی میں روایت ہے سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ جس کو دیکھو کہ مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہے تو اس کو اتنے کوڑے مارو جس قدر کسی جھوٹ بولنے والے کو لگائے جاتے ہیں۔ اہلسنت کا اس بات کا اتفاق ہے کہ خلافت کی جو ترتیب ہے وہی ترتیب شرف اور فضیلت کی ہے۔ ابوبکرؓ پہلے، عمر فاروقؓ دوسرے، عثمان غنیؓ تیسرے، حضرت علیؓ چوتھے۔
تازہ ترین