• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا پر سیاسی تماشہ

ریاست کا چوتھا ستون صحافت، بلاشبہ کسی بھی معاشرے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں موثر طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ، گزشتہ چند برسوں کے دوران جس انداز سے زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے، وہیں ذرائع ابلاغ بھی روایتی اکائیوں جیسے اخبارات، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ گزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا کا شمار بھی طاقت ور ذرائع ابلاغ میں کیا جا رہا ہے اور صارفین اسے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جس کے باعث اس کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ہر گرزتے دن کے ساتھ اس کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیوں کہ یہ اظہارِ رائے اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے عزیز و اقارب سے رابطہ کرنے کے علاوہ مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات کے حصول کا بہترین ذریعہ بن چکا ہے۔ آج جن مسائل اور ایشوز کو روایتی میڈیا اہمیت نہیں دیتا وہ سوشل میڈیا کی بدولت اپنی جانب توجہ مبذول کروالیتا ہے، جن میں حالیہ ’’فروٹ بائیکاٹ‘‘ سے لے کر ’’زینب قتل کیس‘‘ تک مختلف اور اہم مسائل شامل ہیں، جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے کثیر تعداد میں عوام کی توجہ حاصل کرلی اور سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن کر اُبھرے۔

سوشل میڈیا نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی پر اثرات مرتب کیے، وہیں سیاست کا شعبہ بھی اس کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکا، اس کا اندازہ اس سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ، آج ملک کی ہر چھوٹی، بڑی سیاسی جماعتوں کا اپنا سوشل میڈیا سیل موجود ہے، جہاں سے وہ کسی بھی پہلو کے حوالے سے بروقت اور براہ راست اپنا موقف عوام تک پہنچا دیتے ہیں، جو مختلف میڈیا اداروں کی پالیسی کے باعث ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ بلاشبہ سیاسی جماعتیں بھی سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرہی ہیں، کیوں کہ اس پر بروقت عوامی ردِ عمل موصول ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کسی بھی مخصوص جماعت کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی مبصرین کی جانب سے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ، سوشل میڈیا آنے والے انتخابات میں اہم اور موثر کرادر ادا کرے گا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سیاست میں سوشل میڈیا کا کردار اس وقت مزید کھل کر سامنے آیا، جب امریکہ کے 2016 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ غیر متوقع طور پر صدر بن گئے، حالانکہ سیاسی تجزیہ نگار ہیلری کلنٹن کو فاتح قرار دے چکے تھے۔

اب اگر ہم اسی تناظر میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں مختلف سیاسی جماعتوں کے منظم سوشل میڈیا سیل نظر آئیں گے، جو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نت نئے طریقوں سے اپنی جماعت کا نظریہ عوام تک پہنچا رہے ہیں بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنا کر عوام کی ذہن سازی بھی کر رہے ہیں۔ تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے جیالے، کارکن اور حمایتی بھی ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوک رہے، بلکہ اپنی جماعت کا مقدمہ سوشل میڈیا پر خوب لڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جوں جوں پاکستان میں عام انتخابات قریب آرہے ہیں، سوشل میڈیا پر بیان بازی کا بازار زور و شور سے سرگرم ہے، بس ایسے میں دیر صرف کسی سیاسی رہنما کے بیان کی ہوتی ہے، جیسے ہی کسی سیاسی رہنما نے مخالفین کے خلاف کوئی بیان دیا، ویسے ہی سوشل میڈیا صارفین اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس کا تمسخر اُڑاتے یا تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مزاحیہ تصاویر، وڈیوز، پوسٹ اور توئٹز کرتے ہیں جو لمحہ بھر میں وائرل ہوجاتی ہیں، نیز ان کا ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے۔ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے ایسے ہی سیاسی بیانات، تجزئے اور اُمیدواروں کا احوال عرف ’’سیاسی تماشے‘‘ زیر نظر مضمون میں ملا حظہ فرمایئے، جنہیں سوشل میڈیا کے منچلوں (صارفین) نے حالیہ دنوں خوب آڑے ہاتھوں لیا۔

الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ کُل اثاثہ جات ظاہر کرنے کا حکم دیا تھا، بعدازاں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ اثاثہ جات منظر عام پر لائے گئے تا کہ مستقبل میں حکمرانوں کا بہتر احتساب کرسکے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد حکمرانوں کو اصل اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتی رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تنقید کا نشانہ بناتے وقت کسی نے بھی گالم گلوچ کا استعمال نہ کیا بلکہ طنزیہ انداز میں ایڈٹ تصاویر کا سہارا لیا، جس پر ’’2500 کنال بلاول ہاؤس کی قیمت 35 لاکھ روپے، 25000 کنال جاتی امراء کی قیمت 90 لاکھ روپے اور 300 کنال بنی گالہ کی کُل قیمت 76 کروڑ روپے‘‘ درج تھی۔ اس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’’اگر پراپرٹی کی قیمتیں گری ہوئی ہیں تو میں بھی پراپرٹی میں سرمایہ کاری کر لوں‘‘۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے پی پی پی کے چئیرمین کی جانب سے باؤل ہاؤس کی قیمت 35 لاکھ ظاہر کرنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں بلاول ہاؤس 50 لاکھ میں خریدنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے سیاست دانوں کے رہائش گاہ کی بولی لگاتے نظر آئے۔

سوشل میڈیا پر سیاسی تماشہ

سیاسی جماعتوں کی جانب سے جب انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوا تو ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کراچی سے کیا، اس مہم کے دوران شہباز شریف نے جوش خطابت میں کہا کہ، ’’پان کھانے والوں کے ’کرانچی‘ کو لاہور بناؤں گا‘‘۔ کراچی کو کرانچی اور پان کھانے والا کہنے پر کراچی والوں کے دل ٹوٹ گئے، بعدازاں نہ صرف سوشل میڈیا صارفین نے انہیں آڑئے ہاتھوں لیا بلکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں نے بھی انہیں نہ چھوڑا۔ مئیر کراچی وسیم اختر کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی، جس میں میڈیا سے گفتگو کرنے سے قبل انہوں نے انتہائی شاہانہ انداز میں پان منہ میں رکھا، یہ دیکھ کر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ، ’’کیا آپ پان کھا کر کسی کو جواب دے رہے ہیں یا یہ بتا رہے ہیں کہ، پان کھانا ہماری روایت ہے ہم کھائیں گے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ، ’’مجھے کسی کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے، میں خود ایک جواب ہوں۔‘‘ دوسری جانب فیصل سبزواری نے سوشل میڈیا پر وڈیو پیغام ریکارڈ کروایا، جس میں ایک شعر پڑھا، ’’کسی کے حکم پر ہرگیز نہ ناچے گی نہ ناچی ہے… اسی باعث تو کہتے ہیں کراچی پھر کراچی ہے اور اگر کرانچی بھی ہے تو کیا برا ہے بھائی!‘‘۔ ایسے میں بھلا تحریک انصاف کے علی زیدی کیسے خاموش رہ سکتے تھے شہباز شریف کی میڈیا بریفنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی علی زیدی کراچی کی سڑکوں پر پان کھانے نکل آئے، ان کی پان کھاتے ہوئے ریکارڈ کی گئی وڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی، جب کہ صارفین کی جانب سے شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ’’پان کھانا غریب عوام کے حقوق کھانے سے کئی گناہ بہتر ہے، کراچی کی نہیں لاہور کی ڈوبتی ہوئی سیاست کی فکر کرو‘‘، ایک نے لکھا کہ، ’’پان کھانا گدھے کھانے سے بہتر ہے‘‘۔ ایک خاتون نے ٹوئیٹ کیا کہ، ’’فرق ہوتا ہے جناب، پان کھانے میں اور تھوکنے میں‘‘ اس کے ساتھ ہی ’’کراچی کو عزت دو‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔

این اے 78 سے جب لیگی رہنماء سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے مد مقابل تحریک انصاف کے ابرارالحق کھڑے ہوئے تو، احسن اقبال نے ٹوئیٹ کیا کہ، ’’میرے مقابل اگر کسی سیاسی رہنما کو کھڑا نہیں کرسکتے تھے تو کم سے کم کسی وکیل کو ہی کھڑا کر دیتے، کسی ڈاکٹر، انجینئر کو کھڑا کرتے، مجھے ٹھمکے لگانے نہیں آتے‘‘ جس پر پی ٹی آئی کے حمایتوں نے انہیں ابرارالحق کی خدمات گنواتے ہوئے بتایا کہ ’’وہ میراثی (سنگر) گانے گانے سے قبل لاہور کے ایچ سن کالج میں جیوگرافی کا پروفیسر تھا، اس نے غریب عوام کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے دو اسپتال بنوائے اور یو این میں بحیثیت پاکستانی سفارت کار خدمات انجام دیں‘‘۔ جس کے بعد احسن اقبال نے وضاحتی ٹوئیٹ کیا کہ، انہوں نے ابرارالحق کو میراثی نہیں کہا۔

ایک جانب سیاسی رہنما سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک دوسرے کو ہلکے پھلکے انداز میں جوابات اور تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب ووٹرز نے بھی امیدواروں کو ٹف ٹائم دیا ہوا ہے۔ جہاں الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کے نمائندوں کا پہنچنا مشکل ہے، وہاں سوشل میڈیا نظر آتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں چاہے سستا ہی سہی کم و بیش اسمارٹ فون تو ہر کسی کے پاس ہے، تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ پاکستانی نیٹ استعمال کرتے ہیں، جن میں سے ساڑھے چار کروڑ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ استعمال کر رہے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی واقعہ پیش آیا، چند لمحوں میں وہ سوشل میڈیا کی زینت بن گیا۔ ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا جب امید وار ووٹ مانگنے اپنے اپنے حلقوں میں پہنچے تو ووٹرز نے ان پر نہ صرف سوالات کی بوچھاڑ کردی، بلکہ اچھی خاصی درگت بھی بنادی۔ ایسی ہی ایک وڈیو گزشتہ ماہ کے وسط میں وائرل ہوئی، جس میں صوبہ پنجاب کے پس ماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان سے مسلم لیگ ن کے رہنما سردار جمال لغاری کے قافلے کا چند نوجوان راستہ روکتے ہیں اور ان سے علاقے کو نظر انداز کرنے کے بارے میں بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وڈیو میں ایک نوجوان انگریزی زبان میں اپنے مسائل کے بارے میں بار بار بات کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سردار جمال لغاری کہتے ہیں کہ، وہ تعزیت کے لیے جا رہے ہیں، جس پر ہجوم میں سے آواز آتی ہے، وہاں پانچ برس تاخیر سے کیوں جا رہے ہیں۔ بات زیادہ بڑھتی ہے تو سردار جمال لغاری کہتے ہیں کہ، ’’آپ پہلے میرے سوالات کا جواب دیں کہ، یہ 42 کلومیٹر طویل پکی سڑک کس نے آپ کو دی ہے، یہ کیا رٹ لگائی ہوئی ہے، جمہوریت جمہوریت، مجھے پتہ ہے جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ یہ سڑک میں نے دی ہے۔۔۔‘‘

اس پر ایک نوجوان نے سوال کیا کہ، ’’اب میرے سوال کا جواب دیں کہ کتنے عرصے سے آپ کو ووٹ دیے رہے ہیں۔۔۔ اس پر سردار جمال لغاری کہتے ہیں کہ، ’’ایک ووٹ کی پرچی، وہ بھی اپنے قبیلے کے سربراہ کو دے رہے ہو اور اس پر اتنا ناز، آپ اپنے سوال کا جواب لینا بیٹا، 25 جولائی کو‘‘ اتنا کہہ کر سردار جمال لغاری روانہ ہو جاتے ہیں اور وہاں کھڑے نوجوان اپنے سوالات کا جواب نہ ملنے پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر سیاسی تماشہ

اس وڈیو کے سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے کے بعد جہاں ملک میں دہائیوں سے انتخابات میں جیتنے والے سرداروں اور جاگیرداروں کے بارے میں بات کی جا رہی ہے، وہیں ان نوجوانوں کی ہمت کو بھی داد دی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے ن لیگ کی حمایت کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ، ’’جمال لغاری 5 سال بعد جب اپنے حلقے میں گیا تو پڑھے لکھے نوجوانوں نے گھیر لیا۔ اب سمجھ آیا کہ نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں سستی تعلیم کےلئے سرکاری اسکولوں کی تعمیر پر پابندی کیوں لگا ئے رکھی، تاکہ قوم پڑھ لکھ کر ہمارا گریبان نہ پکڑے، ہم سے لوٹ کھسوٹ کا حساب نہ مانگے اور اگر حساب مانگو تو " مجھے کیوں نکالا"، پھر میری بیوی لندن کے مہنگے ترین ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ہم سے ہمدردی کرو۔ تف ہے!‘‘

ٹوئٹر پر طیبہ چوہدری نے وڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ، ’’ووٹ کو عزت دو یا ووٹ کی عزت لوٹو، جمال لغاری کا رویہ اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔اگر وڈیو نہ بن رہی ہوتی تو شاید وہ نوجوان زندہ نہ بچتے‘‘۔

اس پر ایک اور صارف رافی نے ٹویٹ کیا کہ، ’’مسلم لیگ نون جمال لغاری کو ووٹ کی عزت بتائے، جو آج اپنے حلقے کے ایک ووٹر سے پوچھ رہا تھا کہ ایک ووٹ کی پرچی پر اتنا ناز؟‘‘

ندیم احمد نہار نے اخباری تراشے کے ساتھ ٹوئیٹ کیا کہ ’’ن لیگی رہنما سردار جمال لغاری 5 سال بعد اپنے حلقہ میں آئے تو نوجوانوں نے راستہ روک کر سوال کرنے اور آئینہ دکھانے پر سردار جمال لغاری نے نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔‘‘

سوشل میڈیا پر زیادہ تر بیانات میں سردار جمال لغاری کی مذمت کی گئی لیکن ان کے دفاع میں بھی ٹوئیٹس کیے گئے، جس میں محمد رمضان علیانی نے ٹوئیٹ کیا کہ ’’جمال لغاری سے مجھے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن ایسا بالکل نہیں ہونا چائیے، غیر اخلاقی رویہ کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے‘‘۔

اس وڈیو پر کمینٹ کرنے والوں میں ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں کے حمایتی شامل تھے، جو اپنی اپنی پارٹی کے حق میں دلائل دیتے دکھائی دیئے۔ ایک جانب ن لیگی لکھتے ہیں کہ، یہ ن لیگ کی خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ ووٹرز انگریزی بولنا سیکھ گئے ہیں، جب کہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے حمایتوں نے لکھا کہ، ’’تبدیلی آرہی ہے، یہ عمران خان کی ہی دی ہوئی سوچ ہے، جس نے انہیں سوال کرنا سیکھایا ہے، ورنہ اس سے قبل کوئی سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا تھا‘‘۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری دن تک وفاقی وزیر رہنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سکندر بوسن سے ووٹروں کی تلخ کلامی بھی سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچتی رہی۔ کراچی میں تنخواہ سے محروم محکمہ تعلیم کے ملازمین نے پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو کو جب کھری کھری سنائیں، سابق ایم پی اے ڈاکٹر سہراب سرکی اور ضلع دادو میں سابق ایم پی اے عزیز جونیجو کو جس نوعیت کی عوامی عدالت کا سامنا کرنا پڑا، ایسی پیشیاں پہلے شاید کبھی نہیں ہوئی۔

سوشل میڈیا پر سیاسی تماشہ

سوشل میڈیا کے توسط سے ہی یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ سابق صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور نواب سردار چانڈیو نے سیاسی رواج کے مطابق ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں کے شیشے اتار کر ہاتھ ہلانے کی کوئی زحمت نہیں کی، کیونکہ جیالوں کا ہجوم بھپرا ہوا تھا، سابقہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو بھی نوجوانوں کا غم و غصہ جھیلنا پڑا، جبکہ مراد علی شاہ کو بھی اپنے آبائی علاقے میں ناراض ووٹرز نے گھیر لیا، جن سے جان چھڑانا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔

ایسی خبریں اب باقاعدگی سے الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا میں آرہی ہیں کہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے جتنے امیدوار اب تک حلقوں میں جانے کی ہمت کرسکے ہیں، ان کا لہجہ ماضی کی نسبت نم بھی ہے اور نرم بھی، آنکھیں بھی جھکی جھکی رہتی ہیں۔ سندھ کے مڈل کلاس شہری سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار اُن غلطیوں کا خمیازہ ہی بھگت رہے ہیں جو انہوں نے اپنے اقتدار کے دنوں میں انجام دئیے ہیں۔

وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں بہ خوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے خورشید شاہ، ناصر شاہ اور اسد سکندر بھی ناراض ووٹرز کے نرغے میں آگئے۔ ہوا کچھ یوں کہ، پیپلز پارٹی کے رہنما جب مہم کے دوران ووٹ مانگنے روہڑی اور جامشورو پہنچے تو ان کا استقبال ناراض ووٹرز نے کیا اور ان سے گزشتہ دس برسوں کا احتساب مانگ لیا۔ سابق صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ اور خورشید شاہ روہڑی کے نواحی علاقے میں جب کارنر میٹنگ سے خطاب کے بعد جانے لگے تو ایک جیالے نے گاڑی کے سامنے دھرنا دیتے ہوئے کہا کہ، کارکن کی یاد صرف انتخابات میں آتی ہے اور جب نوکریاں دینے کا وقت آتا ہے تو اپنوں اپنوں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔ کارکنان کے بڑھتے ہوئے احتجاج کو دیکھ کر سابق صوبائی وزیروں نے انہیں بنگلے پر آنے کا کہہ کر وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی۔ دوسری جانب جامشورو میں پیپلز پارٹی کے رہنما ملک اسد سکندر کو بھی ووٹرز نے گھیر لیا اور ان کے دور اقتدار کے دوران کارکردگی کے حوالے سے تلخ سوالات کرتے رہے مگر اسد سکندر کوئی موثر جواب نہ ہونے کے باعث وہاں سے چلے گئے۔ سندھ کے شہر جیکب آباد میں بھی کچھ ایسا ہی منظر اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایک ضعیف شخص نے انتخابی مہم کے سلسلے میں پھول باغ محلے میں گھر گھر ووٹ مانگتے پی ایس 1 کے نامزد امیدوار میر اورنگزیب خان پہنور کو کھری کھری سنادیں کہ، ’’گزشتہ پانچ برسوں سے غریب عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، پی پی نے کون سے ترقیاتی کام کیے ہیں جن کی بنیاد پر ہم انہیں ووٹ دیں‘‘۔ وڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ، امیدوار ضعیف ووٹر کو ہاتھ جوڑ کر شہید بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا واسطے دے رہا ہے مگر ووٹرز کے صاف انکار پر اسے علاقے سے مایوس لوٹنا پڑا۔ ایسا ہی کچھ تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کے ساتھ بھی ہوا جب وہ پانچ سال بعد ایک بار پھر اپنے حلقے این اے 247 میں ووٹ مانگنے گئے، پی ٹی آئی کے جیالوں کا کہنا تھا کہ، ’’ہم عمران خان کے سپوٹر ضرور ہیں مگر ہم تمہیں ووٹ نہیں دیں گے، بلکہ کسی نئے یا آزاد امیدوار کو ووٹ دینا پسند کریں گے۔ کیوں کہ ان پانچ برسوں کے دوران ایک بار بھی آپ نے اپنے حلقے کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی کوئی موثر اقدام کیے۔ عوام کو سستی تفریح مہیا کرنے والا علاقے کا واحد پارک بھی اجڑ گیا، جسے ایم کیو ایم نے اپنے دور میں بنوایا تھا‘‘۔ عوام کو سراپا احتجاج دیکھ کر عارف علوی خاموشی سے وہاں سے لوٹ گئے۔

سوشل میڈیا حالیہ دنوں میں جہاں عوامی رابطوں کا موثر ذریعہ بنا ہے وہیں پاکستان میں اب عام انتخابات سے قبل عوام کے ان مسائل کو سامنے لانے کا سبب بھی بنا ہے جو پہلے کم ہی منظر عام پر آتے تھے۔ گزشتہ ہفتے صوبہ سندھ کے پس ماندہ ضلع کشمور میں پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی کی نشست سے امیدوار سردار سلیم جان کا راستہ روک کر نوجوان ان سے علاقے میں گذشتہ دس برس، بلخصوص پانچ برس کے دوران ہونے والی ترقیاتی کاموں کے بارے میں سوالات پوچھے اور مسائل حل نہ ہونے کا رونا رو دیا، منظر عام پر آنے والی ایک وڈیو میں نوجوان سردار سلیم جان مزاری سے تعلیم کو نظر انداز کرنے اور تعلیم کے حق پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ساتھ علاقے میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔ اس وڈیو میں بظاہر سردار سلیم جان مزاری احتجاج کرنے والوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ نوجوانوں کو قائل نہیں کر پاتے۔

بات ناراض ووٹرز کی ہو رہی ہو اور لیاری کے ناراض ووٹرز کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ لیاری جسے پی پی پی کا گڑھ مانا جاتا ہے، جب بلاول بھوٹو زرداری نے انتخابی مہم کے دوران لیاری کا رخ کیا اور ووٹ کی اپیل کی تو ناراض جیالو نے بلاول کی گاڑی پر پتھراو کیا اور گاڑی کے شیشے توڑ دیئے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ پارٹی کا جھنڈا بھی نظر آتش کر دیا۔ پانی کی بوند بوند کو ترستے لیاری کے عوام نے ’’پہلے پانی دو پھر ووٹ لو‘‘ اور ’’جب تک نہیں ہے پانی نلکے میں، شکل نہیں دکھانا حلقے میں‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ انتخابات سے قبل سیاسی رہنماؤں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہوئے کئی معروف سیاسی شخصیات کے جعلی اکاؤنٹ بھی بنائے گئے، ایک جانب ان سے کی جانے والی ٹوئیٹس اور پوسٹ ان کے کردار کو مشکوک بناتی ہیں۔ تو دوسری جانب کئی جعلی وڈیوز اور تصاویر بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ جن میں کبھی کسی بزرگ کو مارتی ہوئی خاتون کو ناز بلوچ کا نام دیا گیا ہے تو کبھی کسی بچے کی پٹائی صرف اس لیے کی گئی ہے کہ اس نے پی ٹی آئی کا پوسٹر پھاڑا ہے۔سیاسی گہماگہمی کے ماحول میں جہاں سوشل میڈیا ایک موثر ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے، وہیں جعلی خبروں کے باعث انتخابات کا پانسہ پلٹنے کا بھی سبب بن سکتا ہے اب آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا۔

2008ء میں پہلی بار انتخابی مہم چلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو 2008 کے امریکی انتخابات سے قبل صرف عوامی رابطوں کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا، مگر سابق امریکی صدر بارک اوباما نے پہلی بار اس ذرائع ابلاغ کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کرکے کم خرچ میں کامیاب مہم چلا کر دیگر سیاست دانوں پر دھاگ بٹھا دی تھی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانے کے لیے باقاعدہ ٹیم تشکیل دی جو ڈیموکریٹک پارٹی کے منشور، نظریات اور پروگراموں کا منظم انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچاتی۔ اس انتخابی مہم کی کام یابی کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ صرف امریکا میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی کم و بیش تمام سیاست دانوں نے اپنی اپنی ویب سائٹس، ٹوئیٹر اکاؤنٹ، فیس بک و انسٹاگرام پیچ تخلیق کیے ہیں۔ جن کے ذریعے وہ عوام کو پارٹی کے منشور، نظریات، سرگرمیاں اور منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے اور زور و شور سے سوشل میڈیا انتخابی مہم چلاتے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین کا ڈیٹا امریکی انتخابات اور بریگزٹ پر اثر انداز

رواں سال مارچ کے وسط میں برطانوی ’’چینل 4‘‘ نے ایک خفیہ آپریشن کے بعد یہ انکشاف کیا کہ، عالمی سطح پر کام کرنے والی برطانوی سیاسی مشاروتی فرم ’’کیمبرج اینالیٹیکا‘‘ نے گلوبل سائنس ریسرچ کے تعاون سے 2014ء میں ’’This is your digital life‘‘ نامی ایک ایپ تیار کی۔ جس میں صارفین کو سائیکالوجیکل ٹیسٹ لینے کا کہا گیا اور اس کے ذریعے ان کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ بعدازاں فیس بک کے ذریعے حاصل کی گئی صارفین کی معلومات اکھٹی کرکے برطانوی سیاسی مشاروتی فرم ’’کیمبرج اینالیٹیکا‘‘ کو فروخت کردیا گیا۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ، ان معلومات کا استعمال مختلف مقاصد کے لیے کیا گیا، جن میں 2016 میں امریکی صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی کامیابی، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم ’’بریگزٹ‘‘ کو ممکن بنانے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا چوری کرکے نتائج کو متاثر کرنے سمیت مختلف ممالک میں الیکشن پر اثر انداز ہونا بھی شامل ہے۔

وائرل ہونے والی چند دلچسپ پوسٹس

سوشل میڈیا پر سیاسی تماشہ
سوشل میڈیا پر سیاسی تماشہ


تازہ ترین