اقوام کی پہچان ان کی ثقافت کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ثقافت محض زندگی گزارنے کے طور طریقوں اور روایات کا نام نہیں ہے بلکہ انسانی معاشروں میں ثقافت زندگی اور معاشرتی معاملات کو حقیقی مقام عطا کرتی ہے۔ثقافت نہ صرف تشخص کو بناتی ہے بلکہ اس کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی ہے۔فنون لطیفہ ثقافت کے اظہار اور اس کو فروغ دینے کاا ہم ترین ذریعہ رہے ہیں۔انسانی معاشروں میں میڈیا کی آمد سے قبل فنون لطیفہ کا اظہار اجتماعی مواقع پر ممکن ہوتا تھا۔معاشروں میں رائج میلے اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں فنون لطیفہ کے اظہار کے اہم ترین مواقع گردانے جاتے تھے۔میڈیا کی ایجاد اور مقبولیت کے بعد فنون لطیفہ کے فروغ کے نئے ذرائع میسر آگئے۔ ان ذرائع میں پریس، اخبارات، ریڈیو، فلم، ٹی وی اور انٹرنیٹ شامل ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ محض معلومات کی بروقت فراہمی کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ ان ذرائع کے ذریعے سے انسانی معاشروں کی تفریحی ضروریات کو بھی پورا کیا گیاہے۔ معاشرتی تفریحی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فنون لطیفہ کی اصناف میں جدت پیدا کی گئی۔ فلم، ڈرامہ، موسیقی، رقص اور دیگر پرفارمنگ آرٹس میں آنے والی جدت کی ایک بنیادی وجہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے ان کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔
اس حوالے سے جنم پانے والے رجحانات میں ایک اہم رجحان پر فارمنگ آرٹس کا کمرشل استعمال بھی ہے۔ اس کمرشل استعمال نے مختلف معاشروں میں رائج پرفارمنگ آرٹس کی اصل ہئیت کو متاثر کیا۔ ان اثرات کو دنیا بھر کے پرفارمنگ آرٹس سے وابستہ افراد اور گروہوں نے محسوس کیا اور اس حوالے سے مختلف حکمت عملیوں کو ترتیب بھی دیا گیا۔ اس ضمن میں اہم ترین حکمت عملی معاشروں میں صدیوں سے رائج فنون لطیفہ کی مختلف اصناف کو فروغ دینا ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے فنون لطیفہ کی اصناف کو جدت سے ہمکنار کرنا بھی شامل ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ گلوبلائزیشن کی لہر نے انسانی معاشروں کے مروجہ ثقافتی ڈھانچوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ پاکستان بھی ان معاشروں میں شامل ہے۔ پاکستان کے لیے چیلنج ہمیشہ دوہرا رہا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی ثقافتی لہر کے ساتھ ہندوستانی ثقافتی لہر سے بھی نبردآزما ہونا پڑا ہے۔
آزادی کے بعد سے آج تک پاکستان کے ثقافتی حلقوں سے وابستہ افراد اس جدو جہد میں مصروف رہے ہیں کہ کس طرح سے پاکستانی ثقافت کی حقیقی پہچان اور اس سے وابستہ اظہار کے مختلف طریقوں کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اس ضمن میں پاکستانی فنکاروں نے ملک میں ثقافت کے فروغ کے لیے گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ پاکستانی فنکاروں کی ان کاوشوں میں ملک میں موجود کئی اداروں نے ان کا نہ صرف حوصلہ بڑھایا بلکہ فن کے میدان میں قیادت بھی مہیا کی۔ اس حوالے سے جیو ٹیلی وژن نیٹ ورک کا کردار قابل تحسین ہے۔ اس وقت جیو ٹی وی پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے۔ جیو نہ صرف خبروں اور معلومات کی فراہمی میں نئے رجحانات اور ریکارڈز قائم کر چکا ہے بلکہ تفریحی حوالوں سے جیو انٹرٹینمنٹ کا کردار بھی مثالی ہے۔اپنے قیام سے لیکر آج تک جیو انٹرٹینمنٹ نے ٹی وی ڈرامہ، موسیقی، شوز اور فلم کے حوالے سے ہمیشہ نت نئے رجحانات کو فروغ دیا ہے۔ جیو کے بینر تلے بننے والی پروڈکشنز اپنے سکیل اور مواد کے حوالے سے اعلیٰ معیار کی ہیں۔ جیو انٹرٹینمنٹ پر نشر ہونے والے ٹی وی ڈرامہ سیریز اور سیریلز کی ایک لمبی فہرست ہے۔
جیو نے اپنے پروگرامز میں ہمیشہ نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ جیو کے ڈراموں میں نئے ہیرو اور ہیروئنز کو موقع دیا گیا۔ علاوہ ازیں لا تعداد کریکٹر ایکٹرز کو بھی اچھے کرداروں کے لیے پرفارم کرنے کے لیے جیو نے مواقع مہیا کیے۔ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کے بڑے ناموں کے کیرئیر کو بنانے میں جیو کے ڈراموں کا اہم کردار ہے۔ ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ محض اداکاری کے لیے مختلف مواقع کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ پروڈکشن اور ڈائریکشن کے مختلف شعبہ جات میں بھی جیو نے نئے اور ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کو مواقع مہیاکیے۔ اس حوالے سے جیو انٹرٹینمنٹ پاکستان میں ٹی وی انڈسٹری کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھتا ہے۔ پاکستانی ڈراموں کی ہدایتکاری کے بڑے ناموں کے کیرئیر میں جیو نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
قومی حوالے سے جیو کا اصل کارنامہ ملک میں پرفارمنگ آرٹس اور ثقافت کے دوسرے شعبہ جات کے لیے سازگار ماحول کو مہیا کرنا ہے۔جیو نے ملک میں ثقافتی گھٹن کو ختم کیا ہے اور تخلیقی ذہن رکھنے والے مردوخواتین کو ایسے بے شمار مواقع مہیا کیے ہیں جن میں ان کی صلاحیتوں کا حقیقی معنوں میں اظہار ہو سکے۔جیو ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈراموں میں موضوعات کے حوالے سے خاصا تنوع دکھائی دیتا ہے۔جیو کے ڈراموں میں پاکستانی معاشرے میںبسنے والے تمام طبقات کو بھر پور نمائندگی ملتی ہے۔جیو نے اپنے ڈراموں اور دیگر پروگرامز کے ذریعے سے عوام میں حساس معاملات کے حوالے سے شعور اور آگہی بھی پیدا کی ہے۔
ٹی وی پروڈکشن کے سکیل کووسعت دینے کے حوالے سے بھی جیو نے نئے رجحانات کو اپنایا اور فروغ دیا۔جیو کے بینر تلے بننے والے کئی ڈرامے اپنی پروڈکشن کے سکیل کے حوالے سے پاکستان میں بالکل نئے تجربات قرار دیے جا سکتے ہیں۔جیو کے ابتدائی برسوں میں بننے والا ڈرامہ امرائوجان ادا اور حالیہ برسوں میں بننے والا ڈرامہ مور محل اس کی واضح مثالیں ہیں۔ان ڈراموں کو تخلیق کرنے کے لیے جس تخلیقی عرق ریزی کا استعمال کیا گیااس کی کوئی نظیر پاکستانی ٹی وی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
حال ہی میں نشر ہونے والا ڈرامہ سیریل خانی نے بھی مقبولیت اور کامیابی کے نئے ریکارزڈ قائم کیے ہیں۔ خانی کی کہانی معاشرے میں موجود ناانصافیوں،انسانی غلط فیصلوں اور جذبات و احساسات کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ خانی کی ہدایتکاری انجم شہزاد نے دی تھی جبکہ خانی عبداللہ قادوانی اور اسد قریشی نے پروڈیوس کیا تھا۔ڈرامہ کے مرکزی کردار خانی کو ثنا جاویداور میر ہادی کے کردار کو فیروز خان نے پرفارم کیا۔ خانی نے ٹی وی ریٹنگز کے حوالے سے بھی نئے ریکارڈز قائم کیے ہیں۔خانی کے اداکاروں کی اداکاری، کہانی کے جذباتی موڑ،ڈائریکشن کے انداز اور پروڈکشن کے سکیل نے ٹی وی ڈرامہ کے حوالے سے نئے معیارات کا تعین کیا ہے۔
جیو پر اس وقت گھر تتلی کا پر،کیف بہاراں، روبرو عشق تھا، تہمت اور سلسلے کے ٹائٹل کے ساتھ ڈرامہ سیریلز نشر ہو رہے ہیں۔ان ڈرامہ سیریلز میں نئے اور سینئر اداکاروں کا کمبی نیشن دکھائی دیتا ہے۔ان ڈرامہ سیریلز کی کہانیاں دلچسپ ہیں اور پاکستانی ناظرین کی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شائقین میں یہ ڈرامہ سیریلز خاصے مقبول ہیں۔