• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب جب انتخابات چرائے گئے...خواجہ محمد آصف…رکن قومی اسمبلی

جناب قمر زمان کائرہ کو ہم پیپلزپارٹی کے ان چند رہنماؤں میں شمار کرتے ہیں جو دلیل اور منطق کے آدمی ہیں لیکن اصغر خاں کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر ٹی وی ٹاک شوز میں ان کی گفتگو اور اخبارات میں شائع ہونے والا ان کا حالیہ طویل آرٹیکل ان کے حوالے سے حسن ظن رکھنے والوں کے لئے خاصا غیرمتوقع تھا۔ یہی آرٹیکل اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ وہ وفاقی وزیراطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے اخبارات پر خصوصی استحقاق رکھتے ہیں ورنہ اس مضمون کے قارئین ہماری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ ہزار ہا الفاظ پر مشتمل اس تحریر میں وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ہیر پھیر کر ایک ہی بات، 1990ء کے انتخابات چرائے گئے تھے، 1988ء کے انتخابات (جن میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں) بھی فیئر اور فری نہیں تھے اس کے بعد سارا زورِ بیاں نوازشریف کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑنے پر صرف ہوا ہے۔ کائرہ صاحب نے 1990ء کے انتخابات کی چوری کی بات کی ہے تو اس حوالے سے پاکستان کی تاریخ کے کچھ اور صفحات بھی کیوں نہ الٹ لئے جائیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء کی دہائی میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں جو دھاندلی ہوئی اس نے سیاسی لغت کو ”جھرلو“ کا ایک نیا لفظ دیا۔ پاکستان کے پہلے دستور 1956ء کے نفاذ کے بعد فروری 1959ء کے متوقع انتخابات اکتوبر 58ء کے مارشل لاء کی نذر ہوگئے (جناب ذوالفقار علی بھٹو، سکندر مرزا اور ایوب خاں کی کابینہ میں شامل تھے) بالغ رائے دہی کی بجائے بنیادی جمہوریتوں کی بنیاد پر ہونے والے 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت کو بدترین دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا گیا تب بھٹو صاحب فیلڈمارشل ایوب خاں کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور صدارتی انتخاب میں ان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے متحدہ پاکستان کے پہلے (اور آخری) عام انتخابات کے حوالے سے عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ آزادانہ اور منصفانہ تھے لیکن 300 ارکان پر مشتمل نومنتخب اسمبلی میں 160 نشستیں رکھنے والی شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے ساتھ جو کچھ ہوا اور یہ نتائج 25 مارچ 1971ء کے ملٹری آپریشن کی جس طرح بھینٹ چڑھ گئے اسے کیا کہا جائے گا؟ ”دھاندلی“ اور ”جھرلو“ جیسے الفاظ تو یہاں بہت نرم دکھائی دیتے ہیں۔ اس عمل میں چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں کے حامی و موٴید بلکہ عملاً بھی معاون و مددگار کون تھے؟
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی کہانی بھی بدترین دھاندلیوں سے آلودہ نظر آتی ہے۔ صرف لاہور میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ 6 کے ضمنی الیکشن میں تاجپورہ کے خونی سانحہ کی مثال ہی کافی ہے۔ پھر 1977ء کے عام انتخابات، جن میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ناقدین نے اسے Mother of all riggings قرار دیا جس کا آغاز ہی لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کے بلامقابلہ انتخاب سے ہوا کہ ان کے حریف مولانا جان محمد عباسی کاغذاتِ نامزدگی سے قبل ہی اغوا کر لئے گئے تھے۔ پھر چاروں صوبائی وزراعلیٰ کے بھی بلامقابلہ انتخاب کا اعلان کردیا گیا۔ پنجاب کے سینئر منسٹر بھی یہ ”اعزاز“ حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ سندھ میں 26 اور بلوچستان اسمبلی کی کل 40 نشستوں پر 26 امیدوار بلامقابلہ قرار دے دیئے گئے۔ اس بدترین دھاندلی کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک برپا ہوئی۔ بھٹو صاحب ملک کے بڑے شہروں میں کرفیو اور جزوی مارشل لاء لگانے پر مجبور ہوگئے۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوگوں نے بندوقوں کے سامنے سینے کھول دیئے۔ لاہور میں اس واقعہ پر اسی شام 3 بریگیڈیئرز نے استعفے دے دیئے۔ پہیہ جام کی کال دی گئی تو لوگ ٹرینوں کے سامنے پٹڑیوں پر لیٹ گئے۔ 14 مارچ سے 27 مئی تک احتجاجی تحریک کے دوران خود اٹارنی جنرل کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق 241 افراد جاں بحق ہوئے۔ جیلوں اور حوالاتوں میں گرفتار شدگان کی تعداد 83 ہزار 825 تھی۔ زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی۔ بالآخر بھٹو صاحب نے دھاندلی کے الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے ملک بھر میں از سر نو انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔ ان کے آزادانہ و غیرجانبدارانہ انعقاد کا میکنزم طے کرنے کے لئے ہونے والے مذاکرات 5 جولائی کو مارشل لاء پر منتج ہوئے۔
پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے بات طویل ہوگئی۔ کائرہ صاحب نے 1988ء کے انتخابات کو بھی دھاندلی زدہ قرار دیا ہے جن میں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 93 اور آئی جے آئی نے 54 نشستیں جیتی تھیں۔ پیپلزپارٹی تنہا حکومت سازی کے لئے اکثریت سے محروم تھی۔ آئی جے آئی وزارت عظمیٰ کے لئے نامزدگی سے قبل سپیکر کے انتخاب کا مطالبہ کررہی تھی۔ تب جنرل اسلم بیگ محترمہ کی مدد کو آئے۔ امریکی سنیٹرز کا ایک وفد بھی اسلام آباد پہنچ چکا تھا۔ آخر صدر غلام اسحق خاں نے سپیکر کے انتخاب سے قبل ہی محترمہ کو وزیراعظم نامزد کر دیا جس کا صلہ انہوں نے ایم آر ڈی میں اپنے بزرگ حلیف نوابزادہ نصراللہ خاں کے مقابلے میں اسحق خاں کو صدر منتخب کراکے دیا۔ جنرل اسلم بیگ تمغہٴ جمہوریت سے سرفراز ہوئے۔ پنجاب میں نوازشریف کی اکثریت کے باوجود وزارت اعلیٰ کے لئے ان کی نامزدگی کو رکوانے اور بعد میں ان کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کے لئے پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے جو کوششیں کیں وہ ایک الگ موضوع ہے۔ 1988ء میں آئی جے آئی کا قیام عمل میں آیا تو اس کے بانی صدر جناب غلام مصطفی جتوئی تھے۔ 1990ء میں محترمہ کی برطرفی کے بعد نگران وزیراعظم بھی انہی کو بنایا گیا کہ عام انتخابات کے بعد وزارت عظمیٰ کے لئے ایوانِ صدر اور اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار بھی وہی تھے۔ نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کا راستہ کس طرح ہموار ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ جہاں تک انتخابات میں پیسے کی تقسیم کا الزام ہے خود جنرل بیگ یہ کہہ چکے کہ نوازشریف نے کوئی پیسہ نہیں لیا تھا، میاں صاحب بھی انکاری ہیں، سپریم کورٹ نے بھی کوئی حتمی بات کہنے کی بجائے اس کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے اور خود میاں صاحب رحمن ملک کی ایف آئی اے کے ذریعے ہونے والی تحقیقات کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہیں۔ اصغر خاں کیس جنرل درانی کے 1994ء کے ”بیانِ حلفی“ پر مبنی تھا۔ نوازشریف کی پہلی حکومت کے خلاف یہی جنرل درانی وردی سمیت پیپلزپارٹی کی میٹنگوں میں شریک ہوتے رہے اور ان خدمات کا صلہ انہوں نے محترمہ کی دوسری حکومت میں جرمنی میں سفارت کی صورت میں پایا۔وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے چند روز بعد آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ سے انہوں نے شکایت کی کہ ان سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے جارہے۔ جنرل کاکڑ نے ان وعدوں سے اظہارِ لاعلمی کیا تو محترمہ کا کہنا تھا کہ یہ وعدے جنرل درانی نے کئے تھے جس پر آرمی چیف نے انہیں قبل از وقت ریٹائر کردیا۔ 1990ء کی جس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیا جارہا ہے، بے نظیر صاحبہ اسی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کی چیئرپرسن بنیں۔ ان کا نام امورِ خارجہ کے وزیرمملکت صدیق خاں کانجو نے تجویز کیا تھا اور شہبازشریف نے تائید کی۔ اسی اسمبلی کی قائد حزب اختلاف (محترمہ بے نظیر بھٹو) کے لئے وزیراعظم کی خواہش پر وفاقی وزیر کا پروٹوکول طے کیا گیا اور محترمہ یہ تمام مراعات وصول فرماتی رہیں۔ اسی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کرکے جیل سے جنابِ زرداری کی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کا اہتمام کیا گیا۔ (جاری ہے)
تازہ ترین